رانی لکشمی بائی: بلند کردار، شجاعت اور دلیری کا مجسمہ...یوم پیدائش کے موقع پر خصوصی پیش کش

جھانسی والی رانی لکشمی بائی نے فرنگیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے شہادت کو ترجیح دی ان کی بہادری کی داستان کالپی اور جھانسی کے ذرے ذرے میں پیوست ہے

رانی لکشمی بائی / تصویر شاہد صدیقی علیگ
رانی لکشمی بائی / تصویر شاہد صدیقی علیگ
user

شاہد صدیقی علیگ

رانی لکشمی بائی ایک بلند کردار، شجاعت اور دلیری کا مجسمہ تھیں، انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف اس وقت کمان سنبھالی جب ہندوستان کے جیالوں کی فتح کے امکان معدوم ہو چکے تھے۔ تاہم انہوں نے فرنگیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے شہادت کو ترجیح دی۔ ان کی بہادری کی داستان کالپی اور جھانسی کے ذرے ذرے میں پیوست ہے۔

کرنل مالیسن لکھتا ہے کہ، برطانوی نظروں میں ان کی جو بھی خامیاں ہوں، مگر ان کے ہم وطن ہمیشہ یہ مانیں گے کہ انہوں نے انگریزوں کے غاصبابہ پالیسی کے باعث بغاوت کا علم بلند کیا، جن کا ایک نیک مقصد تھا اور ان کے لیے وہ ہمیشہ ہیروئن رہیں گی۔

رانی لکشمی بائی 19 نومبر 1828 کو بنارس میں پیدا ہوئیں۔ ان کے بچپن کا نام مانی کارنیکا تھا لیکن پیار سے انہیں مانو کہا جاتا تھا۔ ان کی والدہ کا نام بھاگیرتھی بائی اور والد کا نام موروپنت تامبے تھا۔ موروپنت مراٹھی تھے اور باجی راؤ کی دربا ر سے منسلک تھے۔

لکشمی بائی کی تعلیم و تربیت پر ان کے والد صاحب نے خاص توجہ دی، جنہیں صحیفوں کے ساتھ فنون حرب سے بھی آراستہ کیا گیا۔ان کی شادی 1842 میں جھانسی کے مراٹھا حکمراں راجہ گنگادھر راؤ نیوالکر سے ہوئی اور وہ جھانسی کی ملکہ بن گئیں۔ شادی کے بعد ان کا نام لکشمی بائی رکھا گیا۔ ستمبر 1851 میں رانی لکشمی بائی کے گھر ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی، مگر محض چار ماہ کی عمر میں اس کا انتقال ہو گیا۔ 1853 میں جب راجہ گنگادھر راؤ کی طبیعت خراب ہوئی تو انہیں کوئی بچہ گود لینے کا مشورہ دیا گیا۔ راجہ گنگادھر راؤ نے ایک بیٹا گود لینے کے بعد 21 نومبر 1853 کو وفات پائی۔ گود لیے ہوئے بیٹے کا نام دامودر راؤ رکھا گیا۔


لارڈ ڈلہوجی کی غاصبانہ پالیسی کے تحت کمپنی اقتدار اعلیٰ نے گود لیے بچے دامودر راؤ کو ان کاحقیقی وارث ماننے سے انکار کر دیا۔ رانی نے وکیل جان لینگ سے اس کی بابت صلاح و مشورہ کیا، قانونی چارہ جوئی بھی ہوئی مگر جب بگڑ جاتی ہے ظالم کی نیت کے مصداق کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

13 مارچ 1854 کے حکم کے بعد برطانوی انتظامیہ نے سرکاری خزانے کو ضبط کر لیا اور ملکہ کے سالانہ اخراجات میں سے اس کے شوہر کے قرضوں کی کٹوتی کا حکم نامہ جاری کیا۔ نتیجتاً ملکہ کو جھانسی کا قلعہ چھوڑ کر جھانسی کے رانی محل جانا پڑا لیکن رانی لکشمی بائی نے ہمت نہ ہار کر فریبی انگریزوں کو سبق سکھانے کا تہہ کر لیا۔

رانی نے جھانسی میں انقلاب کی کمان سنبھالی جن کے ساتھ معاشرہ کا ہر طبقہ بھی شامل ہو گیا۔ ریاست ِ جھانسی میں 4 جون کو سب سے پہلے 12 نمبر ہندوستانی پلٹن کے حولدار گوروبخش نے قلعہ کی میگزین اور خزانہ پر قبضہ کر کے بغاوت کی صدا بلند کر دی۔6 جون کو جیل داروغہ بخشش علی بھی انقلابی مہم میں شریک ہو گئے۔ مولانا احسان علی نے مسلمانوں کو جنگ آزادی کے قافلے میں شامل ہونے کی درخواست کی تو اہلیان جھانسی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر سڑکوں پر نکل آیا۔

7 جون کو بخشش علی کی رہنمائی میں سردار کالے خاں رسالدار اور تحصیل دار محمد حسین نے قلعے پر حملہ کر دیا۔ انگریزوں نے حالات دیکھ کر ہتھیار ڈال دیے۔ خلقت خدا کی، ملک شہنشاہ کا اور حکومت رانی لکشمی بائی کے فلک شگاف صدا فضا میں گونجنے لگی۔ مگر انگریز بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے۔ جنرل سر ہیو روز کو 17 دسمبر 1857 بمبئی کے حکام نے شمالی ہند کے انقلابیوں کو شکست دینے کے لیے بھیجا، جو 16 مارچ 1858 کو جھانسی جا پہنچا، جس نے لکشمی بائی کے 21 مارچ کو قلعہ پر محاذ قائم کردیا۔سرہیو روز کی فوج کے ساتھ بریگیڈئیر اسٹوورٹ بھی آملا۔ رانی نے باندہ نواب علی بہادر ثانی سے فوجی امداد کی درخواست کی تو انہوں نے اپنی فوج کے تین ہزار سپاہ کو جن میں ایک ہزار قواعد واں اور تین سو گولنداز تھے رانی کی مدد کے لیے جھانسی روانہ کیا۔


رانی نے کمپنی کی فوج پہنچنے سے قبل ہی جھانسی کے قرب و جوار کو ریگستان میں تبدیل کر دیا تھا تاکہ برطانوی حملہ آور فوج کو رسد وغیر ہ نہ دستیاب ہو لیکن مہاراجہ سندھیا نے اور ٹہری رانی نے کمپنی کی فوج کے لیے رسد، گھاس وغیرہ کا اتنا اچھا انتطام کر دیا تھا کہ اس فوج کو کسی طرح کی پریشانی نہ ہوئی۔ رانی نے اپنی دیکھ ریکھ میں تمام محاذ تیار کرائے اور قلعے کی فصیلوں پر توپیں لگوائیں۔

24 مارچ کو برطانوی فوج جھانسی پر حملہ آور ہوئی تو اسے منھ کی کھانی پڑی۔ دو دن تک جھانسی کا پلڑا بھاری رہا۔ شہر کے پرانے لوگوں کو مورچے کی جانکاری تھی انگریزوں کو پتا نہیں تھا۔ غداروں کی وجہ سے تین دن بعد انہیں سارے ٹھکانے معلوم گئے۔ 26 مارچ کو توپ خانے کے کمانڈر غلام غوث خاں کی شدید گولہ باری کی زد میں آکر انگریزی اعلیٰ کمانڈر ماراگیا تو رانی نے غلام غوث خاں کو سونے کا کڑا انعام میں دیا۔ بارہویں دن، جنوب میں سردار دولاجی سنگھ پردیسی نے کمان سنبھالی چار ہزار فوجیوں کے ساتھ، دولاجی کے پاس توپیں تھیں لیکن غداروں نے توپوں کی جگہ باجرہ بھر دیا۔

آخرکار 2 اپریل کی یلغار آخری لڑائی ثابت ہوئی، غلام غوث خاں اور خدابخش کی گولہ باری سے انگریزوں میں خوف و حراس پھیل گیا، مگر ہیو روز نے رانی کی4000؍ سپاہیوں کے سردار ’دولاجی سنگھ کی مخبری سے قلعے کی شکستہ دیوارپر شدید گولہ باری کرکے منہدم کر دیا۔ فرنگی اندر داخل ہو گئے۔ بہادر انقلابی ایک ایک انچ پرسخت مزاحمت کر رہے تھے۔ غوث خاں اورخدابخش نے اپنی جانیں مادر وطن پر نچھاور کر دیں۔ پھاٹک کا دربان خداداد خاں 2 اپریل 1858 کو قلعے کی آخری خندق کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو گیا۔ اس وقت قلعے میں ڈیڑھ ہزار افغانی فوجی موجود تھے۔ انہوں نے تلوار وں سے لڑائی شروع کر دی۔ رانی منھ میں گھوڑے کی لگام د بائے شمشیرزنی کرنے لگی، جسے دیکھ کر کیپٹن روڈرک بریگز نے خود آگے بڑھ کر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن رانی کے گھوڑسواروں نے فوراً شیر کی تیزی دکھاتے ہوئے اسے گھیرلیا اور اس پر حملہ کر دیا، رانی کی حفاظت کرتے ہوئے سردار برہان الدین نے اپنی جان دے دی۔

کچھ لوگوں کو زخمی کرنے اور مارنے کے بعد، روڈرک آگے بڑھا، اسی بیچ اسے وہ جنرل روز کی تازہ دم اونٹ سواروں کی کمک آ گئی۔ جس کی وجہ سے ہاری ہوئی بازی پلٹ گئی۔ کانٹے کی ٹکر ہوئی، انگریزوں نے بندوقوں سے حملہ شروع کر دیا، رانی کے افغانی دستے کے پاس بندوقیں نہیں تھیں۔ مقابلہ ایک طرفہ ہو گیا اور انگریزی فوج نے قلعہ میں داخل ہوتے ہی قتل وغارت گیری کا ننگا ناچ شروع کر دیا۔ 4 پریل 1858 کو انگریز جھانسی اپنا پرچم لہر دیا اور رانی رات کے اندھیرے میں جھانسی سے نکل کر کالپی پہنچ گئی اور انہوں نے 2 جون 1858 کو جیاجی راؤ سندھیا کی ریاست گوالیار پر قبصہ کر لیا۔


17 جون 1857 سر ہیو روزبرگیڈ یر اسمتھ اور میجر روزنے گوالیار پر حملہ کر دیا، ’’رانی کے ساتھ نواب باندہ نواب علی خاں بہادربھی جنگی محاذ پر موجود تھے۔ انقلابیوں نے کڑی ٹکر دی جسے دیکھ کر انگریزوں کے ہوش اڑ گئے۔ رانی کی شمشیر زنی نے انگریزوں کے دل پر خوف پیدا کر دیا مگر اچانک رانی ایک انگریزی فوجی کی سنگین سے زخمی ہو گئی، جس سے وہ خون میں لت پت ہو گئی مگر اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور لڑتے لڑاتے میدان جنگ میں وطن کی آبرو پہ شہید ہو گئیں۔ رانی کی شہادت کے وقت ان کا وفادار گل محمد ان کے ساتھ موجود تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔