طنز و مزاح: آبلے پڑگئے زبانوں میں... تقدیس نقوی

ہم بچپن سے سنتے آئے تھے کہ جھوٹ بولنے والے کی زبان کالی ہوجاتی ہے مگر جتنا جھوٹ آج کل گودی میڈیا کا ایک ٹی وی اینکر بولتا ہے اس کے اثر سے تو زبان میں آبلے پڑجاتے ہوں گے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تقدیس نقوی

ملک میں میڈیا کی اکثریت جب سے گود لی گئی ہے عدل و انصاف کی کوکھ اجڑ گئی اور حق گوئی بیوگی کے دن گزار رہی ہے۔ سچ لاوارث اور صحافتی ایمان داری یتیم ہو چکی ہے۔ عوام کے سر پر دیش دروہ کی تلوار لٹکا کر زبانوں پر قفل لگا دیئے گئے ہیں۔ ہرطرف جھوٹ کا بول بالا ہے۔ مفاد پرست سوداگروں کو کھلےعام جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کا لائسنس دے دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کے دماغ آسمان پر اور زبان گرتے گرتے پاتال میں پہنچ چکی ہے۔ ہر ٹی وی چینل بڑھ چڑھ کر اپنے آقاؤں کے ذریعہ دیئے گئے جھوٹ بولنے اور سچ کو مٹانے اور چھپانے کے کام میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش میں مصروف ہے۔

سچ کوجھوٹ بنانا یا اختراع کرنا اک مخصوص فن مانا جاتا ہے۔ اس فن میں برجستگی، ڈھٹائی، طوطا چشمی، تکرار اور سب سے زیادہ خود اعتمادی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ جھوٹ بولنے کے لئے برجستگی اور خود اعتمادی وہ خصوصیات ہیں جو اس فن کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔ یہی وہ کمالات ہیں جن کے سہارے ان ٹی وی چینلوں کی تجارت چمک رہی ہے۔


ٹی وی اینکرینگ کے لئے جھوٹ بولنے کی صلاحیت کے لئے ضروری برجستگی اور خود اعتمادی کا نمونہ ہمیں کچھ دن قبل دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ہوا یوں کہ ایک دن میر صاحب ہمارے پاس اپنے اک نوجوان عزیز کو لے کر آدھمکے اور کہنے لگے کہ آپ اس نوجوان کی اک مشہور و مقبول ٹی وی چینل میں مطلوبہ ٹی وی اینکر کی پوزیشن کے لئے سفارش کر دیں۔ ہمارے دریافت کرنے پر کہ موصوف کی کیا کوالیفیکیشنس ہیں تو وہ جھٹ سے بولے:

" برخوردار بڑی مہارت اور صفائی سے جھوٹ بولنے کی بے مثال اعلی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ پچھلے کئی برس سے ان کے شب و روز گودی میڈیا کے ٹی وی چینلوں پر دکھائے جا رہے مباحثوں یا 'توتو میں میں' کو دیکھتے ہی گزرے ہیں جہاں انہیں ہر وقت سفید کو کالا اور کالے کو سفید بنانےکے نمونے دیکھنے کو ملتے رہے ہیں۔ اس لئے جو تھوڑی بہت صفائی سے جھوٹ بولنے میں کسر باقی رہ گئی تھی وہ بھی اب ماشااللّہ پوری ہوچکی ہے۔ اب تو روشن دن کو اندھیری رات ثابت کر دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ آج کل یہی صلاحیت ٹی وی اینکر بننے کے لئے پہلی شرط تصور کی جاتی ہے۔ اس لئے موصوف ٹی وی اینکر بننے کے لئے پوری طرح تیار ہوچکے ہیں۔"


میر صاحب ہماری تسلی کی خاطر اس نوجوان سے جھوٹ بولنے کا ڈیمونسٹریشن کرنے کے لئے اصرار کرنےلگے:

" برخوردار سر کے سامنے سفید جھوٹ بولنے کا کوئی نمونہ پیش کرو تاکہ یہ تمہاری سفارش کسی ٹی وی چینل سے کرسکیں۔ ان کی میڈیا والوں کے ساتھ خوب جمتی ہے کیونکہ آج کل لکھنے لکھانے والوں کا کام بھی تو جھوٹ کے بغیر نہیں چلتا۔"

" آپ تو ابھی کہہ رہے تھے کہ سر ہماری سفارش کرچکے ہیں۔" نوجوان نے بڑے سوکھے منہ سے میر صاحب کو برملا جھوٹا ثابت کرتے ہوئے ٹی وی اینکر بننے کی اپنی اعلی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔

اقتدار کی گود میں بیٹھی یہ الیکٹرانک میڈیا پرانے زمانہ کے جاگیرداروں کے یہاں ان کے ٹکڑوں پر پلنے والے ان چرب زبان میراثیوں سے کم نہیں ہے جو جاگیرداروں کے ابرو کے ایک اشارے پر اچھے اچھے شریفوں کی آبرو سرعام مٹی میں ملا دیتے تھے۔ جس کے سبب شرفاء حضرات جاگیردار سے زیادہ اس کے پالتو میراثیوں سے ڈرتے تھے۔ اک تو صاحب اقتدار کی پشت پناہی اور دوسرے گندے نالوں میں سرسراتی سو سو گز لمبی بے لگام زبانیں ان میراثیوں کے وہ مہلک ہتھیار ہوتے تھے جن کے سامنے شرفاء کو اپنی دستار سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا۔ اسی طرح آج عوام میں جتنی دہشت کچھ مخصوص ٹی وی اینکروں کی ہے اتنی تو ڈنڈا استعمال کرنے والوں کی بھی نہیں ہے۔


ان اینکروں کے ٹی وی اسکرین پر چیختی چلاتی خوفناک شکلیں جب نمودار ہوتی ہیں تو کمزور دل حضرات گھبرا کر اپنا منہ گریبان میں چھپا لیتے ہیں۔ ڈاکٹرعمر رسیدہ لوگوں اور بچوں کو ان چینلوں سے پرہیز کرنے کی صلاح دیتے ہیں۔ شرفاء کے گھروں میں خواتین کے سامنے یہ چینل نہیں کھولے جاتے۔ کئی بار تو یہ چینل کھولنے پر ہمارے پڑوسیوں نے ہمارے اندرون خانہ جھگڑا ہوجانے کے گمان میں پولیس بلالی تھی۔ اگرکوئی غلطی سے چینل بدلنے کی کوشش کر بیٹھے تو دوسرے چینل پر اس سے بھی بھیانک عفریت دانت نکالے خونخوار نظروں سے مہمانوں اور ناظرین کو کھا جانے والی نظروں سے گھورتا ملتا ہے۔

ان پروگراموں یا دنگلوں کے اینکروں کے سامنے کچھ پرماننٹ رٹو طوطا قسم کے لوگ لاکر بٹھائے جاتے ہیں جنھیں باعزت کہلوانے کے لئے عموماً ان بے چاروں پر 'اکسپرٹ' ہونے کی تہمت لگادی جاتی ہے۔ یہ نام نہاد 'ایکسپرٹ ' زیادہ تر چینل کے اسٹوڈیو ہی میں مستقل قیام فرماتے ہیں۔ جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان جیسے فارغ میاں مٹھو اور ٹی وی اینکر سے لعن و طعن سننے کے باوجود بھی مسکرانے والے لوگ دوبارہ ڈھونڈے سے بھی ہاتھ نہیں لگتے۔ دوسرے کیونکہ اکثر ' ایکسپرٹس' اپنا ضمیر گھر پر چھوڑ کر آتے ہیں اس لئے پروگرام میں اپنی درگت بنوانے کے بعد گھر واپس جانے کی ہمت نہیں کرپاتے ہیں۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ تمام گودی چینلوں پرکم و بیش ہر پروگرام میں یہی 'میاں مٹھو' اونگھتے نظر آتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اینکر صاحب کا سلوک اپنے مہمانوں کے ساتھ ان کی حیثیت کے حساب سے روا رکھا جاتا ہے۔ مثلاً حزب مخالف کے نمائندہ پر وہ دھاڑتے ہوئے نظر آتے ہیں یا آتی ہیں: "مسٹر ڈفلی والا آپ کو شرم نہیں آتی یہاں اسٹوڈیو میں... "


یہ سن کر وہ نمائندہ گھبرا کر اپنے پاجامے کا کمر بند چیک کرنے لگتا ہے۔ اینکر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے: "ہمارے اسٹوڈیو میں ہی بیٹھ کرآپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اتنا بڑا جھوٹ بولتے ہوئے آپ کی زبان میں آبلے نہیں پڑ گئے" اور وہ بے چارا برابر میں رکھی کافی کا کپ چیک کرنے لگتا ہے۔ یہی اینکر جب اپنے آقاؤں کے نمائندہ سے گفتگو کرتا ہے تو لہجہ انتہائی شیریں اور ٹھرا ہوا ہوتا ہے۔

ماضی میں جس طرح اکثر جاگیردار اپنے دیوان خانوں میں شرفاء کو مدعو کرکے میراثیوں اور بھانڈوں کے ذریعہ ان کی 'عزت افزائی' کا اہتمام کرتے تھے بالکل اسی طرح آج کل تمام گودی ٹی وی چینلس اپنے مخصوص پروگراموں میں حکومتی موقف سے اختلاف کرنے والے شرفاء کو مدعو کرکے ان کی پگڑیاں اچھالنے کا شریفانہ کام بھی انجام دے رہے ہیں۔


ہر طرف جھوٹ کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں۔ اکثر جھوٹ کی تکرار اسے سچ ثابت کرنے میں بڑی معاون ثابت ہوتی ہے۔ بڑے پیمانہ پر جھوٹ کو بنانے کے لئے جھوٹوں کی ایک اچھی ٹیم کو یکجا کرنا بھی مؤثر ہوتا ہے۔ جب سو لوگ مل کر ایک ہی جھوٹ کی تکرار مختلف اوقات اور محل پر مل کر کرتے ہیں تو وہ جھوٹ جھوٹ نہیں رہتا اور کچھ عرصہ بعد سننے والوں کے کانوں کو سچ لگنے لگتا ہے۔ کیونکہ یہ سارے چینلس ایک ہی جاگیردار کے مختلف زرخرید درباری میراثی کا فرض نبھا رہے ہوتے ہیں اس لئے ان میں یکجہتی اور ٹیم اسپرٹ کا اعلی مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے جس کے نتیجہ میں عوام وہ سب کچھ خریدنے پر مجبور ہوجاتی ہے جو یہ چینلس شب و روز بیچنا چاہتے ہیں۔

اگر کسی مجبوری میں ہم کبھی کچھ دیر ان ٹی وی چینلوں کے کسی پروگرام کو غیر ارادی طور سے دیکھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں تو ٹی وی اینکر کی زہرآلود دہاڑ سے ہمارا سارا چہرہ جھلس سا جاتا ہے اور جگہ جگہ داغ سے پڑجاتے ہیں جو اچھے اچھے صابن سے دھونے پر بھی نہیں جاتے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ داغ دراصل اس احساس جرم کے ہیں جو ٹی وی چینلوں پر روزوشب جھوٹ سن سن کر آپ کے خاموش رہنے کے باعث پڑگئے ہیں۔


ہم بچپن سے سنتے آئے تھے کہ جھوٹ بولنے والے کی زبان کالی ہوجاتی ہے مگر جتنا جھوٹ آج کل گودی میڈیا کا ایک ٹی وی اینکر بولتا ہے اس کے اثر سے تو زبان میں آبلے پڑجاتے ہوں گے۔

بقولے:

"جھوٹ اتنا بڑھا بیانوں میں

آبلے پڑ گئے زبانوں میں"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔