سرسید کے احسانات تلے دبی قوم اور اس کی وفاداریاں؟

۔
۔
user

ڈاکٹر جسیم محمد

جوّاد الدولہ، عارف جنگ ڈاکٹر سر سید احمد خاں مرحوم، بانیٔ علی گڑھ کالج، مجدّدِ زبانِ اردو، باعثِ تخلیق مسدّسِ حالی‘‘۔عظیم مصلح قوم، مفکر ،مدبر، ادیب، صحافی ، جدید ہندوستان کے معماراور ماہرِ تعلیم سرسید احمد خاںایک ایسی نادر الوجود شخصیت کا نام ہے جس نے نہ صرف اپنے زمانہ کو بلکہ اپنے بعد کے زمانوں کو بھی متاثر کیا اور نسل در نسل متاثر کرنے کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ان کی مذہبی، تہذیبی، ادبی، تعلیمی اور معاشرتی فکر کے نقوش زندگی کے مختلف شعبوں پر روشن ہیں۔

1857ء میں پہلی ناکام جنگِ آزادی کو ہندوستانیوں نے انقلاب اور انگریزوں نے غدر کا نام دیا۔ کیونکہ ہندوستان کا اقتدار انگریزوں نے مسلم بادشاہ کو قید کرکے حاصل کیا تھا اس لئے وہ ہندوستانی مسلمان کو اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ملک پرانگریزوں کی حکومت قائم ہونے کے ساتھ مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہونا شروع ہوگیا۔ خود سرسید کا گھر بھی انگریزوں کے تشدد سے نہ بچ سکا۔ ان کی والدہ نے گھوڑوں کے اسطبل میں چھپ کر اپنی جان بچائی۔ بعد میں سرسید انہیں میرٹھ لے گئے جہاں انہوں نے اپنی جان خدائے بزرگ و برتر کے سپرد کردی۔

سرسید تمام حالات کو دیکھ رہے تھے۔ ان کا دل مسلمانوں کی بربادی پر کڑھتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ہندوستان کے مسلمان میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ انگریزوں کا مقابلہ کرے جبکہ ان کی دلی خواہش تھی کہ مسلمانوں کا کھویا ہوا وقار دوبارا حاصل ہو۔ انہوں نے نہایت غور و فکر کے بعد طے کیاکہ مسلم قوم کی عظمت رفتہ اسی صورت میںبحال ہوسکتی ہے کہ اسے انگریزوں کے مقابل جدید تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ سرسید نے اسی خیال کے پیشِ نظر اپنی تعلیمی مہم کا آغاز کیا جس کے نتیجہ میں ان کے خلاف فتوے تک لائے گئے۔ طرح طرح سے انہیں پریشان کیاگیا مگر آفریں اس مردِ مومن پر جو اپنے مشن پر قائم رہا اور اپنی لازوال کوششوں سے با لآخر مدرسۃ العلوم قائم کرکے ہی دم لیا جو آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے اور بر صغیرایشیاء میں ملت اسلامیہ کا طرۂ امتیاز ہے۔

اگر ہم پوری ایمانداری سے سرسید کی حیات و خدمات کا جائزہ لیں تو گزشتہ صدی اور موجودہ صدی میں مسلمانوں کی ان سے بڑی ہمدرد شخصیت انسانیت کی کتاب کے اوراق میں نظر نہیں آتی۔ اپنی قوم کو عزت سے ہمکنار کرنے کے لئے انہوں نے کیا نہیں کیا۔ گالیاں کھائیں، بھلا برا سنا، طرح طرح کے الزامات اپنے سر لئے، اپنے پیروں میں گھنگھرو باندھ کر عوامی پلیٹ فارم پر علی گڑھ کی نمائش میں رقص کیا، ہر چھوٹے بڑے سے چندہ مانگا کہ مدرسۃالعلوم کا قیام ممکن ہوسکے۔

کہتے ہیں کہ اگر نیت صاف اور ارادہ پکاہو تو قدرت بھی انسان کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ سرسید کے ساتھ بھی یہی سب کچھ ہوا، اور آج وہ ہندوستانی مسلمانوں کے محسنِ اعظم تصور کئے جاتے ہیں۔ان کا ہاتھ بیمار قوم کی نبض پر تھا جو بتا رہی تھی کہ جسم کا کوئی عضو ایسا نہیں ہے جو غفلت اورلاچاری کے مرض کا شکار نہ ہو اور کوئی رگ ایسی نہیں ہے جس میں زہر سرایت کئے نہ ہو۔ انھوں نے تمام بیماریوںکے علاج کی ایک ساتھ اس طرح تدبیر کی کہ اپنی اصلاحی کوششوں کو کسی ایک دائرے میں قید کرکے نہ رکھا بلکہ ایک ساتھ مذہب، ادب، سیاست، تعلیم، معاشرت غرض کہ ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی کے ہر گوشہ پر اپنی نظر رکھتے ہوئے ان کی اصلاح کے لئے کمر کس لی۔

سرسید نے ایک نئی تہذیب اور ایک ہمہ گیر ذہنی تبدیلی کے لئے کاوش کی جس کے کئی پہلو ہیں جن میں سے کسی کو ان کے بنیادی تہذیبی مقصد سے الگ کرکے دیکھنا غیر مناسب ہے۔ ان کا تہذیبی تصور اگرچہ بہت حد تک جامع نہ تھا اور صرف ا نگریزی تہذیب کا نمونہ ہی ان کی نظر میں تھا پھر بھی انہوں نے جس تہذیب کی نقش گری کی وہ مروجہ مشرقی تہذیب سے بہتر تھی۔ سرسید کی ہمہ گیر شخصیت اور قوم پر ان کے احسانات ا س امر کے متقاضی ہیں کہ ان کے مشن کو آگے بڑھایا جائے۔ نئی نسل کو ان کی خدمات اور ان کی قربانیوں سے روشناس کرایا جائے۔ وہ اپنی قوم کو تباہی کے گڑھے سے باہر نکال کر اسے ترقی و کامرانی کی راہ دکھانے کے لئے پیدا ہوئے تھے جس میں انھیں نہایت صبر آزما حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی راہ میں ہمالیہ سے بھی بلند رکاوٹیں حائل ہوئیں مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور ناممکن کو ممکن کرکے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی۔

انھوں نے اپنی بے پناہ کاوشوں سے بے عملوں کو جہد و عمل پر آمادہ کیا، گوشہ نشینوں کو کھلی فضائیں بخشیں، ماضی کے پرستاروں کو حال کی اہمیت سے روشناس کرایا، اجداد کے کارناموں پر فخر کرنے والوں کو خود میں اوصاف پیدا کرنے کی تلقین کی، مشرق کے پرستاروں کو مغرب کی خوبیوں سے روشناس کرایا، تقلید پرستوں کو اجتہاد کی اہمیت سے و اقف کرایا اور دنیا کو بے حقیقت سمجھنے والوں کو دنیا میں نیکی کمانے اور آخرت کے لئے توشہ جمع کرنے کا راستہ دکھایا۔ غرض یہ کہ انھوں نے خوابِ غفلت میں غرق قوم کو بیدار کیا، مردہ دلوں میں روحِ حیات پھونکی اور ہندوستانی مسلمانوں کو زندہ قوموں کی طرح زندگی بسر کرنے اور سربلند ہوکر جینے کا سلیقہ سکھایا۔

میری نظر میںبے حساب کارناموں کی حامل ہستی کے ساتھ اس کے فرزندان ہی انصاف کرپانے میں ناکام رہے ہیںتو دوسروں سے کیا شکایت کی جاسکتی ہے۔ ہم نے سرسید کو محض علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی اور مصلح قوم کے خانوں میں قید کرکے رکھ دیا ہے اور ان کے تعلق سے اس سے زیادہ سوچنے اور سجھنے کی صلاحیت ہم میں باقی نہیں رہی ہے جبکہ سرسید کی ہستی ان تمام خانوں سے کہیں عظیم مقام اور مرتبہ کی حامل ہے۔ سرسید کے احسانات کا قرض اداکرنے کے لئے ہم چند سیمینار، کانفرنسیں، مباحثے، کوئز ، ڈنر وغیرہ منعقد کرکے اپنے طور پر اپنے فرائض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔

اس سے زیادہ افسوسناک امر اور کیا ہوگا کہ وہ ادارہ جو سرسید کے احسانات کی رہینِ منت ہے اس کے ذمہ داران بھی ہر سال یومِ سرسید کے لئے ایک مخصوص فنڈ مختص کردیتے ہیں اور چند نام نہاد دانشور ان فنڈ کو ٹھکانے لگانے کی تدبیروں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ خود علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جہاں امبیڈکر چیئر موجود ہے آج تک ’’ سرسید چیئر‘‘ قائم نہ کرسکی تاکہ نئی نسل میں سر سید شناسی کو فروغ دیا جا سکتا اور ان پر خاطر خواہ تحقیقی کام ہوسکتا۔ سرسید کے نام پر کل ہند سطح پر منعقد ہونے والا سرسید مضمون نویسی مقابلہ بھی میری نظر میں سرسید شناسی کو فروغ دینے میں خاطر خواہ کردار ادا کرنے میں ناکام ہے۔ طلبہ و طالبات کو ایک موضوع دے کر آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ کہیں سے بھی کٹ پیسٹ کرکے ایک مضمون تیار کرکے روانہ کردیں اور انعام کی رقومات پاکر خوش ہوجائیں۔ لیجئے ہوگیا سرسید شناسی کا فروغ۔ یہی مقابلہ اگر آن اسپاٹ منعقد کرایا جائے تو اس کے شرکاء سرسید پر بہتر طور پر مطالعہ کرکے آئیں گے اور اس طرح نئی نسل میں سرسید شناسی کے فروغ کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس سال ہم نے سرسید کا دو سو سالہ جشنِ پیدائش منایا ہے جس کے تحت گزشتہ ایک سال سے مختلف پروگرام منعقد کرکے اس نام سے جاری ہونے والے فنڈ کو ٹھکانے لگایا گیا ہے۔ مختلف لوگوں کو مختلف ذمہ داریاں تفویض کی گئیں جن کے لئے انہیں خاطر خواہ رقومات بھی مہیا کرائی گئیں لیکن ان رقومات کو کس طرح خرچ کیا گیا اس کا ان سے حساب لیا جانا ضروری ہے اور حسابات اس طرح لئے جائیں کہ ان کی جانچ بھی کی جانی چاہئے کہ آیا اس مد میں یہ رقم واقعی خرچ ہوئی یا سرسید سے وفاداری کے اظہار کے نام پر اپنی جیبیں گرم کی گئیں۔

میرا خیال ہے کہ اگر ایک سال سرسید کے نام پر صفائی مہم چلائی گئی ہوتی یا شجر کاری مہم کا تسلسل کے ساتھ انعقاد کیا گیا ہوتا تو نہ صرف ہم سرسید کے نام پر ایک بہتر عمل کا مظاہرہ کر سکتے تھے بلکہ اس ایک سال میں جو رقم ہم نے خرچ کی ہے اس کو کسی مثبت کام میں صرف کرکے سرسید کے تعلق سے کچھ ایسا بہتر کام کرسکتے تھے جو ان کے مشن کو آگے بڑھاتا۔ دنیا جانتی ہے کہ سرسید ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے جس میں ان کی ایک خوبی ان کا ماہرِ ماحولیات ہونا بھی شامل ہے ۔سرسید کو ماحولیات سے پیار تھا اور وہ اس کے تحفظ کے لئے فکر مند رہتے تھے۔ سال بھر صفائی مہم اور شجر کاری مہم چلاکر سرسید کو عظیم خراجِ عقیدت پیش کیا جاسکتا تھا اور اپنے اس عمل کا فائدہ ہمیں موجودہ حکومت سے بھی حاصل ہوسکتا تھا کیونکہ موجودہ مرکزی حکومت صفائی اور شجرکاری مہم پر خاطر خواہ توجہ مبذول کر رہی ہے۔ اس طرح ہم براہِ راست حکومت کے ماحولیاتی پروگرام سے جُڑ سکتے تھے جس کے مستقبل میں بہتر نتائج برآمد ہوتے۔

اس کا مطلب قطعی یہ نہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں صفائی یا شجر کاری مہم نہیں چلائی گئی، یہ دونوں مہمات اے ایم یو میں چلائی گئیں ہیں لیکن اگر سال بھر تک سرسید کے نام پر چلائی گئی ہوتیں تو مزید بہتر نتائج برآمد ہوسکتے تھے۔

یہ ہم سب کی خوش نصیبی ہے کہ ہمیں سرسید جیسا رہنما نصیب ہوا لیکن یہ سرسید کی بد نصیبی ہی کہی جائے گی کہ انہیں ہم جیسے نا قدر شناس لوگ حاصل ہوئے۔ اس ادارہ کے وہ سابق طلبہ جو علی گڑھ یا ملک سے باہر ہیں جتنی ہمدردی اس ادارہ سے رکھتے ہیں اگر اس کی کچھ فیصد ہی وہ لوگ بھی اس ادارہ سے ہمدردی رکھ لیں جن کی دال روٹی کا انحصار اسی ادارہ پر ہے تو واقعی سرسید کے خوابوں کو تعبیر سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔

سرسید نے اس ادارہ کے قیام کے لئے اس وقت کی حکومت سے بہتر رشتے استوار کئے تھے توایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ اس ادارہ کے فروغ کے لئے آج ہم موجودہ حکومت سے بہتر رشتے استوار کرکے سرسید کے مشن کو آگے بڑھائیں۔ اس طرح ہم حکومت سے سرسید کی لازوال خدمات کے اعتراف میں ان کے لئے بھارت رتن ایوارڈ کا زود اثر طریقے سے مطالبہ بھی کرسکتے ہیں۔ مبارکباد کے مستحق ہیں یہاں کے سابق طلبہ جو واقعی یہ سمجھتے ہی نہیں مانتے بھی ہیں کہ ان کی زندگی پر سرسید کا بڑا احسان ہے لیکن افسوس کہ جن لوگوں کو سرسید کے احسانوں کو ماننا چاہئے وہ گلے سے تو اقراری ہیں لیکن دل و دماغ سے کبھی خود کو سرسید کے تئیں وفادار بنانے اور ان کے ساتھ انصاف کرنے کے لئے تیار نہ کرسکے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یہاں کی ایک نہایت ذمہ دار شخصیت کا سعودی عرب کے کوفہ شہرمیں تقرر ہوگیا ۔ جب میں ان سے ملاقات کے لئے پہنچا تو انہوں نے کہا ’’ بڑے کوفہ سے چھوٹے کوفہ جا رہا ہوں لیکن مدینہ جاکر سرکارﷺ سے یہ التجا ضرور کروں گا کہ یہاں کے لوگوں کو سرسید کے تئیں وفادار بنادیں تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کے ساتھ ان کو ایمانداری کے ساتھ انجام بھی دینے لگیں۔

موجودہ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصورمسلم یونیورسٹی کے سربراہ ہونے کے ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے باوقار فرزند بھی ہیں اور ملتِ اسلامیہ ان سے خاصی توقعات بھی رکھتی ہے۔ انہیں ادارہ سے حقیقی ہمدردی ہی نہیں بلکہ عقیدت ہونا بھی ایک لازمی امر ہے اور توقع ہے کہ وہ اس جانب سنجیدگی کے ساتھ توجہ مبذول فرمائیں گے کہ یونیورسٹی کے فنڈس کا کس طرح استعمال ہونا چاہئے اور فی الوقت کس طرح ہو رہا ہے؟ سرسید کے لئے ادارہ میں کیا کیا کچھ ہونا چاہئے اور کیا ہورہا ہے؟ اور سرسید کے مشن کو ہم کس حد تک آگے بڑھا سکے ہیں اور اس سلسلہ میں ہمارا مستقبل کے لئے کیا منصوبہ ہے۔ ملت امید رکھتی ہے کہ پروفیسر منصور کی سربراہی میں یہ ادارہ سرسید کے خوابوں کا حقیقی مرکزبن سکے گا اوریہاں سے فنڈس جاری کرتے وقت اور ان کا استعمال کرتے وقت ذمہ داران کو یہ ضرور یاد دلایا جائے گا کہ اس ادارہ کے قیام کے لئے سرسید نے جھولی پھیلاکر پیسہ پیسہ جمع کیا تھا، پیروں میں گھنگھرو باندھے تھے اور اپنا سب کچھ نچھاور کرکے اس ادارہ کے قیام کے لئے خود کو وقف کیا تھا۔

سرسید کی دو سو سالہ یومِ پیدائش تقریب کے باوقار موقعہ پر ملت کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے میری اللہ سے بصد خلوص دعا ہے کہ وہ ہمیں سرسید اور ان کے مشن کے تئیں وفادار بنادے تاکہ ہم اپنے اس محسن کا اگر احسان اتار نہ سکیں( جو کہ کسی بھی حال میں ممکن نہیں) تو اس کا کچھ بوجھ تو ہلکا کرلیں تاکہ ہمارا ضمیر اور آنے والی نسلیں ہم پر ملامت نہ کرسکیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Oct 2017, 4:55 PM