دنیا میں جسم فروشی کا پھلتا پھولتا کاروبار!، کئی ممالک میں قانونی تحفظ حاصل

سیکس کی تجارت دنیا کے کئی ممالک کی طرح امریکہ میں بھی بڑے پیمانے پر انجام پا رہی ہے۔ اس شرمناک تجارت میں خرید و فروخت کیا جانے والا سامان نہ صرف مرد و عورت ہیں بلکہ کم سن اور نابالغ بچے بھی شامل ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

انسانی تاریخ کا قدیم ترین اندراج کچھ چار ہزار سال قبل مسیح تک ہی ہمیں لے کر جاتا ہے۔ جہاں تک لکھی ہوئی انسانی تاریخ موجود ہے جس میں عصمت فروشی کے شواہد ہر دور کی ہر قوم اور ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔ عصمت فروشی کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ یہ کیسے معرض وجود میں آئی اور اس کی ضرورت کیوں درپیش ہوئی؟ یہ چند بنیادی سوالات ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔ دورِ حاضر میں بھی عصمت فروشی دنیا کے تمام معاشروں میں پائی جاتی ہے حتیٰ کہ کئی ایک ممالک میں اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔

امریکہ جو آج ٹیکنالوجی کی دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک مانا جاتا ہے اگر اس کی ترقی کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس ملک کی ساری ترقی اور پیشرفت استعماریت اور سامراجیت کی مرہون منت ہے۔ یہ ایسا ملک ہے جس کی تاریخ انسانوں کی تجارت اور نسل پرستی جیسے غیر انسانی عمل سے جڑی ہوئی ہیں۔ آج اگرچہ غلاموں کی خرید و فروخت اور نسل پرستی پچھلے سالوں کی طرح اس ملک میں رائج نہیں ہے لیکن انسان فروشی کا ’تازہ شمارہ‘ یعنی جنسی غلامی یا سیکس کی تجارت دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح امریکہ میں بھی بڑے پیمانے پر انجام پا رہی ہے۔ اس شرمناک تجارت میں خرید و فروخت کیا جانے والا سامان نہ صرف مرد و عورت ہیں بلکہ کم سن اور نابالغ بچے بھی شامل ہیں۔


جنسی غلامی جو کہ انسانی اسمگلنگ کا ایک پروڈکٹ ہے، نے عورت کو ایک طرح سے ’بے جان سامان‘ میں بدل دیا ہے۔ غربت اور مفلسی کا شکار ممالک سے عورتوں اور لڑکیوں کو اسمگلنگ کر کے مغربی اور امریکی ممالک میں لے جایا جاتا اور وہاں جنسی غلامی کے طور پر بے جان سامان کی طرح انہیں بازاروں میں فروخت کیا جاتا ہے اورجنسی ہوس پرست یا دولت کے پجاری ان عورتوں کی خریداری کر کے یا اپنے استعمال میں لاتے ہیں یا ان سے جنسی افعال کا ارتکاب کروا کر ان کی ویڈیوز کو مجازی دنیا میں پھیلا کر پیسہ کماتے ہیں۔

اس درمیان امریکہ جو پوری دنیا میں انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے اس حوالے سے اس کی صورتحال تو بہت ہی بدتر ہے۔ رپورٹ کے مطابق سالانہ ایک لاکھ سے زیادہ خواتین، لڑکیوں اور بچوں کو امریکہ اسمگلنگ کیا جاتا ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ان میں بعض بچوں کی عمر9 سال سے بھی کم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکی وزارت انصاف نے اپنے ایک بیان میں اعلان کیا کہ ہر سال تین لاکھ امریکی صرف جنسی افعال کے ارتکاب کے لئے اسمگلروں کے دھندے کا نشانہ بنتے ہیں۔


سوال یہ ہے کہ امریکہ یا دیگر ممالک میں کیا چیز باعث بنی کہ آج اس قدر دنیا میں عصمت فروشی کا بازار گرم ہو چکا ہے؟ عصمت فروشی کی آزادی کا سب سے پہلا عامل اور سبب مساج کے بازار کو گرم کرنا ہے۔ مساج کے عمل کو قانونی شکل ملتے ہی عصمت فروشی کا کام شروع ہو گیا اور لوگ بدن کے مساج کے بہانے بدکاری کو رواج دینے لگے اور بظاہر مساج دینے لیکن حقیقت میں عصمت فروشی کے لئے لڑکیوں کی امریکہ میں اسمگلنگ کا دھندا کافی زور پکڑ گیا۔ دوسرا بڑا سبب خود میڈیا اور سوشل میڈیا ہے جس نے انٹرنیٹ، اخباروں، جریدوں حتیٰ کتابوں کے ذریعے برہنہ تصاویر، پوسٹر اور قابل اعتراض فلمیں شائع کرکے لوگوں میں اس بدکاری کو رواج دیا۔ در حقیقت اگر مرد عورت کو صرف جنسی ہوس کو پورا کرنے کا آلہ سمجھے گا تو پیسے یا ہر دوسری قیمت پر اسے حاصل کرکے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کرے گا۔

انسانیت سے عاری اس دردناک و تلخ حقیقت نے جتنا منافع سرکاری اور غیرسرکاری عہدیداروں کو دیا ہے اتنا کسی دوسری تجارت نے نہیں دیا یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی حکومت اس عمل کی روک تھام کے لئے کوئی اقدام نہیں کر رہی ہے۔ دنیا میں جنسی غلامی، لڑکیوں کی اسمگلنگ اور سیکس کی تجارت دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔


متعدد دانشوروں کے مطابق عصمت فروشی زرعی سماج کی قدیم رسومات ساحری اور مذاہب سے جڑی ہوئی ہے۔ اس زمانے میں کھیتی کرنے اور جنسی فعل کو ایک جیسا ہی سمجھا جاتا تھا۔ فصلوں کے زیادہ سے زیادہ حصول کے لئے کھیت کھلیانوں میں جنسی عمل کیا جاتا تھا چونکہ سماج کا انحصار زرعی پیداوار پر تھا اس لئے اس دور میں دنیا بھر میں’دھرتی ماتا‘ کی پوجا رائج تھی۔ دھرتی ماتا یعنی زمین کی تالیف قلب کے لئے اس کے معابد جنسی عمل کے اولین مراکز بنے جہاں جنسی عمل برسرعام کیا جاتا تھا۔ کچھ جگہوں پر یہ قاعدہ تھا کہ ہر دوشیزہ کو زندگی میں ایک بار عشتار، اپالو یا دیگر دیویوں کے معابد میں ایک بار کسی یاتری کے ساتھ جنسی عمل سے گزرنا پڑتا تھا۔ جبکہ معابد کی داسیوں کا یہ عام معمول تھا۔ انھیں جو رقم اس کے عوض نذرانے کے طور پر یاتریوں سے ملتی تھی وہ مہا پروہتوں اور پجاریوں کے لئے کمائی کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔ اسے بعد ازاں حکمران طبقات نے ایک منظم اور نفع بخش کاروبار میں تبدیل کر دیا۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اہل یونان ہی تھے جنھوں نے ایتھنز میں دنیا کا پہلا سرکاری قحبہ خانہ قائم کیا۔

دورِ حاضر میں عصمت فروشی ایک باقاعدہ صنعت کا درجہ رکھتی ہے اور کچھ ممالک میں اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔ عورتوں کی جسم فروشی امیر زادوں کی لذت پوری کرنے کے لئے کی جاتی ہے اور اس کی قیمت وصولی جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام بظاہر عصمت فروشی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن اسے تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف منافع بخش کاروبار ہونا ہی ہے۔ چونکہ سرمایہ داری منافع خوری کا نام ہے چنانچہ ایسا کاروبار جو منافع بخش ہو، اسے کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔


عصمت فروشی کا خاتمہ اور عورت کا وقار صرف اسی صورت میں بحال ہو سکتا ہے جب ذاتی ملکیت کا خاتمہ کر دیا جائے، سرمایہ داری کو شکست دی جائے اور اس کی جگہ اشتراکیت لاگو کی جائے۔ کیونکہ اشتراکیت ہی واحد نظام ہے جو ہر استحصال کو ختم کرتا ہے۔ عورت کی نجات بنیادی طور پر محنت کی نجات سے ہی جڑی ہوئی ہے۔ اشتراکیت ہی عصمت فروشی کو ختم کرے گی اور یہ عورت کا کھویا ہوا مقام اسے واپس کرے گی۔ یہ محض دعویٰ نہیں ہے بلکہ اس کی سب سے بڑی مثال کامریڈ لینن اور کامریڈ اسٹالین کی قیادت میں روس کے محنت کشوں کا برپا کیا ہوا عظیم اکتوبر انقلاب ہے جس نے قحبگی سمیت عورت کو استحصال اور جبر کی ساری شکلوں سے نجات دلائی۔ چین، کوریا، ویتنام، کیوبا سے لے کر مشرقی یورپ اور افریقہ تک کے ممالک میں جہاں جہاں سوشلسٹ انقلابات کامیاب ہوئے وہاں عورت کی حقیقی آزادی کا سویرا طلوع ہوا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Jun 2019, 8:10 PM