حجاب: مختلف تعبیرات و مضمرات... ڈاکٹر عفت جہاں

سعودی عرب میں حجاب پہننا ضروری نہیں ہے، جبکہ ایران، افغانستان اور انڈونیشیا کے کچھ صوبوں میں قانون کے مطابق اس کو پہننا لازمی ہے، حجاب پر پابندی لگانے والے قوانین کئی ممالک میں منظور کیے جا چکے ہیں۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

ڈاکٹر عفت جہاں

حجاب عورت کے لیے ایک پردہ ہے۔ اس سے عورت کی خوبصورتی اور حسن میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ حجاب کو اکثر و بیشتر مسلم خواتین مرد کی موجودگی میں پہنتی ہیں۔ یہ عورت کے سر اور سینے کو ڈھانپتا ہے۔ اس کے استعمال سے عوامی شعبے میں مردوں سے عورتوں کے الگ ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اس کی مختلف تعبیریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کئی ممالک میں حجاب کے استعمال پر پابندی ہے تو کئی ممالک میں اس کو پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ سعودی عرب میں قانون کے مطابق عوام میں حجاب پہننا ضروری نہیں ہے۔ ایران، افغانستان، اور انڈونیشیا کے کچھ صوبوں میں قانون کے مطابق اس کو پہننا لازمی ہے۔ حجاب پر پابندی لگانے والے قوانین کئی ممالک میں منظور کیے جاچکے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں خواتین کو حجاب پہننے یا نہ پہننے کے لیے غیر سرکاری دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ حجاب کا استعمال عام طور پر خواتین کے لیے شرافت اور لباس کے اسلامی اصولوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام اینڈ مسلم ورلڈ کے مطابق، شائستگی کا تعلق مردوں اور عورتوں دونوں کی "نظریں، چال، لباس اور جنسی اعضاء" سے ہے۔ چہرے اور ہاتھوں کی کلائیوں تک کے علاوہ ہر چیز کو ڈھانپنے کے لیے یہ ہدایت قرآن کے نزول کے بعد وضع کی گئی۔ قرآن مسلم خواتین اور مردوں کو شائستہ لباس پہننے کی ہدایت کرتا ہے۔ قرآن کی آیات میں، حجاب کی اصطلاح ایک پردے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ وہی حجاب ہے جو محمد کے گھر میں آنے والوں اور ان کی بیویوں کے درمیان ایک پردہ کا کام کرتا ہے۔

ایران میں، جہاں حجاب پہننا قانونی طور پر ضروری ہے، بہت سی خواتین ریاست کے حکم کردہ ڈریس کوڈ کی حدود کو توڑتی ہوئی نظر آتی ہیں، جس سے جرمانے یا حراست میں لیے جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ گرمی کے مہینوں کے دوران ترکی میں پہلے پرائیویٹ اور سرکاری یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں حجاب پر پابندی تھی۔ اس پابندی کا اطلاق گلے میں لپٹے اسکارف پر نہیں ہوتا، جو روایتی طور پر اناطولیہ کی کسان خواتین پہنتی ہیں، بلکہ اطراف میں صفائی کے ساتھ چپکے ہوئے سر کو ڈھانپنے پر نافذ ہوتا ہے، جسے 1980 کی دہائی سے تعلیم یافتہ شہری خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد نے اپنایا ہے۔ 2000 کی دہائی کے وسط تک، 60 فیصد سے زیادہ ترک خواتین نے گھر سے باہر اپنا سر ڈھانپ رکھا تھا۔ 2014 میں مشی گن یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار سوشل ریسرچ کی طرف سے ایک رائے عامہ کے سروے میں سات مسلم اکثریتی ممالک مصر، عراق، لبنان، تیونس، ترکی، پاکستان اور سعودی عرب کے باشندوں سے پوچھا گیا کہ وہ خواتین کے لباس کا کون سا انداز زیادہ بہتر سمجھتے ہیں تو معلوم ہوا کہ اسکارف کو پاکستان کے علاوہ مصر، عراق، تیونس اور ترکی میں جواب دہندگان کی اکثریت نے منتخب کیا تھا۔ جب کہ لبنان میں نصف جواب دہندگان جن میں عیسائی اور ڈروز شامل تھے، نے بالکل بھی سر نہ ڈھانپنے کا انتخاب کیا۔ سروے میں مردوں اور عورتوں کے درمیان ترجیحات میں "کوئی خاص فرق" نہیں پایا گیا۔


آج کی حقیقت یہ ہے کہ اکثریت اس حق میں ہے کہ عورتوں پر لباس کے استعمال پر کسی بھی طرح کی پابندی ٹھیک نہیں ہے۔ عورت کو یہ آزادی حاصل ہونی چاہییے کہ وہ کیا پہنے اور کیا کھاۓ۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کچھ فیشن کے بارے میں پختہ شعور رکھنے والی خواتین حجاب کی غیر روایتی شکلوں کی طرف متوجہ ہوئی ہیں۔ وہ اس تعلق سے آزادی چاہتی ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ اگر گردن کو بے نقاب چھوڑ دیا جائے تو اسے صحیح اسلامی پردہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ پیو ریسرچ سینٹر کے ایک اور سروے (2011) میں، 36 فیصد مسلم امریکی خواتین نے اطلاع دی کہ وہ جب بھی عوامی مقامات پر ہوتی ہیں حجاب پہنتی ہیں، جبکہ 24 فیصد عورتوں نے کہا کہ وہ اسکارف کے علاوہ کچھ اور پہنتی ہیں۔ جبکہ 40 فیصد نے کہا کہ انہوں نے کبھی بھی ہیڈ کور نہیں پہنا۔ گویا حجاب پہننے کے تعلق سے ہر طرح کی راۓ ہمیشہ سے سامنے آتی رہی ہے۔ اس پر سیاست کا رنگ بھی خوب چڑھتا رہا ہے۔

حجاب کے استعمال کے تعلق سے مختلف افراد کی مختلف آراء ہیں۔ قران اور احادیث کی روشنی میں بہت سے لوگ اس کے استعمال کو اسلامی لباس کا نام دیتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اسے اسلامی لباس تسلیم نہیں کرتے۔ تاہم اس بات سے سبھی اتفاق کرتے ہیں کہ قرآن میں عورتوں کو پردہ کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مخصوص مذہب کا سہارا لے کر حجاب کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کی بات آخرکیوں کی جاتی ہے۔ اس کے پس پشت کیا کوئی سازش کارفرما ہوتی ہے۔ یہ سوال آج کے تمام جمہوری ممالک کے لیے ایک چیلنج ہے۔ جب کسی ملک میں عورت کو کچھ بھی زیب تن کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے تو پھر کیوں اس کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسے جب کھانے پینے اور پہننے کا آئینی حق حاصل ہے تو پھر کچھ لوگ حجاب کے ایشو کو کیوں ہوا دیتے ہیں۔ دراصل اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ سبھی اس سیاست کو سمجھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ حجاب کو موضوع بنا کر سیاسی روٹیاں سینکی جاتی ہیں۔ یہ کوئی ایشو نہیں ہے مگر اسے ایشو بنایا جاتا ہے۔


ہرعورت کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کا لباس پہنے۔ یونیفارم کے نام پر اسکولوں اور کالجوں کی طالبات پر حجاب کے استعمال پر پابندی کا موضوع عدالت کی مدد سے آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے، لیکن مسئلہ کا حل سے زیادہ کچھ لوگوں کی دلچسپی اس ایشو کو ہوا دینے میں زیادہ رہی ہے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ اس نوع کے زیادہ تر مسائل کو انتخابات کے زمانے میں زیادہ چھیڑا جاتا ہے جو کہ کسی بھی طور مناسب نہیں ہے۔ حصول تعلیم کے لیے مسلم لڑکیاں اب پہلے سے زیادہ آ رہی ہیں، ایسی صورت میں حکومتوں کو مثبت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ مسلم طالبات کا تعلیمی کارواں متاثر نہ ہو اور ڈریس کوڈ کا معاملہ بھی پیچیدہ نہ رہے۔ کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی میں وہاں کے ہر طبقے کا اپنا ایک کلیدی رول ہوتا ہے اور پھر یہ بھی ایک سچائی ہے کہ جس ملک میں خواتین جتنی زیادہ تعلیم یافتہ ہوں گی اس ملک کی تصویر اتنی ہی تیزی سے ترقی اور خوشحالی کی سمت میں بدلتی ہے۔ اس لیے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حجاب کے ایشو کو مذہبی رنگ نہ دیا جاۓ بلکہ مثبت فکروعمل سے کام لیا جائے۔ یہی دراصل وقت کا تقاضا ہے۔ حجاب کے مسئلے پر آتش انگیزی کسی بھی ملک کے مفاد میں مناسب نہیں۔

(مضمون نگار ابوظہبی، متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔