جھارکھنڈ کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل

جھارکھنڈ میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قبائلی اور علاقائی و اقلیتی زبانوں کی پڑھائی کاانتظام ہے لیکن ابتدائی سطح پر اس سلسلہ میں کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیے گئے

جھارکھنڈ کے طلبا کی ایک فائل تصویر
جھارکھنڈ کے طلبا کی ایک فائل تصویر
user

عبدالقیوم ابدالی

جھارکھنڈ کو ایک الگ ریاست کے طور پر وجود میں آئے ہوئے تقریباً سترہ سال ہو گئے۔ سترہ سال کے بعد بھی جھارکھنڈ کی مقامی اکثریت یہ سمجھ نہیں پا رہی ہے کہ اس ریاست کو الگ کرنے کا مطالبہ ان کے آبا و اجداد نے کیوں کیا تھا؟ کیوں اپنی جانیں دی تھیں، لاٹھیاں کھائیں تھیں، جیلیں گئے تھے اور مصیبتیں جھیلی تھیں؟ ریاست کی اکثریت جو گاؤں اور مضافات میں رہتی ہے، تمام تر سہولتوں کے ’اعلانات‘ کے باوجود شہر کے انگریزی میڈیم اسکولوں میں پڑھنے والے لڑکوں کے مقابلہ میں زیادہ تر مقابلہ جاتی امتحانات میں شامل ہونے کی ہمت نہیں کر پاتے۔ حکومتیں اور ان کے اہل کار ان کو اب تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ بچوں کی ابتدائی تعلیم کا وسیلہ ان کی مادری زبان ہو، انگریزی اور ہندی یا دیگر زبانیں ساتھ میں سکھائی جائیں۔ مہاراشٹر، بنگال، اڑیسہ، گجرات، پنجاب اور تقریباً تمام جنوبی ہند کی ریاستوں کے خود کفیل ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں ریاست کا کام کاج ان کی مادری زبان میں ہوتا ہے۔ یہاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قبائلی اور علاقائی و اقلیتی زبانوں کی پڑھائی کا تو انتظام ہے لیکن ابتدائی سطح پر اس سلسلہ میں کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیے گئے۔ غیر منقسم بہار میں اردو، بنگلہ اور اڑیہ میڈیم کے اسکول تھے لیکن الگ ریاست کی تشکیل کے بعد ان میں سے زیادہ تر اسکول یا تو بند ہو گئے یا نزدیکی سرکاری اسکولوں کا حصہ بن گئے۔ انجمن ترقی اردو جھارکھنڈ کے صدر پروفیسر ابوذر عثمانی کا ہم سب کو شکرگزار ہونا چاہیے، ان کی عدالتی چارہ جوئی کے بعد انٹر کے طلبا اردو کے ساتھ بنگلہ اور اڑیہ رسم الخط میں امتحان دے سکتے ہیں ورنہ صرف ہندی اور انگریزی کے میڈیم سے ہی امتحان دیا جا سکتا تھا۔ حکومتیں ان زبانوں کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا وعدہ کرتی ہیں لیکن اردو جسے باقاعدہ سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے اس میں نہ تو درخواستیں لینے کا انتظام ہے اور نہ ان کے جواب دینے کا۔ تشکیل جھارکھنڈ کے بعد نہ اردو مترجمین کی تقرری ہوئی ہے نہ کمپوزیٹروں کی۔ اسکولوں میں اساتذہ کی جو تقرری ہوئی اس میں آدھی سے زیادہ جگہیں اس لیے خالی رہ گئیں کہ ایس سی اور ایس ٹی لڑکے لڑکیاں اردو نہیں پڑھتے۔ حکومتیں چاہتیں تو ان جگہوں کو بی سی 1 اور 2 یا او بی سی لوگوں سے بھر سکتی تھیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود زیادہ تر لڑکے لڑکیاں بے کار و بے روزگار رہ جاتے ہیں۔

ریاست میں سی این ٹی اور ایس پی ٹی قوانین میں تبدیلی اور ’مقامیت‘ کی موجودہ پالیسی کی جو مخالفت ہو رہی ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ریاست کی تعمیر نو کا جو منصوبہ بنایا جا رہا ہے وہ عالمگیر شہرت یافتہ صنعت کاروں اور تاجر گھرانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیا کرانے کے لیے ہے۔ اعلیٰ درجہ کی شاہراہیں، ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کے دور دراز علاقوں کو ریل اور ہوائی طیاروں کے ذریعہ جوڑا جانا ہے۔ شاہراہوں اور ریلوے اسٹیشنوں کے کناروں کو ترقی دی جا رہی ہے۔ بڑے شہروں کو ترقی دی جا رہی ہے۔ مضافاتی شہروں کو ایک دوسرے سے جوڑا جا رہا ہے اور اس لیے ان علاقوں کو آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے قوانین میں تبدیلی ضروری ہے۔ ترقی کی اس دوڑ میں اپنے پسندیدہ لوگوں کو شامل کرانے کے لیے انھیں آسانی سے زیادہ زیادہ آسانیاں فراہم کرائی جا سکیں اس لیے ’مقامیت‘ کے دائرہ کو اتنا وسیع کر دیا جائے کہ کوئی رکاوٹ نہیں رہے۔ شاید یہاں تک بھی زیادہ دشواری نہیں تھی لیکن دشواری تب کھڑی ہو جاتی ہے جب شہروں کے دائرے بڑھتے گئے اور مقامی لوگوں کی آبادیاں اندرونی علاقوں تک سمٹتی چلی گئیں۔ کھیتوں کو ضبط کیا جانے لگا اور نئے نئے اسکائی اسکریپر تیار ہوتے گئے۔ کھیتی کا سمٹنا اور حکومتوں کی پالیسی کسانوں کو خود کشی پر مجبور کرنے لگی۔ ایسے میں مقامی لوگ دوسری ریاستوں کی طرف بھاگتے رہے۔ بے کاری، بے روزگاری سے جوجھتے دیہی علاقوں کے عمردراز لوگوں اور بچوں کو بھوک اور بدحالی کا سامنا ہے۔ ایک تو سینچائی کا کوئی انتظام نہیں، دوسرے محنت و مشقت سے پیدا کی گئی فصلوں کی کم از کم قیمت وصول نہیں۔ یہ بات عام لوگوں کے سمجھ سے بالاتر ہے جو فصلیں اور سبزیاں کوڑے کے مول بک رہی تھیں اور ان کو پیدا کرنے والا کسان سڑکوں پر اترنے پر مجبور ہو گیا تھا، اچانک ہفتہ دس دن کے بعد ان کی قیمتیں آسمان کو کیوں چھونے لگیں؟

نہ دستکاری پر ان کا قبضہ ہے، نہ معدنیات، جنگل، پہاڑ اور ندیاں ان کی ملکیت رہ گئی ہیں۔ دیہی بازاروں اور بھٹیوں پر بڑے تاجروں کا قبضہ ہے۔ مقامی پیداواروں کی قیمتیں وہ طے کرتے ہیں۔ اپنی طے شدہ قیمتوں پر ان کی پیداواروں کو شہروں کے بازاروں میں لے جایا جاتا ہے جہاں من مانی قیمتوں پر انھیں بیچا جاتا ہے۔ حکومتیں خوبصورت اور لبھاؤنے اعلانات کرتی رہی اور ہر منصوبہ عام آدمی کے گلے کی ہڈی بن جاتا ہے۔ یہ ایک ساجھا درد ہے جو سب جھیل رہے ہیں۔ اجڑی ہوئی جھونپڑ پٹیاں اور فٹ پاتھ پر لگنے والی دکانیں جو اجاڑی گئیں ان میں ہندو بھی تھے، مسلمان بھی، عیسائی بھی تھے اور دلت پسماندہ بھی تھے۔ ان کی ایک ہی ذات تھی، ایک ہی برادری تھی، ایک ہی مذہب تھا، وہ سب کے سب غریب تھے۔ بے گھر اور بے روزگار ان غریبوں کو اگر بانٹا نہ جاتا تو شاید ان کے اندر سلگ رہی آگ سب کو جلا کر رکھ دیتی۔ اس لیے انھیں بانٹنا ضروری تھا۔ آدی واسی اور غیر آدی واسی کے نام پر، گئو کشی کے نام پر، دلت اور اونچی ذاتوں کے نام پر خوف و دہشت کا ایک ایسا ماحول تیار کرنا ضروری تھا جس میں کسی کو احتجاج کا حوصلہ ہو اور نہ ہمت۔ ماحول زیادہ کشیدہ ہونے لگیں جو شہروں کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی تو پھر کچھ پرتصنع نعرے دیجیے ماحول کو قابو کیجیے۔

حکومتیں یہ نہیں سوچتیں کہ ریاست کے نوجوان انتہاپسندی یا دہشت گردی کے ہاتھوں کا کھلونا بنتے جا رہے ہیں تو آخر کیوں؟ یہ کہاں سے آئے ہیں؟ ان کو اسلحے اور مالی امداد کہاں سے ملتے ہیں؟ ان میں آپسی مڈبھیڑ کیوں ہوتی ہے؟ سرکار ان کو قابو میں کرنے کے لیے جتنا خرچ کرتی ہے اتنا اگر ان کے علاقوں کی بازآبادکاری پر خرچ کرتی تو شاید اس مسئلہ کو سنبھالا جا سکتا تھا۔ مگر مستقبل قریب میں ان مسائل کا حل نکلتا نظر نہیں آتا کیونکہ ہم ایک ایسے سرنگ کے دہانے تک پہنچا دیے گئے ہیں جس کا دوسرا دہانہ نظر ہی نہیں آ رہا۔

  • (مصنف رانچی یونیورسٹی کے ریٹائرڈ اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Aug 2017, 6:51 PM