میجر جنرل شاہ نواز خاں، جنہوں نے لال قلعہ پر پہلا ترنگا لہرایا ...یوم پیدائش کے موقع پر خصو صی پیشکش

شاہ نواز خاں ایک عظیم وطن پرست، مخلص سپاہی اور نیتاجی سبھاش چندر بوس کے بے حد قریبی ساتھی تھے، خاں صاحب ایک فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ جذبہ خدمت خلق سے سرشار، غریب پرور اور نباض وقت سیاست داہ بھی تھے

میجر جنرل شاہ نواز خاں
میجر جنرل شاہ نواز خاں
user

شاہد صدیقی علیگ

تاریخ جنوں یہ ہے کہ ہر دورِ خرد میں، اک سلسلۂ دار و رسن ہم نے بنایا (نشور واحدی)

وطن عزیز کی سو سالہ تحریک آزادی بلاتفریق مذہب وملت ہند و ستان کے بے شمار فرزند وطن کی قربانیوں سے روشن و تاباں ہے۔ ان مجاہدین کی جاں نثاریوں کی بدولت ہی آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ ان عظیم سپوتوں میں جنرل شاہ نواز کا نام بھی سرفہرست ہے جنہوں نے آزادی کی خاطر پر خار راہوں کا انتخاب کیا اور مادرِ ہند کو انگریزوں کے پنچوں سے آزاد کرا کر ہی دم لیا۔

میجر جنرل شاہ نواز خاں ایک عظیم وطن پرست، مخلص سپاہی اور نیتاجی سبھاش چندر بوس کے بے حد قریبی ساتھی تھے، خاں صاحب ایک فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ جذبہ خدمت خلق سے سرشار، غریب پرور اور نباض وقت سیاست داہ بھی تھے۔ جنرل شاہ نواز خاں برٹش انڈیا میں 24 جنوری 1914 کو مٹور ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سردار ٹیکا خاں جنجوعہ اپنے قبیلے کے سردار ہونے کے ساتھ برٹش فوج میں افسر بھی تھے، تو وہیں ان کے چچا پنجاب اسمبلی کے رکن تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم آبائی وطن میں ہوئی اور آگے کی تعلیم پرنس آف ویلس رائل انڈین ملٹری کالج دہرادون میں حاصل کی۔ شاہ نواز خاں نے اپنے بزرگوں کی تقلیدکی روش اختیار کی۔


جنرل شاہ نواز جب 1940میں برٹش انڈین فوج میں ایک افسر کے طور پر شامل ہوئے اس وقت دوسری عالمی جنگ چل رہی تھی۔ انگریزوں نے جاپانیوں کے خلاف جس پنجاب رجمنٹ کو سنگاپور اور ملایا کے مورچوں پر بھیجا تھا اس میں یہ کیپٹن کے عہدے پر فائز تھے۔ جاپانی فوج نے برٹش فوج کے سینکڑوں سپاہیوں کو جیل میں ڈال دیا تھا، دریں اثنا 1943میں نیتا جی سبھاش چندر بوس سنگا پور پہنچے اور آزاد ہند فوج کے تعاون سے ان سپاہیوں کو آزاد کرایا۔ نیتا جی کی شخصیت سے متاثر ہو کر جن افسران اور سپاہیوں نے آزاد ہند فوج میں شمولیت اختیار کی تھی ان میں شاہ نواز خاں بھی شامل تھے، جو قلیل مدت میں ہی سبھاش چندر بوس کے سب سے بھروسہ مند ساتھی بن گئے۔

شاہ نواز خاں نے آزاد ہند فوج میں نئی توانائی پھونکی اور سپاہیوں کو سمجھانے کے لئے رات دن ایک کر دیا۔ جاپانی خیمہ میں قید ہندوستانی سپاہیوں کے ایک خیمہ سے دوسرے خیمہ میں جا جا کر پرانگیز اور جوش ولولہ تقریر کرتے، ’’اگر تم آزاد ہند فوج میں شامل نہ ہوئے تو جاپان ہماری مدد نہ کرے گا، آزاد ہند فوج ہندوستان کی آزادی دلانے کے لئے قائم کی گئی ہے۔۔۔۔۔ہر ہندوستانی کا فرض ہے ہے کہ لڑنے کے لئے جان ہتھیلی پر رکھ کر جائے کیونکہ لڑائی میں موت بھی ہو سکتی ہے اور جو موت و تکلیف سے ڈرتا ہے وہ پیچھے رہ سکتا ہے کیونکہ ہم کو ہندوستان کی آزادی کے لئے لڑائی لڑنی ہے اس لئے بزدلوں کی ضرورت نہیں، صرف عالیٰ حوصلہ مند لوگوں کی ضرورت ہے، ہماری لڑائی ہندوستان کی عزت و وقار کے لئے ہے نہ کہ جاپان کے فائدے کے لئے ۔‘‘


نتیا جی جنرل شاہنواز خاں کی وطن کے تئیں بے پناہ محبت اور جذبہ کے قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ نیتا جی نے برٹش انڈیا پر حملہ کرنے کے وقت انہیں کمان سونپتے ہوئے جو کہا تھا وہ تاریخ ہند میں حرف زریں کے لکھنے کے قابل ہے:

’’آزاد ہند فوج کی عارضی حکومت کے حکم پر آپ ہندوستان سے آخری لڑائی لڑنے جا رہے ہیں۔ میں حملہ آور فوج کی کمان شاہ نواز کے ہاتھوں میں سونپتا ہوں۔ جنرل شاہنواز کی حب الوطنی، ان کی قوت ارادی اور ان کی حکمت عملی کو خراج تحسین ادا کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔‘‘

انہیں دسمبر 1944 میں مانڈھلے میں تعینات فوج کی ٹکڑی کا نمبر 1 کمانڈر فائز کیا گیا ۔ان کی کمان میں برگیڈ نے منی پور، امپھال اور کوہما کے مقامات پر انگریزی فوج سے لوہا لیا اور انہیں دن میں تارے دکھا دئیے۔ انہیں جوائنٹ سیکنڈ ڈیزون کا کمانڈر بنا کر برما کے مورچہ پر لڑنے کے لئے بھیجا، جہاں یہ اپنے مشن میں زیادہ کامیاب نہ ہو سکے اور 1945 میں انگریزی فوج سے مقابلہ کرتے ہوئے شاہنواز کو گرفتار کر لیا گیا۔ نومبر 1946 میں میجر جنرل شاہنواز خاں، کرنل پریم سہگل اور کرنل گروبخش کے ساتھ لال قلعہ میں برٹش سرکار نے ان پر بغاوت کا مقدمہ چلایا۔ شاہ نواز خاں پابندی سے ڈائری لکھتے تھے، یہ ڈائری بھی ان کی گرفتاری کے وقت انگریزوں کے ہاتھ لگی اور لال قلعہ فوجی عدالت میں بطور ثبوت پیش کی گئی۔ دوران جنگ انہیں کن حالات سے گزرنا پڑا، اس ڈائری میں تسلسل کے ساتھ تمام باتیں قلم بند ہیں۔


مئی 1945 کے واقعات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’محاذ جنگ پر کوئی امداد نہیں ملی، نہ تو فوجی امداد، نہ ہی رسد پہونچی، بھوک کی وجہ سے اموات ہونے لگیں۔ 4 مئی کو بارش ہوتی رہی، قدم جب لغزش کھا رہے تھے جاپانی مکمل طور پر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انگریزوں سے چاروں طرف سے گھر گئے۔‘‘

آگے رقم طراز ہیں کہ، ’’16، 17 مئی کی درمیانی شب ہم ایک گاؤں کے جنگلوں میں تھے پنجاب کی رجمنٹ جو ہم سے 5 گز دورتھی گولیاں چلا رہی تھی، رات گزری، صبح آٹھ بجے ہم کو گرفتار کر لیا گیا، پھر جاپان کی شکست کے بعد وہاں سے دہلی لا کر لال قلعہ میں نظر بند کر دیا گیا۔‘‘

ان کے اوپر ملکہ کی حکومت کے خلاف سرگرم جنگ کرنے اور قتل کے الزامات لگا ئے گئے، عدالت میں مقدمہ کی پیروی پنڈت نہرو،سر تیج بہادر سپرو، کیلاش ناتھ کاٹجو اور بھولا بھائی دیسائی نے کی۔ مقدمہ کے خلاف عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر کلکتہ، ممبئی، لکھنو، آگرہ اور احمدآباد کی سڑکوں پر اتر آیا اور ہڑتالیں کی جانے لگیں۔ 31 دسمبر کو مقدمہ کی کاروائی پوری ہوئی۔ کورٹ مارشل کے ایڈوکیٹ نے ان کے جذبہ حب الوطنی کی تعریف کرتے ہوئے کم سے کم سزا دینے کی اپیل کی لیکن فوجی عدالت نے سزائے موت تجویز کی، حالات کی سنگینی کو دیکھ کر اس کی توثیق کے وقت ہندوستان کے کمانڈر انچیف سرکلائیو آرکینک نے نہ چاہتے ہوئے بھی جرمانہ لگا کر 31 جنوری 1946 کو رہائی کا حکم دیا۔


جنرل شاہ نواز خاں نے مقدمہ کی دوران جو اپنا تحریری بیان داخل کیا اس سے ان کی حب الوطنی اور وطن پر مر مٹنے کے جذبات کا اظہار عیاں ہوتا ہے۔ ’’جب میں ملایا کے مورچہ پر گیا میرے دائیں بائیں جو انگریزوں کی کمپنیاں تھیں دم دبا کر بھاگ گئیں۔ مجھے انگریزوں کی بزدلی بری لگی۔ سنگاپور کی شکست کے بعد جب ہندوستانی فوج کو انگریزی فوج سے علاحدہ کیا گیا تو مجھے بہت غصہ آیا۔ جب انگریزی کرنل نے مجھ سے کہا اب ہمارے تمہارے راستہ الگ ہیں اور ہم کو چھوڑ کر چلے گئے تو سنگاپور کے جنرل پارک گیا۔ میں آزاد ہند فوج کے خلاف تھا کیونکہ سمجھتا کہ جاپانی اپنے مطلب کے لئے استعمال کریں گے لیکن جب یقین ہو گیا کہ آزاد ہند فوج ہندوستان کو آزاد ی دلانے کے لئے بنائی گئی ہے تب میں شامل ہوا۔‘‘

تحریری بیان کا یہ اقتباس بڑا دل سوز ہے کہ ’’میرے دل میں اپنے خاندان کی بھلائی اور بہبودی کا خیال بار بار آیا تھا اور سوچتا تھا کہ میری آزاد ہند فوج کی شرکت سے سرکار ان کو تکلیف پہونچائے گی۔ دوسری طرف ملک کے کروڑوں ننگے بھوکے میری آنکھوں کے سامنے آتے تھے۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ ان کی خاطر گھر، خاندان کو قربان کردوں گا، میں ہندوستان کے مورچہ پر اپنے چچازاد بھائی کے خلاف لڑتا رہا جبکہ وہ زخمی بھی ہوگیا تھا۔‘‘


1946 میں آزاد ہند فوج کے خاتمہ کے بعد مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو سے میزان ملنے کے بعد شاہ نواز خاں کانگریس میں شامل ہو گئے۔ 1947 میں پنڈت نہرو نے انہیں کانگریس سیوا دل کے کارکنوں کو فوج کی طرح ٹریننگ دینے کی ذمہ داری سونپی۔ 1952 میں جنرل شاہ نواز خاں میرٹھ پارلیمانی حلقہ سے ایم پی منتخب ہوئے، اس کے بعد 1971 تک لگاتار پارلیمنٹ میں میرٹھ کی نمائندگی کرتے رہے اور 23 سال تک مرکزی کابینی وزیر رہے۔

نیتا جی سبھاش چندر بوس کے سانحہ کی جانچ کے لئے جو کمیشن تشکیل دیا گیا تھا اس کی صدارت جنرل شاہ نواز کو ہی سونپی گئی تھی۔ آزادی کے بعد لال قلعہ پر یونین جیک کو اتار کر ترنگا لہرانے کی سعادت اپنے حصہ میں لکھنے والے شاہ نواز خاں ہی ہیں۔ آج بھی لال قلعہ پر شام چھ بجے لائٹ اینڈ ساؤنڈ کا جو پروگرام ہوتا ہے اس میں ان کی ہی آواز گونجتی ہے۔ ڈاک شعبہ بھی ان کی خدمات کو دیکھ کر ان کے اوپر ڈاک ٹکٹ شائع کر چکا ہے۔ 9 دسمبر 1983 کو اس عظیم مرد مجاہد آزاد ی نے داعی اجل کو لبیک کہا اور شاہجہانی مسجد دلی کے احاطہ میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


    Published: 24 Jan 2021, 10:45 AM