افسوس! کیا اردو کو مقدس ماننے والوں سے اردو کا کچھ بھلا ہوسکتا ہے؟

ہندوستان کی آبادی میں لگاتار اضافہ کے ساتھ تمام بڑی زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے لیکن افسوس صد افسوس اردو زبان کا زوال ہورہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عمران خان

مجھے حال ہی میں شادی کا دعوت نامہ دینے کے لئے امروہہ کے ایک قریبی گاؤں میں جانے کو موقع ملا ۔ جس گاؤں میں مجھے جانا تھا وہ امروہہ سے کچھ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ دراصل میرے تایا زاد بھائی کی سسرال اسی گاؤں میں ہے ۔ میں نے انہیں شادی کا دعوت نامہ دیا ۔

جس وقت میں دعوت نامہ کا کارڈ انہیں دے رہا تھا اس وقت ان کا 18-19 سال کا پوتا بھی وہاں موجود تھا ۔ میرے کارڈ دینے کے بعد اس نوجوان نے کارڈ اٹھا لیا اور اسے دیکھنے لگا ۔کارڈ دیکھنے کے بعد اس کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ اردو میں کارڈ چھپوانا مناسب نہیں ہے۔

چونکہ اس نوجوان نے یہ بات اچانک کہی تھی اور بات میں انفرادیت تھی ، اس لئے میرے اندر کچھ تجسس پیدا ہوا ، میں نے حیرت زدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا ، ایسا بھائی کیوں ؟، میرے سوال کے جواب میں اس نوجوان نے بڑی معصومیت بھرے انداز میں کہا۔ اس سے اردو کی بے ادبی ہوتی ہے،کیونکہ کچھ دنوں بعد اس کارڈ کو پھینک دیا جائے گا اور لوگوں کے پیروں تلےآئے گا۔ میں نے اس سے سوال کیا کہ اس سے اس کی بے ادبی کا کیا تعلق ہے، بلکہ ہر زبان کے کارڈ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ تواس نے جواب دیا ’’ کارڈ میں اردو کے وہ حروف استعمال ہوتے ہیں جن کااستعمال قرآن کریم کے لکھنے میں ہوا ہے‘‘۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا

اس نوجوان کا یہ جواب سن کر میری حالت تو کچھ یوں ہو گئی کہ بقول شاعر’حیراں ہوں دل کو روؤں یاپیٹوں جگر کو میں ‘۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اردو ایک زبان ہے اس سے قرآن کی بے حرمتی کا کوئی تعلق نہیں ہے ، اردو میں کارڈ دینے کا یہ مقصد ہوتاہے یا یوں کہوں کہ اردو جاننے والوں کو پیغام پہنچانا مقصود ہوتا ہےکہ فلاں تاریخ کو ایک تقریب یا پروگرام ہے جس میں شرکت ضروری ہے۔ اس میں اردو کی بے حرمتی اور بے ادبی کی بات کہاں سے آ تی ہے۔ بلکہ ہر زبان کا ایک ہی مقصد ہوتا کہ اہل زبان کے جاننے والوں تک اسی زبان میں بات پہنچائی جائے جسے وہ پڑھ اور سمجھ سکیں۔ رہی بات احترام کی تو ہمیں ہر اس چیز کا احترام کرنا چاہئے جس کا احترام ضروری ہے ، ویسے تو اردو زبان میں اخبار، جرائد، پوسٹر، بینر وغیرہ بھی ہوتے ہیں ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ا ن سب کو ہم مقدس سمجھنے لگیں ، وہ نوجوان ہماری کسی بھی دلیل کو ماننےکے لئے تیار نہیں ہوا اوروہ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا ۔

نوجوان کے جانے کے بعد صاحب خانہ یعنی اس کے دادا سے پوچھا کہ یہ اردو جانتا بھی ہے یا نہیں، ان کا جواب سن کر حیرت زدہ اور فکر کی گہریوں میں غرق سا ہو گیا کہ جو نوجوان اردو زبان سے ناآشنا ہو اس کو پڑھنا لکھنا بھی نہ آتا ہو ایسا نوجوان اردو کے مقدس ہونے کی تو وکالت کرے لیکن اردو زبان کے سیکھنے کی زحمت تک گوارا نہ کرے ۔افسوس! کیا اردو کو مقدس ماننے والوں سے اردو کا کچھ بھلا ہوسکتا ہے ، میرے خیال میں ہرگز نہیں۔

اردو سے بے توجہی ، ناواقفیت اور اردو کو ایک مقدس زبان سمجھنے والوں کی وجہ سے اردو کا کیا حال ہوا ہے ذرا اس پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہندوستان کی آبادی میں لگاتار اضافہ کے ساتھ تمام بڑی زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے لیکن افسوس صد افسوس اردو زبان کا زوال ہورہا ہے کیونکہ اردو کو جاننے والے ہی اردو کو اپنی مادری زبان نہیں بتاتے ، کیونکہ جب زبانوں کا اعداد شمار ہو تا ہے اس وقت اردو سے واقفیت رکھنے والے اپنی مادری زبان کی جگہ کسی دوسری زبان کو درج کرا دیتے ہیں ۔ اس سے قبل ہر دہائی میں اردو بولنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا تھا لیکن آزاد ہندوستان میں شاید پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ موجودہ دہائی میں اردو زبان کے جاننے والوں میں کمی آئی ہے۔

دہلی کے منڈاولی علاقہ کی چاند مسجد کے پیش امام اور مشرقی دہلی سے جمعیۃ علما ء ہند کے صدر مولانا محمد فیضان کہتے ہیں کہ ’’اردو کے نام پر کمائی کرنے والے ہی دراصل اردو کی بد حالی کے زیادہ ذمہ دار ہیں ، اگر اردو کاتھوڑا بہت وجود بچا ہوا ہے تو وہ مدارس کی وجہ سے ہے لیکن اب مدارس میں لوگ بچوں کو بھیجنا ہی نہیں چاہتے ۔ ‘‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کرنے والا بچہ یونیورسٹی سے اردو تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم کو ہرا سکتا ہے۔‘‘

جب ان سے اردو زبان میں شادی کا کارڈ چھپوانے سے متعلق سوال کیا انہوں نے کہا ’’یہ ایک احمقانہ فکر ہے اول تو کسی زبان میں کچھ چھپوانے سے اس کی بے حرمتی نہیں ہوتی اور اگر ایسا کچھ ہوتا بھی ہے تو اس کو نظر انداز کر دینا چاہئے۔ مثلاً قرآن کریم کی جن چھاپہ خانوں میں چھپائی ہوتی ہے وہاں قرآنی صفحات قدموں میں بھی آجاتے ہیں ، بائنڈنگ کے وقت بھی صفحات ادھر ادھر بکھرے رہتے ہیں، انہیں عمل کے تحت قرآن کریم تیار ہوکر ہمارے ہاتھوں میں پہنچتا ہے۔‘‘ لوگوں کی عام بول چال میں بھی اب اردو کا اثر نہ ہونے کے سوال پر مولانا فیضان کہتے ہیں ’’زبان کا تعلق گھریلو ماحول سے ہے، جب ہمارے گھروں کا ماحول ہی اردو والا نہیں رہا تو پھر بول چال میں اردو کہاں سے آئے گی!‘‘

ہریانہ کے میوات علاقہ میں اردو کے فروغ کے لئے مہم چلا رہے اردو ٹیچر ساہون محمد کاٹپوری کا کہنا ہے، ’’ایک زمانہ تھا جب ہمارے آبا ؤ اجداد ناخواندہ تھے، وہ اردو میں لکھی ہر بات کو قرآانی آیات سمجھتے تھے اس لئے اس کاغذ کے ٹکڑے کو احتراماً سنبھال کر رکھ لیتے تھے، لیکن اب تو لوگوں کو اور خاص کر نوجوان نسل کو اپنی عقل سلیم کا استعمال کرنا چاہئے۔‘‘

ساہون کہتے ہیں، ’’میں جب بھی اردو کی بات کرتا ہوں تو لوگ میواتی زبان بنام اردو زبان کی بحث چھیڑ دیتے ہیں۔ تو میں ان سے کہتا ہوں کہ اگر اسلامی تعلیمات سے آشنا ہونا ہے یا اپنے پیغمبروں کی سیرت اور مذہب اسلام کی تاریخ کو جاننا ہے تو اردو سیکھنی ہوگی۔ ویسے بھی اردو زبان ایک شیریں اور پیاری زبان ہے ، اسی لئے اس زبان کے لئے میں نے مہم چلانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔‘‘

زبان پر مبنی جو اعداد شمار جاری ہوئے ہیں ان کے مطابق شمالی ریاستوں جیسے اتر پردیش ، بہار، راجستھان اور مدھیہ پردیش وغیر ہ میں اردو بولنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی آئی ہے لیکن جنوبی ریاستوں کی حالت کچھ بہتر ہیں۔ جنوبی ہند کے تعلق سے تمل ناڈو کانگریس کمیٹی کے اقلیتی شعبہ کے سکریٹری محمد مزمل کا کہنا ہے یہاں کے لوگوں کو اردو سے کافی محبت ہے، خاص بات یہ ہے کہ یہاں خواندگی کی جو شرح ہے تقریباً وہی اردو خواندگی کی بھی ہے۔ یعنی یہاں کے لوگ کا تلفظ بھلےہی اتنا مؤثر نہ ہو لیکن وہ اردو لکھنا اور پڑھنا بخوبی جانتے ہیں اور اعداد و شمار کے وقت اپنی مادری زبان کے طور پر اردو ہی کودرج کرواتے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 23 Jul 2018, 10:54 AM