جموں و کشمیر: تشدد سے پیدا زخموں پر محبت اور امن کے پیغام کا مرہم

محبت اور امن کا پیغام عام کرنے کی پیش قدمی نے گجرات اور جموں و کشمیر میں ایک جوش پیدا کیا ہے جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ عام انسان فرقہ وارانہ خیرسگالی کے ساتھ رہنا چاہتا ہے، بشرطیکہ سیاست اسے یہ موقع دے۔

فائل تصویر (سوشل میڈیا)
فائل تصویر (سوشل میڈیا)
user

سندیپ پانڈے

سنجے اور ان کی بیوی تُلا گاندھی وادی سماجی کارکن ہیں۔ وہ روحانی پیشوا وِملا ٹھکار اور گاندھی وادی نارائن دیسائی کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ وہ گجرات کے مہسانہ شہر میں رہتے ہیں اور ’وشو گرام‘ نامی ایک ایسے سماجی ادارہ کو چلاتے ہیں، جس نے تقریباً 20 ایسے بوں کو رہنے کے لیے گھر جیسا ماحول دستیاب کرایا ہے جو ریلوے پلیٹ فارم پر اپنی زندگی گزارتے تھے۔

سنجے جموں و کشمیر میں لوگوں کے درمیان امن اور دوستی کی پیش قدمی کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ بڑی سطح پر چیزوں کو بدلنے میں کامیاب نہ بھی رہیں، لیکن کشمیر میں بڑھتی علیحدگی پسندی کے جذبے پر کچھ مرہم لگانے کا کام ضرور کریں گے۔


انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ، احمد آباد (آئی آئی ایم-اے) کے پروفیسر انل گپتا کی تنظیم ’سرشٹی ایوم راشٹریہ سرجناتمک فاؤنڈیشن‘ کی پیش قدمی پر سنجے پہلی بار 2017 میں خصوصی طور پر 25 ٹیچرس کے گروپ کو گجرات سے تین ہفتوں کے لیے جموں و کشمیر کے اننت ناگ ضلع لے گئے تھے۔ وہ وہاں کے 25 گاؤں میں گئے اور بچوں، ٹیچرس اور عام لوگوں سے ملے۔ اس کے بعد دو سال میں 50 لوگوں کے گروپ ریاست کے بارہمولہ اور ڈوڈا ضلع بھی گئے۔ مجموعی طور پر انھوں نے 100 گاؤں اور 150 اسکولوں کا دورہ کیا۔

سنجے اور تُلا
سنجے اور تُلا

دھیرے دھیرے یہ سالانہ پروگرام بن گیا۔ گجرات کے دس ٹیچرس کا ایک گروپ جموں و کشمیر کے کسی ایک اسکول میں جاتا ہے اور وہاں کاغذ موڑ کر کھلونے بنانا (آریگیمی)، کٹھ پتلی،موسیقی، آرٹ اینڈ کرافٹ، کہانی سنانا، طرح طرح کے کھیل، کارڈ بنانا، روبوٹ، سائنس اورریاضی کو دلچسپ طریقے سے سکھانا وغیرہ سرگرمیاں مقامی بچوں اور ٹیچرس کے ساتھ کرتا ہے۔


سنجے کا ماننا ہے کہ یہ صرف ایک بار تک محدود رہنے والا پروگرام نہیں بنایا جائے گا بلکہ اسے ایک عمل بنایا جائے گا۔ کشمیری لوگ اس بات سے متاثر تھے کہ گجرات سے آنے والا یہ گروپ اپنے استعمال کی سبھی چیزیں ساتھ لے کر آتا ہے، یہاں تک کہ اپنا کھانا بھی۔ گجراتی گروپ اپنا کھانا خود پکاتا ہے تاکہ مقامی گاؤں والوں پر بوجھ نہ بنیں۔

اسی طرح جموں و کشمیر سے بھی تین گروپ گجرات گئے تھے۔ پہلی دو بار 22 ٹیچرس کے گروپ اور تیسری بار محکمہ تعلیم کے 16 ماہرین-افسران کا گروپ۔ انھیں گجرات کے ان اسکولوں میں لے جایا گیا، جہاں کسی ٹیچر کی پیش قدمی پر کچھ تعمیری ہو رہا ہے۔ کشمیریوں کو یہ بات بہت اچھی لگی کہ گجرات میں مقامی زبان میں ہی تعلیم دی جا رہی ہے جو وہ جموں و کشمیر میں نہیں کر پا رہے ہیں، کیونکہ وہاں تعلیم کا ذریعہ انگریزی بن گیا ہے۔


یہ ساری کوششیں انسانی خدمت کے جذبہ سے ہو رہی ہیں۔ گجرات اور جموں و کشمیر سے جو بھی ایک دوسرے کی ریاست میں جاتے ہیں، وہ اپنا نجی خرچ خود اٹھاتے ہیں۔ جموں و کشمیر کا گروپ جب گجرات پہنچتا ہے تو مقامی لوگ ان کی میزبانی کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ کشمیری گجراتی گھروں میں رہتے ہیں اور وہیں کھانا کھاتے ہیں۔

جموں و کشمیر کے ٹیچرس کو اپنے اسکولوں میں گجراتی ٹیچروں کے ورکشاپ منعقد کرنے اور گجرات کا سفر کرنے کے لیے ریاست کے تعلیمی محکمہ سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ لیکن گجرات کے ٹیچر اپنی گرمی کی چھٹیوں میں نجی سطح پر کشمیر جاتے ہیں۔ اس عمل کے تحت اب گجرات سے اتنے لوگ جموں و کشمیر جانا چاہتے ہیں کہ سنجے کے لیے لوگوں کا انتخاب مشکل ہو گیا ہے۔


سنجے کا ماننا ہے کہ شورش پسندانہ سرگرمیوں کا متبادل تعمیری سرگرمیاں ہی ہو سکتی ہیں اور تعمیری سرگرمیوں سے تعاون کا جذبہ پھیلے گا۔ ان کے عزائم گاندھی وادی نظریہ کے ساتھ ہیں۔ وہ ونوبا بھاوے کی بات دہراتے ہیں جو انھوں نے اپنے کشمیر دورے میں بار بار کہی تھی... ’’میں تمھارا مذہب نہیں جاننا چاہتا، نہ ہی تمھارے خیالات جاننا چاہتا ہوں۔ میں تو صرف تمھارا دکھ درد جاننے آیا ہوں اور اسے دور کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

سنجے کی پیش قدمی نے گجرات اور جموں و کشمیر میں جو جوش پیدا کیا ہے، وہ دکھاتا ہے کہ عام انسان تو امن اور فرقہ وارانہ خیر سگالی کے ساتھ ہی رہنا چاہتا ہے، بشرطیکہ سیاسی اسے اس جذبہ کے ساتھ رہنے دے۔ جتنے زیادہ لوگ اس بات کو سمجھیں گے، اتنا ہی سماج کے لیے بہتر ہوگا۔ سنجے میں لمبی تیاری کے ساتھ کام کرنے کا صبر ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر نفرت اور تشدد کے بیج بوئے جا سکتے ہیں تو محبت-عدم تشدد کے بیج بھی بوئے جا سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے تاریکی صرف روشنی کی کمی کو ہی کہتے ہیں۔ تاریکی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا، ذرائع تو صرف روشنی کے ہی ہوتے ہیں۔ تاریکی متھ ہے، روشنی حقیقت ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ روشنی موجودہ تاریکی پر جلد ہی اثر انداز ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 28 Jun 2019, 7:10 PM