نواب خان بہادر خاں: شجاعت، فراست اور جفاکشی کا پرچم لہرانے والا روہیلہ سردار... یومِ پیدائش پر خصوصی پیش کش

خان بہادر خاں برطانوی عدالت میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز تھے، اس طرح انہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے دوہری پنشن مل رہی تھی۔

 نواب خان بہاد ر خاں کی قبر،
 تصویر شاہد صدیقی علیگ
نواب خان بہاد ر خاں کی قبر، تصویر شاہد صدیقی علیگ
user

شاہد صدیقی علیگ

جب ہم پہلی ملک گیر جنگ آزادی 1857 کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ دیگر افراد کے بالمقابل معاشرہ کا اعلیٰ اور حکمراں طبقہ بھی آزادی کے نہ صرف شیدائی تھے بلکہ اس کی خاطر اپنا تخت وتاج اور عیش وعشرت سب کچھ قربان کر دیا تھا۔ اس میدان کارزار میں جن نوابین کے وارثین نے اپنی ہمت وجرأت، شجاعت، فراست اور جفاکشی کے پرچم لہرائے ہیں۔ ان میں روہیلہ سردار خان بہادر خاں کا نام صف اول کی فہرست میں آتا ہے۔

خان بہادر خان 1781 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام ذوالفقار علی خان تھا جو روہیلہ سردار حافظ رحمت خان کے فرزند تھے ان کی ننہیال کٹیہار میں تھی۔ ان کی شادی شاہجہاں پور کے میراں پور کٹرا کے کمال خاں کی بیٹی ممتاز سے ہوئی تھی۔ خان بہادر خاں برطانوی عدالت میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز تھے، اس طرح انہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے دوہری پنشن مل رہی تھی۔ ایک برطانوی حکومت کے ریٹائرڈ جج اور دوسرا حافظ رحمت خان کے خاندانی فرد کے حیثیت سے، مگر آزادی کے لیے شاہانہ زندگی کو تج دیا اور آخری سانس تک انگریزی حکومت سے حیات مستعار کی بھیک نہیں مانگی۔


خان بہادر خاں دیگر انقلابی رہنماؤں کے ہمراہ انگریزوں کے خلاف تانے بانے بن رہے تھے لیکن انگریزوں کو کانوں کان تک بھی بھنک نہ لگنے دی۔ تاہم انہوں نے برطانوی حکام سے اشاروں ہی اشاروں میں کہہ دیا تھا کہ ان لوگوں کے لیے اچھی بات ہوگی کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے محفوظ مقامات پر چلے جائیں۔ بریلی میں اس وقت 8؍ویں کولیری، 18ویں و 68؍ویں پلٹن اور دیسی توپخانہ کا ایک دستہ موجود تھا، جس میں پٹھانوں کی اکثریت تھی، بریلی چھاؤنی کا کمانڈر بریگیڈر ایچ۔ سیبالڈ (H.Sibbald) تھا۔ اگرچہ دہلی اور میرٹھ کی خبریں بریلی میں مئی کے دوسرے ہفتہ میں پہنچیں، لیکن وہاں معمول کے کام بدستور جاری رہے۔ پریڈ بھی حسب دستور جاری رہی لیکن قرب وجوار کی خبروں سے بریلی کے کمپنی افسران میں بے چینی پیدا ہوگئی تو انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو نینی تال روانہ کر دیا۔

میرٹھ، بجنور، مرادآباد اور بدایوں اضلاع کی فضا کو دیکھ کر 30؍مئی 1857 کو الیگزینڈر نے خان بہادر خان کو بلاکر یہاں کی کمان سنبھالنے کو کہا تو خان بہادر خاں نے یکلخت ٹھکرا دیا۔ بتا ریخ 31؍مئی 1857ء بروز اتوار آفتاب طلوع ہونے سے قبل کپتان براؤن لو کے بنگلہ کو نذر آتش کردیا مگر چرچ کی عبادت کے وقت حالات پُرسکون رہے۔ تقربیاً 11؍بجے چھاونی میں توپ چلا کر انقلاب کا آغاز ہوا۔ انقلابیوں نے جیل کا پھاٹک توڑ تین ہزار قیدی آزاد کر دیئے۔ کوتوالی کے سرکاری دستاویز کو نذر آتش کر دیا، خزانہ لوٹ لیا۔ اسلحہ خانے پر بھی قبضہ کرلیا۔ کوٹھیوں اور بنگلوں کو زمین دوز کردیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تقربیاً چھ گھنٹوں میں برطانوی عملداری تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔


کمشنر الیگزینڈر اور مجسٹریٹ سمیت تمام انگریز جان بچاکر بھاگے۔ شام چار بجے ایک بڑے جلوس کے ساتھ خان بہادر خاں پورے شہر میں گھومے۔ یکم جون کو دو بجے شہر میں دربار کا انعقاد کیا گیا، خان بہادر خاں نے دربار کے اختتام کے بعد دیگر معزز ہستیوں کے ساتھ جنرل بخت خاں، محمد شفیع اور باغی سپاہیوں کو مبارک باد دینے کے لیے چھاؤنی گئے۔ بریلی میں باہمی رضامندی سے خان بہادرخاں کو حاکم اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا۔ پہلے انہوں نے انکار کیا لیکن صوبہ دار بخت خاں، دیوان شوبھارام، پٹھان مبارک شاہ خان، جے پال سنگھ کے عہدو پیماں پر زمام حکومت سنبھال لی۔ یکم جون 1857ء کو خان بہادر خاں نے تمام سرکاری ملازمین کو حکم دیا کہ وہ اپنے سابقہ عہدوں پر قائم رہیں اور اپنے فرائض کو بحسن خوبی سے انجام دیتے رہیں۔

2؍جون کو انتظامی امور کے لیے کونسل کا وجود عمل میں آیا، جس میں شوبھا رام کو دیوان، مول چند کو نائب دیوان، مدار علی خاں اور نیاز محمد خاں کو کماندار کے عہدوں پر مامور کیا گیا۔ اس کے علاوہ دیگر چھوٹے عہدوں پر بھی لوگ متعین کیے گئے۔ خان بہادر خان کی دانشمندی سے بریلی امن وامان گہوارہ بن گیا۔ 21؍جون 1857 کو مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر نے خان بہادر خان کو نواب انتظام الدولہ خاں بہادر تنویر جنگ رئیس اعظم روہیل کھنڈ کے خطاب سے نوازا۔ دلّی سے سند ملنے کے بعد خان بہادر خان نے مغل صوبہ دار کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دینے شروع کر دیئے۔ فوج میں نئی بھرتی کا آغاز ہوا، باقاعدگی سے توپوں اور ایک ٹکسال قائم کرکے سکوں کی ڈھلائی کا کام شروع کیا گیا۔ ان کی عملداری کے دوران بدایوں، شاہجہاں پور، مراد آباد اور بجنور میں انگریزوں کی ایک نہیں چلی۔ انہوں نے اپنی فوجوں کو دلّی سمیت ملک کے دیگر مقامات پر بھی لڑائی کے لیے بھیجا۔ نانا پیشوا راؤ نے بھائی بالاصاحب کو ان کے پاس بھیج دیا۔ خان بہادر خاں کے حکم پر ایک علیحدہ راجپوت رجمنٹ کا قیام عمل میں آیا۔ خان بہادر خان نے ہندوؤں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے گائے کے ذبح کرنے پر پابندی عائد کر دی۔


لیکن انگریز خان بہادر خاں کے ہر قدم پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے جو تفرقہ ڈالو اور راج کرو کے منجھے ہوئے کھلاڑی تھے چنانچہ انہوں نے 1857ء کے اواخر میں ہندو مسلم فرقہ وارانہ فساد کرانے کے لیے 50,000؍روپے مختص کردیئے، لیکن ہندو و مسلم اتحاد کے آگے ان کا یہ زہریلا تیر بھی خالی گیا۔ انگریزی خیرخواہ نواب یوسف علی خاں کے علاوہ بریلی میں بیٹھے مشرا بیج ناتھ، اور لچھمی نرائن وغیرہ جیسے غداروں نے نینی تال میں بیٹھے مفرور انگریزوں کی ہر ممکنہ مدد کی۔ خان بہادر خاں نے انگریزوں کے خیرخواہوں کو ان کے اعمالوں کی سزا بھی دی، لیکن وہ ان کے خفیہ تنتر کو پوری طرح تباہ نہیں کرسکے۔ خان بہادر خان کی حکومت تقربیاً ایک سال رہی اس دوران بریلی میں مولوی احمداللہ شاہ عرف ڈنکا شاہ، شہزادہ فیروز شاہ، نانا صاحب، نواب تفضل حسین خاں، نواب ولی داد خاں اور نواب اسماعیل خاں وغیرہ کی فوجیں جمع ہوگئی تھیں۔

دلّی، بندھیل کھنڈ اور اودھ کو کچلنے کے بعد انگریزی فوج نے اپنے ہندوستانی حواریوں کے ساتھ روہیل کھنڈ کی پیش قدمی کی، اگرچہ خان بہادر خان کے پاس بریلی سے محفوظ نکلنے کا موقع تھا لیکن غیور روہیلوں کی رگوں میں دوڑنے والے لہو نے بغیر مقابلہ کیے کنارہ کشی اختیار کرنے کی اجازت نہ دی، چنانچہ 4 ؍مئی کو انہوں نے فوجی صفوں کو درست کیا۔ 5؍مئی 1858ء کو جدید اسلحہ سے آراستہ، تجربہ کار سر کولن کی فوج اور انقلابیوں کے مابین بریلی میں نکٹیا ندی کے کنارے زبردست معرکہ آرائی ہوئی۔ خان بہادر خان کی سربراہی میں لشکر جرار نے انگریزوں کو نہلے پہ دہلا جواب دیا، لڑائی میں خان بہادر خان کے متعدد ارکان خاندان شہید ہوئے۔ 6؍مئی کو انگریزی کمانڈر جان کے تازدہ دم دستے نے بریلی پر مخالف سمت سے حملہ کیا تو انقلابی انگریزی نزعے میں پھنس گئے۔ لہٰذا انہوں نے شہر چھوڑنے اور پیلی بھیت چلے جانے کا فیصلہ کیا، الحاصل 7؍مئی کو بریلی دوبارہ انگریزوں کے زیر نگیں آگئی۔


خان بہادر خاں پیلی بھیت سے نیپال کے جنگلات میں نکل گئے، لیکن نیپال کے راجہ جنگ بہادر نے انہیں دھوکہ دے کر انگریزوں کے حوالے کر دیا اور لکھنؤ لائے گئے۔ جب کرنل برو نے خان بہادر خان سے پوچھا۔ تم نے اس سن پیری میں حکومت سے بغاوت کیوں کی؟ تو انہوں نے جواب دیا۔ تم نے ہمارا ملک چھین لیا تھا۔ تمہاری فوج نے ہمارا سامنا کیا تھا جب تم بھاگے تمہاری فوج نے ہمیں مستحق ریاست سمجھ کر حاکم ریاست کر دیا۔ ہم اسے عنایت خدا سمجھے کہ اپنے حق کو پہنچے، اب تمہارے قابو میں آئے، اختیار ہے جو چاہے کرو۔ کرنل برو نے حکم دیا کہ تمہاری سماعت بریلی میں ہوگی۔ چنانچہ یکم جنوری 1860ء میں بریلی لائے گئے۔ جہاں کمشنر رابرٹ نے خان بہادر خاں اور 257؍انقلابی ساتھیوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کا آغاز کیا۔ نمائشی چارہ جوئی کے بعد کمشنر رابرٹ نے خان بہادر خان معہ 257 رفیقوں کو بتاریخ 22 ؍فروری 1860ء پھانسی کی سزا سنائی۔ نواب کے ساتھیوں کو برگد کے درخت پر لٹکاکر پھانسی دے دی گئی۔

آفریں! اور 24 ؍مارچ 1860ء کو خان بہادر خان کو سخت پہرے میں سٹی چھاؤنی سے کوتوالی پیدل لے جاکر صبح سات بج کر دس منٹ پر پھانسی دے دی گئی، جابر انگریزوں نے تدفین کے وقت جانباز مرد مجاہد کے بدن کو کفن تک دینے کی اجازت نہیں دی، جسے دیکھ کر ان کے ایک عزیز نے اپنا رومال ان کے چہرے پر ڈال دیا، جس کے جرم میں اسے بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔

اب بھی کانوں میں آتی ہے یہاں آواز شہید

قطرہ خونِ شہیداں میں ہے جان زندگیس

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔