آہ! ہم آج بھی لکیر کے فقیر ہیں

تاریکی کی شب کے کئی ’یاجوج ماجوج‘ آج بھی اس لکیر کو چاٹتے ہیں لیکن فرشتے ہر صبح اسے پھر وہیں لے آتے ہیں۔بس انتظار کی زنجیر وقت کے پاؤں میں ہے اور جدل کا پیمانہ گردش میں۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

اکبر میو

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا ‘

مرشد فرماتے ہیں کہ لاکھوں سال پہلے کوہ ہمالیہ کی کھوکھ سے پیدا ہونے والی جمنا اپنے ہم زاد کو ڈھونڈنے پہاڑوں سے نیچے اتری۔ سینکڑوں کوس طے کر کے دلی پہنچی تو بھوکا پیاسا راجستھان بانہیں کھولے کھڑا تھا۔ لیکن محبت کی دیوی جمنا کو گنگا کی یاد نے بھٹکنے نہ دیا۔ بقول ناصر کاظمی ، ’ناصر یوں اسکی یاد چلی ہاتھ تھام کے ، میلے میں اس جہان کے کھونے نہیں دیا ۔‘ للچائی نظروں سے بچ کے جمنا یوپی کی مشرقی سرحد کے ساتھ سر پٹ دوڑتی رہی۔ راجستھان کو ایک بوند بھی نہ ملی ۔ ساڑھے آٹھ سو میل طے کر کے تھکی ماندی الہ آباد پہنچی تو گنگا نے اسے ایسے گلے لگایا کہ دیکھنے والے آج بھی حسرت بھرتے ہیں۔

جمنا ہندوستان میں بہنے والے سب سے بڑے دریا کا درجہ رکھتی ہے جو کسی سمندر میں نہیں گرتا۔ یہ محبت کی بے کراں ندی ہے جو کسی ساگر پہ نہیں مرتی ۔ کچھ تو ہجرو غم اور صدیوں کی مسافت نے عمر رفتہ کے اس نمونہ جمال کا حسن نوچ لیا ہے رہی کسر دلی والوں نے پوری کر دی ہے۔ طرح طرح کی کثافتوں سے اب اسکا رنگ گدلا ہو چکا ہے۔مغل بادشاہوں نے کئی سو سال جمنا کنارے آگرہ سے پورے ہندوستان پے حکومت کی۔ اور پھر تحفے میں آگرہ کو تاج محل دے گئے۔

تاج محل کی بنیاد اینٹوں یا کنکریٹ کی بجائے لکڑیوں کی ایک خاص ترتیب پے رکھی گئ ہے۔ جمنا کا پانی محبت کی اس علامت کی جڑوں میں پیوست لکڑیوں کو زندگی بخشتا ہے۔ آرکیٹیکچر ل انجینئرز کا دعوی ہے اگر جمنا نےکبھی اپنا رخ موڑا تو نہ صرف تاج محل کا چاند باغ سوکھ جائے گا بلکہ پانچ سالوں میں محبت کی ایک پوری داستان زمین بوس ہو جائے گی۔ یہ چشم تر کے سیلابوں سے سیراب ہوتی ہے ہمیں یقین ہے جمنا ابھی نہیں سوکھے گی۔البتہ ہمارے گناہوں کی سیاہی اسکا رنگ مزید گدلا کر دے گی ۔جمنا حجم کی بڑی ہے تو گنگا سبک رفتار۔ گنگا ہندو مذہب کا مقدس ترین دریا ہے۔ ملک بھر کے طو ل وعرض میں گنگا جل کو مذہبی رسومات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ہر بارہ برس بعد کرہ ارض پر انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع کمبھ کا میلہ آلہ آباد میں ان دو دریاؤں کے سنگم پر ہوتا ہے۔ ہندوستان کے آزاد خیال سیکولر بانی وزیراعظم کی خواہش تھی کہ انکی ارتھی کی راکھ اس دریا میں بہائی جائے۔ سن 1583 کی ایک خشگوار شام بادشاہ اکبر کوہ ہمالیہ سے بچھڑی دو دوشیزاؤں کے سنگم پہ پہنچا تو کشش اتصال نے مزید پہل قدمی سے روک دیا۔

پورے چار مہینے گزارے اور شہر آلہ آباد کی بنیاد رکھی۔ بڑے اتفاق کا معاملہ ہے کہ متحدہ ہندوستان میں مرشد کے دادا اور دادی آلہ آباد میں گنگا اور جمنا کی طرح ملے تو ملک میں جداگانہ انتخابات کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ نتائج آئے تو ریاست ہندوستان کے سینے پر ایک آزاد منش فرنگی نے عالم شوخی تحریر میں خون ملت سے ایک لکیر سینچی جس نے متبرک دریاؤں کی اس سر زمین کو لہو لہان کر دیا۔ یہ لکیر خلاؤں سے کہیں اوپر آسمانوں کو نظر آئی تو نیچے زمین پے عبرت کی وعید اتری۔یوں آج بھی ہم اس لکیر کے فقیر ہیں۔

دھرتی کے بیٹوں نے اس لیکر کو اتنا پیٹا ہے کہ یہ نفرت کا عالمی ٹریڈ مارک بن چکی ہے۔ شاعروں ، مفکروں، ادیبوں اور غدار اہل علم کو بین ڈالتے ہوئےعمریں بیت گئی ہیں لیکن انکی آواز رزم جوؤں(Warmongers)کے نکارخانے میں طوطی کی حیثیت بھی نہیں رکھتی۔ اس لکیر پہ دو ایک جگہ روزانہ سر شام ایک جوتا کشائی کی رسم ہوتی ہے جسے دیکھنے عقل و فہم کے پیادے جمع ہوتے ہیں اور اپنی قسمت کے کھوٹے سکوں پہ ناز کرتے ہیں۔

ماضی میں کئی گاموں اور ماجھوں نے اس لکیری خندق پہ پل پاٹنے کی ٹھانی تو کافر ٹھہرے، دار پہ لٹکے، غدار کہلائے یا غریب الوطنی انکا مقدر ٹھہری۔ تاریکی کی شب کے کئی ’یاجوج ماجوج‘ آج بھی اس لکیر کو چاٹتے ہیں لیکن فرشتے ہر صبح اسے پھر وہیں لے آتے ہیں۔بس انتظار کی زنجیر وقت کے پاؤں میں ہے اور جدل کا پیمانہ گردش میں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔