’ہے رام‘ دہشت گردوں کو حبُ الوطن کہنے والوں سے ملک کو بچا

دہشت گردی ایسا نہیں ہے کہ القائدہ سے شروع ہوئی اور داعش پر آکر ختم ہو گئی۔ ہر دور میں انتہا پسندی، جس کو ہم دہشت گردی کہتے ہیں، اس کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز تجزیہ

دہشت گردی پر کہیں بات ہو یہ بات ضرور کہی جاتی ہے کہ ’ٹھیک ہے ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتا، لیکن ہر دہشت گرد مسلمان کیوں ہوتا ہے‘۔ جو موجودہ ماحول ہے اس میں سامنے والا یہ بات نہ صرف سنتا ہے بلکہ اس کو آگے دہرانے میں خود کو دانشمند بھی سمجھتا ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جب سے دنیا کے نقشہ سے سوویت یونین ختم ہوا ہے اس کے بعد سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد امریکہ نے اپنے سامنے مسلمان نام کا ایک دشمن تیار کیا۔ اس کے بعد سے دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے القائدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں نے ایک مرکزی حیثیت اختیار کر لی اور پھر مسلمان اور اسلام کو دہشت گردی سے جوڑ کر دیکھا جانے لگا۔

دہشت گردی ایسا نہیں ہے کہ القائدہ سے شروع ہوئی اور داعش پر آکر ختم ہو گئی۔ ہر دور میں انتہا پسندی، جس کو ہم دہشت گردی کہتے ہیں، اس کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ اگر تھوڑا سا پیچھے مڑ کر ہی دیکھیں تو ہمیں آئرلینڈ کی آزادی کی تحریک کی خوفناک تصاویر سامنے دکھائی دیتی ہیں جس میں ہوئی دہشت گردی میں بہت سے لوگوں کی جانیں گئیں۔


خود ہمارے ملک میں سکھوں نے الگ آزاد ریاست کے لئے ہر قسم کی دہشت گردی کی اور نتیجہ میں ہم نے بلو اسٹار او ر بلیک تھنڈرآپریشن بھی دیکھے۔ ہم نے سری لنکا میں بھی ایل ٹی ٹی ای کی دہشت گردی دیکھی ہے جس میں خود کش حملوں کے عمل کو بہت تیزی سے فروغ ملا۔ جہاں سکھ دہشت گردی کی وجہ سے ہم نے اپنی ایک وزیر اعظم کو کھویا وہیں راجیو گاندھی کی زندگی سری لنکا کی دہشت گردی کی نذر ہوئی۔ اگر اندر گاندھی اور راجیو گاندھی کی جان لینے والے عمل کو ہم دہشت گردی کے خانے میں رکھتے ہیں تو پھر ملک کو آزادی دلانے والے ہمارے باپو مہاتما گاندھی کی جان لینے والے کو ہم کیوں نہ دہشت گرد کہیں، اور دنیا صرف کہتی ہی نہیں بلکہ اس کو مانتی اور اس پر یقین بھی کرتی ہے۔

اگر آج کوئی ایسی امیدوار جو خود دہشت گردی کے الزام میں ضمانت پر رِہا ہو وہ باپو کے قاتل کو حب الوطن کہے تو ملک کے لئے تو شرم کی بات ہے ہی، ساتھ میں اس عظیم شخص کے نظریہ اور روح کو چھلنی کرنے جیسا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ جس خاتون نے باپو کے قاتل کو حب الوطن کہا ہے وہ ملک کی بر سر اقتدار جماعت بی جے پی کی امیدوار ہے۔ سب سے پہلے تو اس پارٹی کو ایسی خاتون کو اپنا امیدوار ہی نہیں بنانا چاہئے تھا جو دہشت گردی کے الزام میں ضمانت پر رِہا ہو، اور اگر بنا بھی دیا تھا تو ان کے اس بیان کے بعد کہ ’باپو کا قاتل حب الوطن ہے، تھا اور رہے گا‘ کو کم از کم اپنی پارٹی سے نکال دینا چاہئے تھا لیکن اس نے ایسا نہ کر کے خود کو اس خاتون کی سوچ اور نظریہ کے ساتھ لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کا بیان ’’باپو کا قاتل حب الوطن، ہے رام‘‘ ان حالات کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو پھر ’ہے رام‘ کے علاوہ کچھ اور سمجھ بھی نہیں آتا۔باپو کی زبان سے بھی آخری الفاظ یہی نکلے تھے ’ہے رام‘۔


دہشت گرد امریکہ کا ورلڈ ٹریڈ ٹاور اڑائیں، معصوم لوگوں کی جانیں لیں، اندرا گاندھی کو گولیوں سے بھونیں، راجیو گاندھی کو خود کش حملہ کا شکار بنائیں یا باپو کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنائیں، ان کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ان لوگوں کی بھی اتنی ہی مذمت کرنی چاہئے جو ایسے عمل کو انجام دینے والے کو طرح طرح کے نام دے کر ان کی تعریف کریں۔ ’ہے رام ‘ اس ملک کو ایسے عناصر سے بچا جو دہشت گردوں کو حب الوطن کے القاب سے نواز رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 May 2019, 10:10 PM
/* */