ظلم اور بے روزگاری سے خواتین پریشان، حکومت ماننے کو تیار نہیں... مرنال پانڈے

گزشتہ دہائی میں منظم اور غیر منظم، دونوں ہی طرح کے ہندوستانی مزدوروں میں خواتین کی شراکت داری میں لگاتار گراوٹ درج کی گئی ہے اور 2.5 کروڑ کمانے والی خواتین مزدور سیکٹر سے بے دخل ہوئی ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مرنال پانڈے

ان دنوں تھامس اینڈ رائٹرس فاؤنڈیشن کی تازہ رپورٹ کے بڑے چرچے ہیں۔ رپورٹ کے حساب سے ہندوستان خواتین کے لیے آج دنیا کا سب سے غیر محفوظ ملک ہے۔ صحافیوں کی یادداشت دور تلک جاتی ہے۔ گزشتہ دفعہ (2011 میں) فاؤنڈیشن کی اسی موضوع پر مبنی رپورٹ نے ہندوستان کو چوتھے پائیدان پر رکھا تھا جب کہ افغانستان، کانگو، پاکستان اور صومالیہ سرفہرست تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب یو پی اے کی حکومت زوال پذیر تھی اور بی جے پی کا ستارا چمک رہا تھا۔ لہٰذا انھوں نے اس رپورٹ کی فہرست کو قطعی سچ بتاتے ہوئے منموہن سنگھ حکومت کو شرمسار کرنے میں دیر نہیں لگائی۔

لیکن آج، بی جے پی جوابدہ ہے تو کہا جا رہا ہے کہ یہ رپورٹ مغرب کے 6-5 سو جانے مانے ماہرین کی رائے پر مبنی ہے، ڈاٹا پر نہیں۔ اب کھچڑیے یاد دلا رہے ہیں کہ ابھی حال ہی میں خود وزیر اعظم نے کہا کہ کچھ وجہوں سے (جس میں حکومت کے چیف معاشی مشیر کا چھوڑ جانا اور چیف کاؤنٹنگ افسر کا عہدہ 6 مہینے سے خالی ہونا بھی ہے) روزگار سے متعلق سرکاری ڈاٹا دستیاب نہیں ہے، لہٰذا ان کو خود عوام کو یقین دلانا پڑ رہا ہے کہ ہماری معیشت پھل پھول رہی ہے۔

خیر، وجہ جو بھی ہو، جس طرح روزگار کی کمی ہو رہی ہے، ساتھ ہی گھریلو تشدد، عصمت دری اور سیکس کی ہاٹ میں بچیوں و عورتوں کی جبریہ خرید و فروخت جیسے سنگین جرائم شہر سے گاؤوں تک بڑھ رہے ہیں، اس سے صاف ہے کہ ہمیں ہندوستانی خواتین کی بدحالی کو کسی حکومت مخالف بین الاقوامی سازش کی طرح دیکھنے کی جگہ اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔

رواں سال پہلے تو جموں و کشمیر میں 8 سال کی ایک بچی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری ہوئی اور اس وقت کی ریاستی حکومت کے کچھ بڑے لوگوں نے زناکاروں کے حق میں ریلی نکالی جب کہ مرکز اس معاملے میں خاموشی اختیار کیے رہا۔ بھیڑ کے ذریعہ قانون ہاتھ میں لے کر شک کی بنیاد پر قتل ہر کہیں ہونے لگا، لیکن کس طرح خاموشی جاری ہی نہیں رہی، ضمانت پر چھوٹے یا جیل میں بند ملزمین کو مرکز اور ریاستوں کے کچھ وزیر مالا پہناتے یقین دلاتے نظر آئے؟ جب ایک خاتون کو پاسپورٹ دینے میں ناحق سو سو رخنات لگانے اور پھر وزیر کے ذریعہ انسانیت کا مظاہرہ کر رخنہ پیدا کرنے والے ملازم کے خلاف کارروائی کرنے کا واقعہ سرزد ہوا تو سینئر وزیر خارجہ کو سوشل میڈیا میں ٹرولنگ کے ذریعہ افسوسناک طریقے سے گالی گلوج کی جانے لگی، لیکن اس پر بھی وہی خاموشی؟

کافی دیر سے ہی سہی وزیر داخلہ اور ٹرانسپورٹ کے وزیر نے اس کی مذمت کی، لیکن اُجولا منصوبہ اور ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ کا نعرہ دینے والے اعلیٰ کمان کی خاموشی رہی! اس خاموشی کو ’خاموش اتفاق‘ سمجھ کر اتر پردیش کے ایک ممبر اسمبلی کہہ دیتے ہیں کہ عصمت دری تو قدرتی آلودگی ہے جسے رام جی بھی نہیں روک سکیں گے۔ اور دوسری طرف اسی جولائی ماہ میں ایک ہی دن میں یو پی کے اناؤ میں ایک خاتون کی اجتماعی عصمت دری ہوئی، بہار میں ایک طالبہ سے ٹیچروں ہی نہیں، ساتھ میں پڑھنے والے طلبا کے ذریعہ بھی اجتماعی عصمت دری ہوئی اور اناؤ کی عصمت دری کو تو فلمایا بھی گیا۔

جہاں تک خواتین کے روزگار کی بات ہے، حکومت کے 2016 کے محکمہ محنت یعنی لیبر بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق منریگا منصوبہ کے تحت گزشتہ سالوں کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ بے روزگاروں نے روزگار کے لیے درخواست کی جو سست پڑتے شہری صنعتی دنیا اور خشک سالی کے شکار دیہی علاقوں کی حالت کا بے باک آئینہ ہے۔ ان میں سے 1.6 کروڑ درخواست کنندگان کو اس مدت (سال میں 120 دن) کا کام تک نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے اور ٹھوس سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2014 سے 2016 تک کل 4.3 لاکھ نیا روزگار ہی پیدا ہوا جو اعلان شدہ تعداد کا نصف بھی نہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی (جہاں سے مرکزی ریاستی وزیر پڑھ کر نکلے ہیں) کی مشہور تحقیقی تنظیم ’ای پاڈ‘ (ایویڈنس فار پالیسی ریسرچ) نے ہندوستانی کی مزدور خواتین کی حالت پر ’شرنکنگ پاور‘ یعنی سکڑتی طاقت کے نام سے رپورٹ جاری کی ہے۔ یہ رپورٹ ہندوستانی خواتین کی مستحکم خود مختاری کے حقیقی حمایتیوں کے لیے غور طلب بنی اور اسی لیے اس سال کے اقتصادی سروے میں خواتین پر (سابق) چیف معاشی مشیر نے خاص توجہ دلائی۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ دہائی میں منظم اور غیر منظم دونوں ہی طرح کے ہندوستانی مزدوروں میں خواتین کی شراکت داری میں لگاتار گراوٹ آئی ہے۔ اور 2.5 کروڑ کمانے والی خواتین مزدوری سیکٹر سے بے دخل ہوئی ہیں۔ آج ’بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ‘ جیسے منصوبوں سے فائدہ لے کر ہماری بچیاں بڑی تعداد میں اسکول ضرور جانے لگی ہیں، لیکن روزگار لگاتار کم ہو رہے ہیں۔ نتیجتاً ترقی پذیر ممالک کے گروپ ’بریکس‘ میں ہم خواتین کو روزگار دینے کے شعبہ میں سب سے نچلے پائیدان پر اور جی-20 ممالک کی فہرست میں نیچے سے دوسرے پائیدان پر کھڑے ہیں۔

بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن اور ’شرنکنگ پاور‘ رپورٹ کا اندازہ ہے کہ اگر آج ہندوستان میں سبھی خواہشمند خواتین کو روزگار مل جائے تو ہندوستان کی کل قومی آمدنی میں آرام سے 27 فیصد تک کا اضافہ ممکن ہے۔

خانگی اور صحت سے متعلق پیمانوں میں بھی مزدور عورتوں کی خانگی اور صحت کے حالات میں قابل ذکر بہتری پائی گئی کیونکہ زیادہ تر کام کرنے والی خواتین کم عمر میں ماں نہیں بنتیں، ان کے بچوں کے درمیان کا فرق بھی صحیح ہوتا ہے۔ اور جو شادی شدہ لڑکیاں کام پر جاتی ہیں ان کی فیملی والے دیگر بہنوں کی شادی بھی بے وقت نہیں کرتے۔

منریگا کی خواتین مزدوروں کے ایک سروے میں پایا گیا ہے کہ کام کرنے والی خواتین اپنی بے روزگار بہنوں کے مقابلے میں آزاد، فیصلہ لینے میں مضبوط اور بہتر روزگار کی تلاش میں باہر جانے کے لیے کہیں زیادہ پرجوش ہوتی ہیں۔ اسی لیے حکومت ہند کی (پانچ سالہ) قومی سیمبل سروے رپورٹ کے مطابق آج 50 فیصد خواتین، جن میں تقریباً دو تہائی گھریلو خواتین ہیں، باہر کام پکڑنے کی خواہشمند ہیں۔ اگر ان کو اپنے گھر کے قریب ہی روزگار کا بھروسہ ہو تب تو اس تعداد میں 21 فیصد تک مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ چھوٹے بچوں والی نوجوان خواتین کے لیے گھر کے پاس روزگار دستیاب ہونے سے ’منریگا‘ منصوبہ میں ان کی شراکت داری مردوں (48 فیصد) سے بڑی (52 فیصد) ہے۔

حکومت اور سماج دونوں کی مشترکہ کوششوں سے خواتین کی کثیر رخی ترقی کا گراف تیار ہو سکتا ہے۔ اگر حکومت خواتین کو صحیح طرح سے صحیح قسم کے روزگار، تربیت اور تحفظ دے تو سماج ان کی قیمت سمجھ کر خواتین پر لگائی گئی اپنی کئی سماجی رکاوٹیں خود ہی دھیرے دھیرے توڑ دیتا ہے۔ مثلاً 1980 کی سرکاری ’آپریشن بلیک بورڈ‘ منصوبہ نے سرکاری اسکولوں میں خواتین ٹیچرس کے لیے 50 فیصد کا کوٹہ طے کیا تھا۔ اس کے تحت تین دہائیوں میں تعلیم کا سیکٹر شہر سے گاؤں تک خواتین کے لیے زراعت کے بعد روزگار پانے کا سب سے بڑا سیکٹر تو بنا ہی، گاؤں گاؤں میں لڑکیوں کو بھرپور تعلیم دلانے سے متعلق بھی یہ کوٹہ ایک بڑی وجہ بن گیا ہے۔ البتہ اس بات کا انتظام حکومت کو ضرور کرنا ہوگا کہ منافع خور مالکان خواتین کو اپنے یکساں ہنر والے مردوں کے برابر تنخواہ دینے میں اعتراض نہ کر سکیں۔

ہماری کیرالہ اور مشرقی ریاستوں کے سروس سیکٹر میں کام کرتی لاکھوں خواتین بھی امیگریشن سے کمانے والی بننے کی صحت مند مثال ہیں۔ ’شرنکنگ پاور‘ رپورٹ کے مطابق روزگار چاہنے والوں میں سے 68 فیصد مرد اور 62 فیصد خواتین اس کے حق میں ہیں کہ اگر اچھا روزگار پانے اور مشکل حالات سے نکلنے کے لیے گھر سے دور جانا پڑے تو ضرور جانا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔