نیوزی لینڈ گولی باری نفرت پر مبنی سیاست کا نتیجہ، ہندوستان بھی اس کی زد میں... آکار پٹیل

تارکین وطن خصوصاً مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک ماحول پوری دنیا میں تیار کیا گیا ہے جس کا نتیجہ نیوزی لینڈ میں مسجدوں پر حملہ جیسے تشدد کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آکار پٹیل

گزشتہ جمعہ کی صبح نیوزی لینڈ میں مسجد پر ہوئی خونی فائرنگ کی خبر میں نے ریڈیو پر سنی۔ رپورٹر ایک مقامی مسلم سے اس واقعہ کے بارے میں پوچھ رہا تھا اور جواب دینے والی آواز ایک جنوب ایشیائی معلوم ہو رہی تھی۔ ہفتہ کی صبح جب اخبار آیا تو پتہ چلا کہ اس دہشت گردانہ حملے میں لاپتہ ہونے والوں میں 9 ہندوستانی بھی ہیں۔ ان میں احمد آباد اور حیدر آباد کے لوگ بھی ہیں۔

گولی باری کی رپورٹ کے بعد بی بی سی ریڈیو نے دوسری خبریں دینی شروع کر دیں۔ اس میں بتایا گیا کہ آسٹریلیا میں آیا سب سے پہلا پیانو مرمت کے لیے انگلینڈ بھیجا گیا ہے، کیونکہ یہ وہیں بنا تھا۔ یہ پیانو 1788 میں ان 11 جہازوں کے ساتھ آیا تھا جسے تاریخ میں پہلے بیڑے کی شکل میں جانا جاتا تھا۔ یہ جہاز انگلینڈ کے پورٹس ماؤتھ میں بنے اصل جہاز تھے جن پر سوار ہو کر ہزاروں یوروپی آسٹریلیا گئے تھے، اور وہاں بسنا شروع کر دیا تھا۔ یہ بہت پرانی بات نہیں ہے، مغل دور کے خاتمہ کے آس پاس مراٹھوں اور افغانوں کے درمیان ہوئی پانی پت کی لڑائی کے کچھ وقت بعد کا ہی یہ واقعہ ہے۔ ہندوستان میں برطانیہ سب سے پہلے 1608 میں سورت پہنچے تھے۔ اس طرح نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں برطانوی کالونیوں کے بسنے کا عمل بھی اسی کے آس پاس شروع ہوا تھا۔

یہ سبھی باتیں یہاں بتانا اس لیے ضروری ہیں کیونکہ نیوزی لینڈ میں جس گورے نے گولی باری کی تھی، بیرون ملکیوں اور تارکین وطن کو لے کر اس کا نظریہ کچھ الگ قسم کا ہے۔ نسل کشی کرنے سے پہلے اس نے جو نوٹ لکھا تھا اس میں اس نے کہا ہے کہ وہ یہ نسل کشی اس لیے کر رہا ہے کیونکہ وہ یوروپی زمین کو تارکین وطن سے آزاد کرانا چاہتا ہے۔ آسٹریلیا (جہاں اس دہشت گرد قاتل کا جنم ہوا) اور نیوزی لینڈ کو یہ دہشت گرد یوروپی زمین مانتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں یوروپی خود ہی بیرون ملکی ہیں۔

آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پر برطانوی لوگون کے بسنے سے وہاں کے حقیقی شہریوں کو بے حد تکلیفوں سے دو چار ہونا پڑا تھا۔ ان حقیقی شہریوں کو آدم کہا جا سکتا ہے اور ہم ہندوستانیوں کی ان سے بہت یکسانیت ہے۔ آدم انھیں کہتے ہیں جو دور قدیم سے وجود میں ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے یہاں قدیم دور کے لوگوں کو آدیواسی یعنی قبائلی کہا جاتا ہے۔

انہی آدم لوگوں کی نسل کو ان یوروپی تارکین وطن لوگوں نے ختم کیا جو یہاں کی زمین قبضہ کرنے کے ساتھ ہی اپنے ساتھ تشدد اور بیماریاں لے کر آئے تھے۔ اپنے ساتھ وہ کچھ نام بھی لے کر آئے تھے، جیسے وکٹوریا، نیو ساؤتھ ویلس، ویلنگٹن، آکلینڈ، کوئنس لینڈ وغیرہ وغیرہ۔ انہی ناموں کو ہم آج جانتے ہیں۔ انہی ناموں کو برطانوی کالونی بسانے والوں نے یہاں کے آدِم لوگوں کی خواہش کے خلاف ان پر تھوپا۔ اس طرح 1840 میں نیوزی لینڈ کو ماؤری پاپولیشن سے الگ کر دیا گیا۔

یوروپی لوگوں نے زمین پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں کے آدِم قبائلیوں پر ظلم ڈھانے شروع کر دیے۔ انھوں نے اپنی پارلیمنٹ کے قانون کے تحت بچوں کو ان کے والدین سے الگ کرنا شروع کر دیا۔ یہ آج چوری کی نسل کی شکل میں جانا جاتا ہے۔ یہ پالیسی 1960 کی دہائی تک جاری رہی۔ آج بھی قبائلی لوگوں کو تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں مجرمانہ نظامِ انصاف بھی شامل ہے۔ یہ ساری حقیقت ان کے خوش مزاج اور چلبلے سلوک میں چھپا ہوا ہے جسے آج ہم آسٹریلیائی جذبہ کہتے ہیں۔

میں نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ ایک عام بات ہے اور آسٹریلیا-نیوزی لینڈ کا ہر باشندہ اس سے واقف ہے۔ دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی برطانوی کالونیوں کے آنے سے تباہی کی آمد ہوئی۔ ہمیں کناڈا، ورجینیا، جارجیا، واشنگٹن، امریکہ، بولیویا اور ارجنٹینا وغیرہ کے بارے میں پتہ ہے کہ کس طرح ان جگہوں پر بیرون ملکیوں نے حملہ کیا اور زمینوں پر قبضہ کر علاقوں کو اپنا نام دے دیا۔

دراصل یوروپی کالونی کلچر نے ہی دنیا بھر میں بندوق کا قانون شروع کیا جس کے تحت گوروں کو اپنی حفاظت کے لیے بندوق رکھنے کی چھوٹ ملی۔ نیوزی لینڈ میں گولی باری کے واقعہ کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ وہ بندوق قانون کو بدلیں گی۔ اس سے یقینی طور پر آنے والے دنوں میں تشدد پر روک لگے گی۔ ویسے یہ حیرانی کی بات ہے کہ کئی ممالک میں عام شہریوں کو ایسی بندوقیں رکھنے کی اجازت ہے جو صرف جنگ میں کام آتی ہیں۔ امریکہ میں بھی اسی بندوق کلچر نے کئی نسل کشی دیکھی ہیں۔

اور، یہ سب اس لیے ہوا کیونکہ گولیاں برسانے والے برینٹن ٹیرنٹ کو لگتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کے ملک میں آ کر اپنی ثقافت تھوپ رہے ہیں۔ یہاں یہ جاننا دلچسپ ہے کہ ٹیرنٹ کا مطلب وہی ہوتا ہے جو دراندازی کا ہوتا ہے۔ ٹیرنٹ کہتا ہے کہ وہ ان لوگوں سے نفرت نہیں کرتا جو اپنے ملک میں رہتے ہیں، لیکن ان حملہ آوروں سے اسے نفرت ہے جو اس کی زمین پر گھس آئے ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ اس کی زبان کا اصل یوروپی ہے، ثقافت کا اصل یوروپی ہے، اس کے سیاسی نظریات یوروپی ہیں اور اس کا فلسفہ بھی یوروپی ہے، اس کی پہچان اور سب سے بڑھ کر اس کا خون یوروپی ہے۔

ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر وہ یوروپ کے بارے میں اتنا ہی جذباتی ہے تو اسے یوروپ چلے جانا چاہیے تھا، نہ کہ بے قصور لوگوں کا خون بہانا تھا۔ لیکن ہمیں یہ سوال بھی پوچھنا چاہیے کہ آخر پرتشدد حملہ آوروں اور کالونی بسانے والے خود کو ابھی تک مظلوم ہی کیوں مانتے رہے ہیں۔ دراصل تارکین وطن اور خصوصاً مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک ماحول تیار کیا گیا ہے جس کا نتیجہ نیوزی لینڈ مسجد پر حملہ جیسے تشدد کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔ اور یہ پوری نفرت تقسیم کرنے والی سیاست اور غیر ذمہ دار میڈیا کے ذریعہ پھیلائی جا رہی ہے۔ بدقسمتی سے ہندوستان بھی اس کا حصہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔