گالیوں سے بھری زبان کو فروغ دے رہا ہے میڈیا... مرنال پانڈے

آج ہندی بیلٹ کے معروف اسکرپٹ رائٹر اور ڈائریکٹر جو چھوٹے شہروں اور وہاں مشہور دیسی زبان کی پیداوار ہیں، اس مال میں جرائم، سیکس اور گالیوں کا بریدہ جھونک کر ممبئی سے کناڈا تک باکس آفس لوٹ رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مرنال پانڈے

کیسا سر چکرانے والا زمانہ آ گیا ہے! فیس بک کے اسکرین شاٹ بھی نیٹ کے پارٹلوں پر خبریں بنوا رہے ہیں۔ ان دنوں ’نیٹ فلکس‘ پر انگریزی کے معروف ناول نگار وکرم چندرا کے پہلے ہندی کرائم سیریل ’سیکریڈ گیمز‘ کے خوب چرچے ہیں۔ جتنی باتیں اس کے دلچسپ اسکرپٹ کے بارے میں ہو رہی ہیں اس سے کہیں زیادہ اس کے جنسی کاروبار کے مناظر اور مافیا-موالیوں کے ذریعہ سڑک چھاپ گالیوں کے بھرپور استعمال کی ہو رہی ہیں۔ ابھی ایک انگریزی پورٹل پر پڑھا کہ جرائم پر امریکی کلاسک ’ٹیکسی ڈرائیور‘ کے ڈائیلاگ رائٹر پال شروڈر نے اس سیریل کو (انگریزی میں ڈب کی گئی شکل) دیکھنے کے بعد اپنے فیس بک پیج پر لکھا ہے کہ سیریل میں گالیوں کی تو بھرمار ہے۔ لیکن انگریزی میں گالیاں دیتے ہوئے اس سیریل کے دیسی کردار ان کو ایسے اسکولی بچوں جیسے نظر آئے جو دیکھا دیکھی بغیر اصل زبان کا سُر تال سمجھے بڑوں کی زبان بول رہے ہوں۔ یہی نہیں، ان کے مطابق ہندی فلموں میں ہی نہیں، انگریزی بولنے والے کئی ہندوستانی بھی انگریزی کے لفظوں کا بھلے ہی استعمال کرتے ہوں، لیکن ان کو اس زبان کی صحیح لے کی سمجھ قطعی نہیں ہوتی۔ اس پر اصل رائٹر نے ان کو جواب دیا ہے کہ وہ ہندوستانی ڈبنگ کے معیار کی بات نہیں کرتے جس سے ان کو بھی شکایت ہے، لیکن ہندوستانی جب انگریزی گالیاں بھی دیتے ہیں تو ان کے کانوں میں اپنی مادری زبان کی آواز اور لے حاوی رہتے ہیں۔ اسی لیے آج ہندوستان میں پنجابی-انگریزی، کنڑ-انگریزی اور ہندی-انگریزی جیسی کئی زبانیں پنپ چکی ہیں۔

بہر حال... ٹی وی، موالیوں اور گالیوں پر بات نکلی ہے تو دور تلک جائے گی ہی۔ اپنے یہاں انتخابات پاس آئے نہیں کہ فلموں ہی نہیں، سیاست، میڈیا اور پبلک اسٹیج ہر کہیں گالیوں کے کھلے استعمال کا چلن بڑھنے لگتا ہے۔ نیو میڈیا میں تو سرچنگ میں لگے سیاسی گروپس گالی سے مزین ہندی کا جتنے بڑے پیمانے پر استعمال کر رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ہندی بیلٹ کے لیڈروں سے نوجوانوں کے درمیان گالیاں اسی طرح قابل قبول حصہ بنتی جا رہی ہیں جس طرح ہمارے زمانے میں شادی کی جیونار میں سمدھیوں کو کھانا پروستے ہوئے۔ گالی دیے بغیر ہم لوگ نہ تو اب انقلاب، نہ ہی مخالفین کی تنقید یا محبت کے اظہار کو صحیح آواز دے پاتے ہیں۔ اب تو حیرت انگیز طور پر مرد ہی نہیں، بنداس زندگی جینے والی خواتین کی بات چیت میں بھی ’ڈیم یو‘ یا ’شِٹ‘ جیسے انگریزی الفاظ بھی چھلکتے رہتے ہیں۔ چند ایک بھائی لوگ بات چیت کے اس طریقے کو پرانی سماجی اور سیاسی جکڑن اور گروہ بندیوں کے ٹوٹنے کے آثار مان کر اسے قابل استقبال قرار دے رہے ہیں۔ اور خود کو انگریزی کا فلم ناقد سمجھنے والے ان کی ہمت بڑھانے کو بولیوں سے پیدا ہوئی گالیوں کو فلموں کے ٹائٹل سے ڈائیلاگ تک میں گونتھنا نوجوان ناظرین کے درمیان آئٹم نمبر کی طرح ہٹ ہونے کا ایک آزمودہ نسخہ بتا رہے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ دورِ وسطیٰ کے ہندوستان کی ہی طرح آج ہندی بیلٹ پھر سے ’دورِ معاہدہ‘ پر کھڑی ہے جہاں روایتی سماج اور اس کی زبان کو اندر اور باہر دونوں طرف سے پھر ایک بار چیلنج مل رہا ہے۔ آج زبانیں بولنے والے 12ویں صدی کے ہندو مذہب مخالف، وید-باہیہ فرقوں کی طرح روایات پر عمل کرنے والے ’ہیوس‘ اور روایت کو ٹھینگے پر رکھنے والے ’ہیو ناٹس‘ میں تقسیم ہو گیا ہے۔ نئی اطلاعاتی ٹیکنالوجی انگریزی کی معرفت کھلے اور پھلے پھولے انٹرٹینمنٹ بازاروں اور خوشحال باہری زبانوں سے مزین ادب کی فخریہ ہنکار سے ٹکراؤ کو فروغ دے رہی ہے۔ اب تک اکیڈمک کیمپس کی شاستریہ ہندی کا کوئی دبنگ مخالف نہیں تھا، اور لوگ بھدیس مانی گئی اپنی زبان میں لوک گیتوں اور لوک ڈراموں میں گالیاں گونتھ کر اپنے سامعین اور محبین پا لیتے تھے۔ لیکن آج گزشتہ 100 سالوں میں بنی ہندی کی مین اسٹریم کے سامنے 700 سال پرانی انگریزی ایک تکنیک کی تلوار اٹھائے عالمی زبان بنی اسے پھر منھ چرا رہی ہے۔ ہندی دنیا سے جو اس کے کیمے کا جے چند بننا چاہے اسے انگریزی پبلشنگ کی دنیا بھی پبلک اور گلوبل فروختگی کی چابی دے کر مست کرنے کا وعدہ کر رہا ہے۔

ادھر یہ دلیل کئی چھوٹے طبقات کو سیاسی وجوہات کی بنا پر پسند آ رہا ہے۔ چندر بھان پرساد جیسے دلت دانشور مانتے ہیں کہ منوادی نظام کے سہارے چل رہی اکادمی ہندی کے برعکس انگریزی ہر ذات اور مذہب کے ہندوستانی کو ترقی کے یکساں مواقع دے سکتی ہے۔

لہٰذا آج ہندی بیلٹ کے معروف اسکرپٹ رائٹر اور ڈائریکٹر جو چھوٹے شہروں اور وہاں مشہور دیسی زبان کی پیداوار ہیں، اس مال میں جرائم، سیکس اور گالیوں کا بریدہ جھونک کر ممبئی سے کناڈا تک باکس آفس لوٹ رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا نے ہندی بیلٹ کے آدھی ادھوری لسانی سمجھ والوں کو جیسے ایک بڑا بلیک بورڈ تھما دیا ہے۔ لیکن اس کا استعمال وہ اپنی فنکاری اور کاروباری اظہار کے طریقوں کو نیا نظریہ دینے یا دنیا کے کئی گوشوں میں ہو رہی تحقیق تک پہنچنے کا ذریعہ بنانے کے لیے کرتے تو بہتر رہتا۔

ہندی بیلٹ چونکہ ملک کی سیاست کا مرکز رہی ہے اور اس سیاست میں لگاتار جس طرح کی گراوٹ آئی ہے اس سے ممکن ہے کہ ان دنوں (نورسوں میں سے) ویر یا شرنگار کی جگہ اَد بھُت یا جُگُپسا جیسے رسوں کے گاہک ہی ہندی بیلٹ میں زیادہ بنیں۔ لیکن ادھر سیاست کے تجربہ کار حلقوں اور بڑی پارٹیوں کے کارکنان کو سن کر لگ رہا ہے جیسے اشتعال انگیز گالی گلوج سے فساد و مظاہرہ بھڑکائے بغیر اتر پردیش انتخاب نہیں جیتے جا سکتے۔ خاتون سیاستدانوں کے خلاف تقریباً ہر کہیں استعمال ہو رہی گالیاں زبان میں نئی پیداوار کا نہیں بلکہ جاگیردارانہ خاتون مظالم کا ثبوت اور خاتون-مرد تعلقات کو لے کر نئی فکر کی غیر حاضری کا ہی اشارہ ہیں۔ عورت کا جسم اور اس کی جنسی زندگی سے جڑی گالیاں بتاتی ہیں کہ مقرر کے اندر ایک طاقتور خاتون سیاستداں کے برعکس جنگ جیت پانے اور انتخابی ترجیحات پر دانشورانہ جرح چھیڑنے کی صلاحیت نہیں ہے، اسی لیے وہ کسی جاہل-گنوار یا بگڑیل رئیس کی طرح اس کی نجی زندگی پر حیران کرنے والے القاب سے تبصرے کر رہا ہے۔ پوچھنے پر اکثر جواب ملتا ہے کہ رائٹر یا مقرر کا ارادہ تو خاص ذات کی لیڈر کے طریقہ کار پر ناراضگی یا نااتفاقی ظاہر کرنا تھا۔ لیکن صاف دکھائی دیتا ہے کہ اس طرح کی گالی گلوج کے پیچھے (جنس، ذات یا مذہب سے جڑے) شرمناک تعصب پسندی ہے۔ ساتھ ہی اپنے سے کمزور یا کمتر اگلے پر اپنی بالادستی دبنگئی سے قائم کرنے کی غیر مہذب خواہش بھی اس کے پیچھے ہے۔ زبان کے نظریہ سے یہ ’کپلس کامیڈی‘ کے ڈائیلاگ کی طرح انگریزی کے اہل ناظرین کو کیوٹ بھلے لگیں، لیکن آخر میں یہ عورت یا نوکر مانی گئی ذاتوں کی شبیہ کو بد رنگ بناتے ہیں۔

ہندی کی صحیح صفائی کا کام ہماری اکیڈمک دنیا نہیں، نیٹ ہی کر سکتا ہے۔ ساتویں-آٹھویں صدی میں جب ہمارے یہاں سنسکرت کی اہمیت گھٹی اور عوامی زبانوں نے سر اٹھایا، بے وصف راہ والی بھکتی دھارا کے تانترکوں اور ہٹھ یوگیوں کے اکھاڑوں میں برہمن واد اور اس کے دیوی دیوتاؤں کو گالی دینا شروع ہوا۔ جو بات صدیوں سے ’وید باہہ‘ اور ’آریتر‘ ذاتیاں سنسکرت کے پنڈتوں سے نہیں کہہ پائی تھیں، اب عوامی زبان میں خوب زور زور سے جارحیت کے ساتھ کہی جانے لگیں۔ لیکن بدتمیزی کی آواز جب عبادت اور سچے عابدوں کی عبادت پر مضر اثر ڈالنے لگا تب گرو گورکھ ناتھ نے اپنے ساتھی عابدوں کو متنبہ کیا:

’’یندری (حس) کا لڑبڑی زبان کا پھوہڑا، گورکھ کہے تے پرتسی (بلا واسطہ) چوہڑا۔‘‘

ان کی یہ بات ہم جتنی جلد سمجھ لیں اتنا ہی اچھا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */