کیا کوئی ہے جو میرے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے؟ بابری مسجد کی فریاد... سہیل انجم

جب کوئی مغل شہنشاہ بابر اور ہندو مذہب کے پیشوا رام چندر کا مقابلہ کرتا ہے تو بابری مسجد خون کے آنسو رونے لگتی ہے۔ لیکن اس کی آہ و بکا سننے کی کسی میں تاب نہیں۔ اسی لیے وہ آج بھی انصاف کی محتاج ہے۔

بابری مسجد کی فائل تصویر / Getty Images
بابری مسجد کی فائل تصویر / Getty Images
user

سہیل انجم

بابری مسجد کے انہدام کو 28 سال ہوگئے۔ ان طول طویل برسوں میں وہ جانے کتنی بار شہید کی گئی۔ کتنی بار اسے منہدم کیا گیا۔ کتنی بار اسے زمین بوس کیا گیا۔ جب بھی کوئی شخص یہ جھوٹا پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ رام مندر کو توڑ کر بابری مسجد کی تعمیر کی گئی تھی تو اس کے زخموں میں ایک اور زخم کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ جب بھی کوئی مغل شہنشاہ بابر اور ہندو مذہب کے پیشوا مہا پُرش رام چندر کا مقابلہ کرتا ہے تو بابری مسجد خون کے آنسو رونے لگتی ہے۔ لیکن اس کی آہ و بکا سننے کی کسی میں تاب نہیں۔ اسی لیے وہ آج بھی انصاف کی محتاج ہے۔

لیکن اس کو انصاف مل پائے گا اس کی امید اب دم توڑ چکی ہے۔ کیونکہ جب ملک کی عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد کی تائید میں تمام حقائق کو تسلیم کرنے کے باوجود محض دفع شر کے لیے اس کی زمین رام مندر کی تعمیر کے لیے دے دی تو اب کون ہے جو انصاف کرے گا۔ لہٰذا بابری مسجد آج بھی فریاد کناں ہے۔ وہ آج بھی انصاف کی دہائی دے رہی ہے۔ اگر کوئی اہل دل ہو یا صاحب گوش ہو تو اسے اس کی فریاد ضرور سنائی دے گی۔ لیکن شرط دل کے کانوں کو کھلا رکھنے کی ہے۔ میں نے عالم تصور میں اس کی فریاد سنی ہے۔ اس نے جو کچھ کہا اسے یہاں من و عن پیش کیا جا رہا ہے۔


’’آج کی تاریخ (6 دسمبر) جب بھی آتی ہے میرے زخموں کی ٹیس بڑھ جاتی ہے۔ میرا وجود تو 28 سال پہلے ہی مٹا دیا گیا تھا۔ اب میری روح بھی ریزہ ریزہ ہو کر بکھرنے لگی ہے۔ میں سمجھ نہیں پاتی کہ میں کس سے فریاد کروں، کس کے سامنے اپنا دکھڑا رووں۔ کون ہے جو میری بربادی کی داستان سنے گا اور کون ہے جو میرے دکھوں کا مداوا کرے گا۔ مغل شہنشاہ بابر کے ایک سپہ سالار میر باقی نے 1528 میں ہندوستان کی ایک مقدس سرزمین ایودھیا پر مجھے وجود بخشا تھا۔ اس وقت وہاں کتنا سکون تھا۔ لوگ کس طرح مل جل کر رہتے تھے۔ نہ کوئی کسی کا دشمن تھا نہ کسی کو میرے وجود پر کوئی اعتراض تھا۔

’’اس سرزمین پر میرے چاہنے والوں کی تعداد اس وقت بھی کم تھی اور آج بھی کم ہے۔ آج تو بہت ہی کم ہو گئی ہے۔ لیکن 1528 سے 1949 تک ایسے لوگ کافی تھے جو میرے صحن میں اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے تھے۔ اپنا سر میرے دامن پر جھکاتے تھے اور اپنی جبینوں سے سجدے آباد کرکے اپنے معبود کو یاد کیا کرتے تھے۔ لیکن اس پرامن اور مقدس سرزمین پر کچھ ایسے لوگ پیدا ہو گئے جنھیں میرا وجود پھوٹی آنکھ بھی نہیں بھاتا تھا۔ انھوں نے میرے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ میرا وجود مٹانے کے منصوبے بننے لگے۔


’’مجھے یاد ہے وہ 22-23 دسمبر 1949 کی ایک سرد شب تھی جب کچھ لوگ اندر گھس آئے اور چپکے سے رام چندر کی مورتی رکھ دی۔ میں حیران تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ میرے دامن میں آخر مورتی کیوں رکھی جا رہی ہے۔ صبح ہوئی تو بات صاف ہو گئی۔ جن لوگوں نے مورتی رکھی تھی انھوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ رام جی پرکٹ ہوئے ہیں۔ میں حیران و ششدر تھی کہ یہ لوگ کس طرح دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں۔ مورتی خود رکھی اور اب کہہ رہے ہیں کہ رام جی پرکٹ ہوئے ہیں۔ ایک مہاپُرش کو کہیں اس طرح بدنام کیا جاتا ہے۔ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو کیا اسے برداشت کر لیتے۔ وہ تو بہت بعد کو یہ اندازہ ہوا کہ ان لوگوں نے رام کو میرے مد مقابل لا کھڑا کر دیا ہے۔

’’بہرحال میری تباہی کی داستان بہت طویل ہے۔ میں اختصار سے بیان کرتی ہوں۔ میرا مقدمہ عدالت میں پہنچا۔ مجھے امید بندھی کہ میرے ساتھ انصاف ہوگا۔ لیکن انصاف نہیں ہوا۔ منصف نے جس کا کام انصاف کرنا تھا اور جسے چاہیے تھا کہ وہ مورتی ہٹوا دیتا، فساد کے اندیشے کی آڑ میں میرے دروازے مقفل کروا دیئے۔ میرا وجود سُونا ہو گیا۔ اپنے سجدوں سے مجھے آباد کرنے والوں کو آنے سے روک دیا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مورتیوں کو پوجنے کی اجازت دے دی گئی۔ کئی سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ میرا مقدمہ عدالتوں میں معلق رہا۔


’’بالآخر ایک اور منصف نے انصاف کے نام پر ناانصافی کی اور میرے دروازے پوجا کے لیے کھول دیئے۔ یعنی میرا دامن جو ابھی تک سجدوں سے آباد ہوتا تھا اب بھجن کیرتن کرنے اور گھنٹی و ناقوس بجانے والوں کی آماجگاہ بن گیا۔ اس معاملے میں رفتہ رفتہ سیاست نے مداخلت شروع کر دی اور ملک کے اقتدار پر قبضے کا خواب دیکھنے والے سیاست دانوں نے دیکھتے ہی دیکھتے مہاپُرش رام جی کو میرا حریف بنا دیا۔ میرا ان سے کیا مقابلہ۔ وہ تو ایک عظیم انسان اور ایک بہت بڑے مذہبی پیشوا تھے۔ انصاف کے پیروکار اور اصولوں اور آدرشوں پر چلنے والے ایک سچے حکمراں تھے۔

’’لیکن پرعزم سیاست دانوں نے انھیں اس تنازعے میں گھسیٹ لیا۔ کہا جانے لگا کہ یہ رام جی کی پوتر دھرتی ہے۔ یہیں رام جی پیدا ہوئے تھے۔ بڑی ڈھٹائی سے یہ تک کہا گیا کہ جس جگہ منبر ہے وہیں رام جی پیدا ہوئے تھے۔ اب اس مقام پر رام کا مندر تعمیر کیا جائے گا۔ اس قدر جھوٹ بولا گیا کہ اللہ کی پناہ۔ میرے خلاف سازش کرنے والوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی اور رام مندر کی تحریک چلانے والے قافلے میں شامل ہوتی چلی گئی۔ ایک جنونی کیفیت پیدا کر دی گئی۔ پورے ملک میں خوف و دہشت کی فضا بنا دی گئی۔ دو بڑے فرقوں کے درمیان خلیج حائل ہو گئی۔ جگہ جگہ فسادات ہوئے۔ جانے کتنے بے قصوروں کو اپنی جانیں گنوانی پڑیں۔


’’میرا معاملہ عدالتوں میں معلق رہا۔ جب بھی سماعت ہوتی میرے چاہنے والے میرے حق میں فریاد کرتے اور عدالتوں کو بتاتے کہ کس طرح رات کی تاریکی میں مورتیاں رکھ کر ایک مسجد کو مندر میں تبدیل کر دیا گیا۔ لیکن میرے خلاف سازش کرنے والوں کی یہ جھوٹی کہانی کہ رام جی کا مندر توڑ کر بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی، رفتہ رفتہ حقیقت بنتی چلی گئی اور اسے سچ سمجھنے والوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ ایک سیاست داں نے مندر کے نام پر رتھ یاترا نکالی۔ یہ یاترا جہاں جہاں سے گزری اپنے پیچھے آگ اور خون کا ایک دریا اور لاشوں کے انبار چھوڑتی گئی۔ بالآخر بہار کے سمستی پور میں اس رتھ یاتری کو گرفتار کر لیا گیا۔

’’قصہ مختصر یہ کہ 6 دسمبر 1992 کو میرا وجود مٹا دیا گیا۔ ہزاروں شرپسندوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو اس تنازعے کی آڑ میں حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ بھی تھے جنھوں نے رتھ یاترا نکالی تھی۔ وہ ملک کا وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ لیکن وزارت اعظمی کی کرسی ان کے ایک شاگرد اور رتھ یاترا کے منتظم کے ہاتھ لگی۔


’’ 6 سمبر 1992 کو لکھنؤ میں بیٹھی حکومت نے عدالت، انصاف اور آئین و قانون کو دن دہاڑے روندتے ہوئے میری بربادی کی داستان لکھ دی۔ دہلی میں بیٹھی حکومت نے خاموشی سے سارا تماشہ دیکھا اور چپ رہی۔ اس وقت کے وزیر اعظم نے بعد میں اعلان کیا کہ جہاں تخریب ہوئی ہے وہاں تعمیر ہوگی۔ میرے چاہنے والے خوش ہو گئے۔ لیکن دراصل وہ ایک دھوکہ تھا۔ ایک فریب تھا۔ تعمیر سے مراد مسجد کی نہیں بلکہ مندر کی تعمیر تھی۔ ادھر میرے خلاف سازش کرنے والے کامیاب ہو گئے۔ انھوں نے رام مندر کے نام پر الیکشن لڑا اور اب وہی لوگ بھارت کے حکمراں ہیں۔

’’قصہ کوتاہ! جب ملک کی سب سے بڑی عدالت میں میرے معاملے پر سماعت ہو رہی تھی تو میرے چاہنے والوں نے بھرپور انداز میں میرا دفاع کیا۔ دلائل دیئے اور تاریخی حقائق پیش کیے۔ ادھر یہ فضا بنائی جانے لگی کہ عدالت جو بھی فیصلہ دے گی ملک کے تمام لوگ اسے تسلیم کریں گے۔ ہندو مسلمان سب اسے مان لیں گے۔ میرے سادہ لوح چاہنے والوں نے بڑھ چڑھ کر کہا کہ ہاں ہم مانیں گے۔ دراصل سارے ثبوت، سارے تاریخی حقائق میرے حق میں تھے۔ اس لیے سب کو امید تھی کہ اب میرے ساتھ انصاف ہو جائے گا۔ جب گواہیوں اور جرحوں کا عمل مکمل ہو گیا اور فیصلہ سنانے کا دن آیا تو مجھے بڑی خوشی تھی کہ آج میرے ساتھ انصاف ہوگا۔ ایک بار پھر مجھے مادی وجود بخشا جائے گا اور ایک بار پھر وہ سرزمین جو 1528 سے سجدوں سے آباد تھی، اللہ اکبر کی صداؤں سے گونج اٹھے گی۔


’’جب 9 نومبر 2019 یعنی فیصلہ سنانے کی تاریخ آئی تو نئی دہلی کی اس عمارت پر جسے انصاف کا سب سے بڑا مندر کہا جاتا ہے، سب کی نگاہیں مرکوز ہو گئیں۔ میں بھی ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی اور یہ سوچتی رہی کہ دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا۔ ملک کے منصف اعظم نے جب فیصلہ سنانا شروع کیا تو انھوں نے ایسی باتیں کہیں کہ میرے چاہنے والوں کے چہرے کھل اٹھے۔ خود میں بھی بہت مسرور تھی اور انصاف کی امید لگائے بیٹھی تھی۔

’’منصف اعظم نے میری خوب ستائش کی۔ میرے حق میں خوب دلائل دیئے۔ مجھے مظلوم و مقہور قرار دیا اور کہا کہ اس کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔ اس نے کہا کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کوئی مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وہاں مسلمان نمازیں ادا کرتے رہے ہیں۔ اس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ رات کی تاریکی میں مورتی رکھ دی گئی تھی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس نے یہ حق گوئی بھی کی کہ بابری مسجد کا انہدام ایک غیر قانونی عمل تھا۔


’’ایسا لگ رہا تھا کہ اب انصاف ہو کر رہے گا۔ بہت منصف مزاج شخص جج کے منصب پر فائز ہے۔ وہ ناانصافی نہیں کرے گا۔ لیکن اچانک سب کچھ منہدم ہو گیا۔ جج نے دستور کی ایک دفعہ کا سہارا لے کر میرے خلاف فیصلہ سنا دیا اور زمین کے اس قطعے کو جہاں میں آباد تھی رام مندر تعمیر کرنے کے لیے ہندووں کو دے دیا۔ اس نے دلیل یہ دی کہ اگر اکثریت کی مرضی و منشا کے مطابق کام نہیں کیا گیا تو فساد پھیل جائے گا۔ اس طرح میرے ساتھ ناانصافی کی ایک داستان مکمل ہو گئی۔

’’لیکن ایک مرحلہ باقی تھا۔ جن سیاست دانوں کے اکساوے پر شرپسندوں نے میرا وجود نیست و نابود کیا تھا ان کے خلاف فیصلہ ہونا تھا۔ میں پھر امید و یقین کے جذبات سے مغلوب ہو گئی۔ میں نے سوچا کہ چلو کم از کم ان لوگوں کو تو سزا ملے گی جو میرے مجرم ہیں۔ لیکن لکھنؤ کی عدالت کے جج نے اپنی سبکدوشی کے آخری دن 30 ستمبر 2020 کو ایسا فیصلہ سنایا جس نے پوری دنیا کے انصاف پسندوں کو مایوس کر دیا۔ اس نے بڑی بے رحمی سے کہہ دیا کہ ان تمام 32 ملزموں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ اس طرح ظلم و زیادتی اور ناانصافی کا وہ باب جو 1949 میں شروع کیا گیا تھا مکمل ہو گیا اور میں دیکھتی رہ گئی۔


’’ملک کی سب سے بڑی عدالت نے جب میرے خلاف فیصلہ سنایا تو بڑی فیاضی دکھاتے ہوئے میرے حقیقی وجود سے میلوں دور ایک قطعہ آراضی دے دی اور کہا کہ اب وہاں مسجد تعمیر کر لیں۔ اس کے ذمہ داران مسجد تعمیر کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ لیکن میرا وجود تو مٹ چکا ہے۔ میرا جسم تو نیست و نابود ہو گیا ہے۔ صرف میری روح باقی بچی ہے۔ وہ بھی زخم خوردہ ہے۔ وہ لمحہ بہ لمحہ روز ریزہ ہوتی رہتی ہے۔ روز کرچی کرچی ہوتی ہے۔ وہ نئی مسجد کیا مجھے میرا حقیقی وجود لوٹا سکتی ہے۔ نہیں ہرگز نہیں۔

’’اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہیں ہوگا کہ ایک جسم سے روح نکال لی گئی۔ جسم کو فنا کر دیا گیا اور اب ایک نیا جسم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن کیا اس جسم میں روح بھی ڈالی جا سکے گی۔ میں تو اس جسم میں داخل ہونے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوں۔ وہ ایک مسجد تو ہو سکتی ہے لیکن بابری مسجد نہیں۔


’’بہر حال میرے چاہنے والے اب بھی میرے حق میں آوازیں اٹھاتے ہیں۔ میرے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف دھرنے اور مظاہرے کرتے ہیں۔ آج پھر وہ سڑکوں پر ہیں اور پرامن انداز میں مجھے انصاف دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن کیا اب مجھے انصاف مل سکتا ہے؟ مجھے اس کی قطعاً امید نہیں ہے‘‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 06 Dec 2020, 10:11 PM