گلزار دہلوی کی پہلی برسی پر خاص، ڈھونڈوگے کوئی دن کے کہاں ہیں ہم لوگ... معین شاداب

گلزارؔ دہلوی اپنے طرز کے واحد انسان تھے۔ بدلتی اقدار کے اس عہد میں اب کوئی دوسرا گلزار دہلوی پیدا ہونے سے رہا۔ وہ اپنا پورا نام ڈاکٹر پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی نظامی لکھا کرتے تھے

گلزار دہلوی، تصویر آئی اے این ایس
گلزار دہلوی، تصویر آئی اے این ایس
user

معین شاداب

کورونا کی وبا اور اس کے مضمرات و عواقب نے انسانی زندگی کا رنگ روپ بدل کر رکھ دیا ہے ۔سماجی ہنگاموں اورادبی سرگرمیوں میں تعطل پیدا ہو ا ہے اور لوگ گھروں میں مقید ہوکر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں گلزار دہلوی جیسے باغ وبہارشخص کے چلے جانے کے اجتماعی احساس کااظہار وقتی طور پر بھلے کم ہوگیاہو لیکن جیسے ہی ادبی،ثقافتی اور سماجی سرگرمیاں بحال ہوں گی تو ان کی کمی شدّت سے ستائے گی۔ شیروانی میں ملبوس مخصوص کردار واطوار والایہ گوراچٹّا شخصاب کبھی محفلوں میں نظر نہیں آئے گا۔ شیروانی میں سرخ گلاب، جیب میں چین والی روایتی گھڑی اور خوب صورت سا قلم، لبوں پر دیدہ زیب تبسم... اپنی مثال آپ یہ شخصیت اب باصرہ نواز نہیں ہوگی۔

گلزار دہلوی اپنے طرز کے واحد انسان تھے۔ وہ اردو زبان و تہذیب کے نمائندہ شاعر اور دہلوی تہذیب کی مثال تھے۔بدلتی اقدار کے اس عہد میں اب کوئی دوسرا گلزار دہلوی پیدا ہونے سے رہا۔وہ اپنا پورا نام ڈاکٹر پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی نظامی لکھا کرتے تھے، کبھی کبھی نام کے آگے صوفی بھی لگالیتے تھے۔مجاہد اردو،سراج اردو، پرستار اردو،شاعر قوم، گلزار خسرو، بلبل دلّی وغیرہ ان کے خطابات تھے۔اب آپ ان کے نام اوران کے القابات سے ان کی شخصیت کی ہمہ جہتی اور ہمہ رخی کا اندازہ کرتے رہئے۔ گلزار دہلوی ملاوٹ سے پاک اصل اردو والے تھے۔ اردو کے سچّے عاشق تھے،خود کو اردو والا کہلانے پرناز کرتے تھے۔زندگی بھر اردو کی تبلیغ کرتے رہے اور اس کا مقدمہ لڑتے رہے۔ اردو کو اس کا جائز حق دلانے کے لئےانھوں نے آخری دمتک مجاہدہ کیا۔ہمیشہ اردو کے حق و حمایت میں محضر نامے اپنے ساتھ لیے گھومتےپھرے۔ اردو کے نام پر بعض مدارس کی مالی امداد بھی کیا کرتے تھے۔سیکولرزم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں اعتقاد ان کی دوسری بڑی خوبی تھے۔ عمر بھر گنگا جمنی اورمشترکہ تہذیب کا تحفظ کیا، رواداری کو فروغ دیا۔اس کے عوض فرقہ پرستوں سے گالیاں بھی کھائیں ،اور دود و ہاتھ بھی کئے۔


قومی اتحاد، فرقہ وارانہ ہم آہنگی،مذہبی رواداری کو انھوں نے اپنی ذات وحیات کا منشور بنا لیاتھا۔ ایک طرف وہ رام لیلا کمیٹی میں شامل تھے تو دوسری طرف درگاہ حضرت نظام الدین کے عرس کی تقریبات میں شریک ہوتے اور انتظام وانصرام میں ہاتھ بٹاتے، عیسائیوں کے تہواروں اور جشن میں شامل ہوتے، سکھوں کی رسومات کا حصہ بنتے۔گویا تمام مذاہب کا احترام ان کی ادائے خاص تھی۔زندگی بھرمسلمانوں کے درمیان رہے۔مولویوں سے ایسے روابط کہ کوئی دوسری مثال لانا مشکل ہے۔دوران گفتگو قران وحدیث کے حوالے دیتے۔ جب تک کسی کوگلزار دہلوی کا پورا نام معلوم نہ ہو تاتو وہ انھیں مسلمان ہی سمجھتا رہتا تھا۔ مختلف مکاتب فکر کے علماءسے گہرا تعلق رہا،خاص طور سے علمائے دیوبند کے بہت نزدیک رہے۔دارالعلوم کی اہم ترین تقاریب میں شرکت کی دعوت پاتے۔مولانا حسین احمد مدنی،عبیداللہ سندھی،مولوی کفایت اللہ، مولوی عبدالسلام نیازی ، خواجہ حسن نظامی، خواجہ عبدالمجید، احمد سعید دہلوی، مولانا حفظ الرحمٰن، مولوی سید ہاشمی، علامہ اخلاق دہلوی،مولوی سمیع اللہسے گہرے مراسم رہے۔ محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین کے تو ایسے عقیدت مند تھے کہ نظامی ہو گئے۔محبوب الٰہی کے عرس کے موقع پر درگاہ میںہی قیام کرتے۔ عرس کی تقاریب کی نظامت کرتے ۔جب تک جیے روزہ رواداری رکھ کر فرقہ وارانہ محبت کو فروغ دیا۔ سکھوں اورعیسائیوں کے مذہبی اور روحانی پیشواؤں سے بھی خاص روابط رہے۔

گلزار دہلوی میں جان محفل بننے کی تمام تر صلاحیتیں تھیں۔ وہ جہا ںہوتے دور سے نظر آتے، جس محفل میں ہوتے محفل ان کی ہوجاتی۔ وہ محض اپنی سج دھج کی وجہ سے بزم کی شان نہیں ہوتے، بلکہ ان کی گوناں گوں صلاحیتوں کااس میں بڑا دخل تھا۔ انھیں مجمع سازی کا ہنر آتا تھا۔ کمال کی معلومات اورغضب کی یاد داشت رکھنے والے گلزار دہلوی بلا کے مقررتھے، بولتے تو لگتا جیسے گل افشانی کر رہے ہوں۔زبان وبیان کا ایسا شعور، ایسی صحت الفاط، تلفظ کی وہ درستی کہ کوئی ان کو غور سے سن لے تو بولنا سیکھ جائے۔ زبان وبیان کے معاملے میں شدت پسندی کی حد تک حساس تھے۔کوئی غلط اردو بولتا توبے خوف ہوکر ٹوک دیتے تھے۔


گلزاردہلوی کے پورے وجودسے پرانی دلّی کی تہذیب مترشح ہوتی۔ رہن سہن،وضع قطع، ہاؤ بھاؤ، بولی سب کچھ ’بزبان دلّی‘ تھا ۔

شعری ذوق گلزار دہلوی کے خمیر میں شامل تھا۔ان کا تعلق دلّی کے کشمیر النسل برہمنوں اور عالموں کے خاندان سے تھا جس کا صدیوں سے اپنی علمی صلاحیتوں،ادبی ذوق وشوق اور ذہانت وذکاوت کے سبب شہرہ تھا۔ان کے آبا واجداد میں سنسکرت، عربی، فارسی اور انگریزی کے معلم اور مصنف خاطر خواہ تعداد میں تھے۔ددھیال وننیہال دونوں طرف شعرا ادبا تھے۔ماموں پنڈت گردھاری لعل کول صاحب دیوان شاعر تھے۔والد پنڈت تربھون ناتھ زتشی زار دہلوی ،داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔والدہ برج رانی زتشی کو بھی شعری شغف تھا جو بیزاردہلوی تخلص کرتی تھیں۔بھائی رتن سوہن ناتھ زتشی خار دہلوی بھی شاعر تھے۔گویا اطراف وجوانب میں سخن ور ہی سخن ور تھے۔خاندان کے اور بھی لوگ دیگر علوم وفنون میں مہارت رکھتے تھے۔گلزار دہلوی نے مختلف رنگ وآہنگ کے شعرا سے اکتساب ہنر کرکے اپنے فن کو رنگا رنگ کیا۔ ان کی پہلی استاذ توایک طرح سے ان کی والدہ ہی تھیں۔ گلستاں، بوستاں، انوار سہیلی، اخلاق محسنی جیسی اہم اساسی کتابیں انھیں والدہ نے ہی پڑھائیں۔ والد محترم زار دہلوی سے بھی اکتساب فن کیا۔زار دہلوی کو ان کے شعری ذوق کا اندازہ ہوا تو ان کی تربیت کی۔ زار دہلوی انھیں اپنے ساتھ پنڈت امر ناتھ ساحر کے یہاں لے جانے لگے۔ پنڈت امر ناتھ ساحر سے گلزار دہلوی نے تصوف اور ویدانت کے فلسفے کی باریکیاں سمجھیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق اردو سے عشق کا سبق پڑھااورمشترکہ تہذیب کا درس لیا۔ پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی سے زبان وبیان کے رموز ونکات اور انقلابی و قومی نظمیں لکھنا سیکھا۔ نواب سراج الدین احمد خاںسائلسے اسلامی تصوف اور دینیات کی آگہی کے ساتھ ساتھ دلّی کے شعری تہذیب وتمدّن کا انجذاب کیا۔گلزار دہلوی انھیں کی صحبت میں غزل کی طرف آئے۔

گلزار دہلوی نے اپنے علم وفن سے پنڈت جواہر لعل نہرو اور مولانا ابولکلام آزاد سمیت کئی اہم سیاسی مدبرین اور سر بر آوردہ لوگوں کے دل میں جگہ بنائی۔جوش،فیض،ماہرالقادری سمیت مختلف جید شخصیات نے مختلف مواقع پر ان کی خوبیوں کا اعتراف کیا اور انھیں خراج تحسین پیش کیا۔گلزار دہلوی نے پوری دنیا میں ادبی تقاریب اور مشاعروں میں دھوم مچائی۔وہ اردو کے برانڈ ایمبیسڈر بن گئے تھے۔اپنےمخصوص اور ڈرامائی انداز کی وجہ سے مجمع پر چھا جاتے اورسامعین کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔قومی وطنی اور دیگر موضوعاتی نظموں کے علاوہ غزلیہ اشعار سے بھی ہنگامہ برپا کر دیتے تھے۔ نظامت میں بھی مہارت حاصل تھی۔


گلزار دہلوی کسی محفل میں اپنے تئیں ارباب اہتمام کی توجہ میں کمی پاتے تو خفا ہوجاتے، معاوضے کو لے کر منتظمین سے ناراض بھی ہوجاتے۔ لیکن یہ غصہ ان پر سجتا تھا یہ خفگی انھیں زیب دیتی تھی کہ اپنی بے شمارخدمات اور گوناں گوں خوبیوں کے سبب ان کا یہ حق بنتا تھا۔

گلزار دہلوی آخری دم تک فعال رہے۔95برس کی عمر میں بھی دل کو جوان رکھا۔عمر کے آخری برس تک مشاعروں میں شرکت کرتے رہے۔کوئی پچیس برس قبل پرانی دلّی کے سیتا رام بازارکو خیر باد کہہ کر نوئیڈامیں آبسے تھے۔اینٹ اور کنکریٹ کے اس صنعتی شہر کو بھی انھوں نے ادبی دھڑکنیں عطا کر دی تھیں۔اپنی رہائش گاہ پر پابندی کے ساتھ محفلیں آراستہ کرتے، شرکا کی ضیافت کرتے۔آخری ایام میں ان کے فرزند انھیں اپنے ساتھ پونے لے جانا چاہتے تھے۔ ان کے بچے یہ نہیں چاہتے تھے کہ عمر کے اس مرحلے میں ان کے معمر والدین اکیلے نوئیڈا میں رہیں۔حالانکہ خود گلزار صاحب کا دل دلّی میں ہی اٹکا ہوا تھا،لیکن ضعیف العمری کے باعث وہ بچوں کے فیصلے کے پابند تھے اور پونے منتقل ہونا ان کی مجبوری بن گئی تھی ۔ نوئیڈا والے مکان کا سودا بھی ہو گیا تھا،بستر بھی بندھ چکا تھا لیکن اس دوران کورونا کے سبب ملک گیر لاک ڈاؤن ہو گیاسو پونے کے لئے روانگی ملتوی ہوگئی۔ اسی اثنا میں گلزار صاحب کووڈ سے متاثر ہوئے اور بازیا ب بھی ہوگئے، لیکن کچھ ہی روز بعد12جون 2020 کو حرکت قلب بند ہونے سے ان کاانتقال ہوگیا۔اور دلی کے خمیر سے اٹھنے والا،دلّی سے بے پناہ عشق کرنے والا دہلوی تہذیب کا یہ نمائندہ اسی خاک میں آسودہ ہوگیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 07 Jun 2021, 10:11 AM