جہاد کاقرآنی فلسفہ ... سرسیداحمدخاں

سر سید احمد خاں

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

(وقاتلوا فی سبیل اللہ) اس آیت میں اور جو آیتیں اس کے بعد ہیں ان میں کافروں یا دشمنوں سے لڑنے کا حکم ہے مگر صاف بیان کیا گیا ہے کہ جو تم سے لڑیں ان سے لڑو اور زیادتی مت کرو۔

اکثر لوگ مذہب اسلام پر طعنہ دیتے ہیں کہ اس میں تحمل،بردباری ،عاجزی اورمذہب کے سبب سے جو تکلیفیں کافروں کی طرف سے پہنچیں ان کی صبر سے برداشت نہیں ہے اور یہ باتیں مذہب کی سچائی، نیکی ،اخلاق اور خدا کی راہ میں تکالیف برداشت کرنے کے برخلاف ہیں۔

مگر یہ ایک بڑی غلطی اورناسمجھی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ قرآن مجید میں جو احکام لڑائی کے تھے نہایت نیکی اور انصاف پر مبنی تھے ان کو مسلمانوں نے دین داری کے بہانے سے اپنی خواہش نفسانی کے پورا کرنے اور ملک گیری کے لیے نہایت بداخلاقی اورناانصافی سے برتا اور وحشی درندوں سے بھی بدتر کام کیے اور علمائے اسلام نے ان کی تائید کے لیے ایسے مسئلے بیان کیے جو اسلام کی روحانی نیکی کے برخلاف تھے۔ مگر ان کے ایسا کرنے سے جو برائی یا عیب قرار دیا جائے وہ انہی پرمحدود ہے جنھوں نے ایسا کیا، نہ کہ اسلام پر۔ ہر ایک منصف مزاج کا اور ہر ایک معترض اور نکتہ چیں کا یہ فرض ہے کہ ان ظالموں کے کردار کو انھی پر محدود رکھے، نہ کہ ان کے کردار سے مذہب اسلام پر نکتہ چینی کرے۔

مذہب اسلام میں اگرچہ جابجا صبر و تحمل کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں اور لوگوں کو اس پر رغبت دلائی گئی ہے۔ مگر اسی کے ساتھ بغیر زیادتی کیئے بدلالینے کی بھی اجازت دی ہے۔ کیا یہ قانون دنیا کے پیدا کرنے والے کے قانون قدرت کے مناسب نہیں ہے اورکیا اس قانون سے زیادہ عمدہ اور سچا کوئی قانون ہوسکتا ہے۔ انسان جب اخلاق کی باتوں پر گفتگو کرتا ہے تو بہت سی ایسی باتیں اور ایسے اصول بیان کرتاہے جو کان کو اور دل کو نہایت بھلے معلوم ہوتے ہیں اور سننے و پڑھنے والے خیال کرتے ہیں کہ یہی اصول اخلاق کے اور یہی اصول اعلیٰ درجہ کی نیکی کے ہیں۔ مگر درحقیقت وہ ہوا کی آواز سے زیادہ کچھ رتبہ نہیں رکھتے اورجو کہ وہ اصول فطرت انسانی کے بلکہ قانون قدرت کے برخلاف ہوتے ہیں کبھی ان پر عملدرآمد نہیں ہوسکتا۔

کوئی کتاب دنیا میں انجیل سے زیادہ انسان کو نرم مزاج،بردبار،متحمل کرنے والی اور اخلاق کو ایسی چمک سے دکھلانے جس سے آنکھوں میں چکاچوند آجاوے نہیں ہے۔ گو اس کے مقالے ایسے نہیں ہیں کہ سب سے پہلے اسی میں بیان کیے گئے ہوں۔ بلکہ بہت سے ایسے ہیں جو اس سے پہلے لوگوں نے بھی جن کے پیرو اب بت پرست اورکافر گنے جاتے ہیں بیان کیے ہیں۔مگر ہم کو دیکھنا چاہئے کہ ان کا لوگوں میں کیا اثر ہوا ہے۔

انجیل میں لکھا ہے کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا گال بھی اس کے سامنے کردے۔ بلاشبہ یہ مسئلہ اخلا ق کے خیال سے تو بڑا عمدہ معلوم ہوتا ہے مگر کیا کسی زمانہ کے لوگوں نے اس پر عمل کیا ہے۔اگردنیا اس پر عمل کرے تو دنیا کا کیا حال ہو۔ اسی طرح آباد رہے اور اسی طرح لوگوں کی جان و مال امن میں رہے۔ نہایت دلچسپ جواب دیا جاتا ہے کہ جب سب ایسے ہی ہوجائیں تو دنیا سے شر اٹھ جائے۔ مگر پوچھا جاتا ہے کہ کبھی ایسا ہوا ہے یا کبھی ہوگا۔ یہ سب ناشدنی باتیں ہیں جو خیال میں شدنی قرار دے کر انسان خیالی اور جھوٹی خوشی حاصل کرتا ہے۔ انجیل میں لکھا ہے کہ ’’تو اپنے کل کے کھانے کی فکر مت کر خدا کل کی روزی پہنچانے کی فکر کرنے والا ہے۔‘‘ دل کو یہ مقولہ نہایت ہی پیارااور اس پیارے خدا پر اعتماد لانے والامعلوم ہوتا ہے۔مگر کبھی کسی نے اس پر عمل کیا ہے؟یاآئندہ کبھی اس پر عمل ہوگا اگر ہم اس ناشدنی امر کو ایک لمحہ کے لیے شدنی تصور کرکے تمام دنیا کے لوگوں کواسی مقولہ پر عمل کرتا ہوا سمجھ لیں، تودنیا کا کیا حال ہوگا۔ پس اس قسم کی تمام باتیں انسان کو دھوکہ دینے والی ہیں اور قانون قدرت کے برخلاف ہونے سے خود اپنی سچائی کو مشتبہ کرتی ہیں۔

عیسائی مذہب جس کی جڑ ایسی نیکی اورنرمی اور اخلاق میں لگائی گئی تھیں وہ پھولا پھلا اور سرسبز و شاداب ہوا۔ اس کو چھوڑ دو کہ وہ کس سبب سے بڑھا اور سرسبز ہوا۔ مگر دیکھو کہ اس نے کیا پھل پیدا کیا۔ ایک بھی نصیحت اس کے کام نہ آئی اور خود مذہب نے خون ریزی اور بے رحمی اور ناانصافی اور درندوں سے بھی زیادہ بدترخصلت دکھلائی۔ وہ شاید دنیا میں بے مثل ہوگی اور جس نیکی میں اس کی جڑ لگائی گئی تھی اس نے کچھ پھل نہ دیا کیوں کہ قانون قدرت کے برخلاف لگائی گئی تھی۔ جو خوبی کیا روحانی کیا اخلاقی اورکیا تمدنی اب ہم بعض عیسائی ملکوں میں دیکھتے ہیں۔کیا یہ پھل اسی درخت کا ہے جس کی جڑ ایسی نیکی میں لگائی گئی تھی جو خلاف قانون قدرت تھی؟ حاشا و کلا۔ بلکہ یہ اس کا پھل ہے جو قانون قدرت کی زمین ہے اور جس قدر کہ پہلی زمین کی مٹی اس کی جڑ میں لگی ہوئی ہے اسی قدر اس میں نقصان ہے۔



جہاد کاقرآنی فلسفہ ... سرسیداحمدخاں

اس سے بھی زیادہ رحیم مذہب کا حال سنو جس نے ایک چھوٹے سے چھوٹے جانور کی جان کو بھی مارنا سخت گناہ قرار دیا ہے۔ خدا کی صنعت کو ضائع کرنا سمجھا ہے مگر تاریخ اور زمانہ موجود ہے۔ اس اصول نے جو قانون قدرت کے مخالف تھا کیا نتیجہ دیا۔ قتل و خون ریزی ویسی ہی رہی اورویسی ہی ہے جیسی قانون قدرت سے ہونی چاہیے۔ وہی جو اپنے ہاتھ کا مارنا گناہ عظیم سمجھتے تھے۔ ہزاروں آدمیوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کرتے تھے اور قتل کرتے ہیں۔ پس کوئی قانون گو وہ ظاہر میں کیسا ہی چمکیلا اور خوش آئند ہو جب کہ قانون قدرت کے برخلاف ہے محض نکما اور بے اثر ہے۔ اسلام میں جو خوبی ہے وہ یہی ہے کہ اس کے تمام قانون قانون قدرت کے مطابق اور عمل درآمد کے لائق ہیں۔ رحم کی جگہ جہاں تک کہ قانون قدرت اجازت دیتا ہے رحم ہے۔ معافی کی جگہ اسی کے اصول پر معافی ہے بدلے کی جگہ اسی کے مطابق بدلا ہے۔ لڑائی کی جگہ اسی کے اصولوں پر لڑائی ہے۔ ملاپ کی جگہ اسی کی بناءپر ملاپ ہے اوریہی بڑی دلیل اس کی سچائی کی اور قانون قدرت کے بنانے والے کی طرف سے ہونے کی ہے۔

اسلام فساد اور دغا اورغدر وبغاوت کی اجازت نہیں دیتا۔جس نے ان کو امن دیا ہو۔ مسلمان ہو یا کافر اس کی اطاعت اور احسان مندی کی ہدایت کرتا ہے۔ کافروں کے ساتھ جو عہد و اقرار ہوئے ہوں ان کو نہایت ایمان داری سے پورا کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ خود کسی پر ملک گیری اورفتوحات حاصل کرنے کو فوج کشی اور خوں ریزی کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی قوم یا ملک کو اس غرض سے کہ اس میں بالجبر اسلام پھیلایا جاوے حملہ کرکے مغلوب و مجبور کرنا پسند نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ کسی ایک شخص کو بھی اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا نہیں چاہتا صرف دو صورتوں میں اس نے تلوار پکڑنے کی اجازت دی ہے ایک اس حالت میں جب کہ کافر اسلام کی عداوت سے اور اسلام کے معدوم کرنے کی غرض سے نہ کہ کسی ملکی اغراض سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوں۔ کیوں کہ ملکی اغراض سے جو لڑائیاں واقع ہوں خواہ مسلمان مسلمانوں میں خواہ مسلمان و کافروں میں وہ دنیاوی بات ہے مذہب سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ دوسرے جبکہ اس ملک یا قوم میں مسلمانوں کو اس وجہ سے کہ وہ مسلمان ہیں ان کے جان و مال کو امن نہ ملے اور فرائض مذہبی کے ادا کرنے کی اجازت نہ ہو۔ مگر اس حالت میں بھی اسلام نے کیا عمدہ طریقہ ایمان داری کابتایا ہے کہ جو لوگ اس ملک میں جہاں بطور رعیت کے رہتے ہوں۔ یا امن کاعلانیہ یا ضمناً اقرار کیا ہو اور گو صرف بوجہ اسلام ان پرظلم ہوتا ہو تو بھی ان کو تلوار پکڑنے کی اجازت نہیں دی۔ یا اس ظلم کو سہیں یا ہجرت کریں۔ یعنی اس ملک کو چھوڑ کرچلے جاویں ہاں جو لوگ خودمختار ہیں اور اس ملک میں امن لیے ہوئے یا بطور رعیت کے نہیں ہیں بلکہ دوسرے ملک کے باشندے ہیں۔ ان کو ان مظلوم مسلمانوں کے بچانے کو جن پر صرف اسلام کی وجہ سے ظلم ہوتا ہے یا ان کے لیے امن اور ان کے لیے ادائے فرض مذہبی کی آزادی حاصل کرنے کو تلوار پکڑنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن جس وقت کوئی ملکی یا دنیوی غرض اس لڑائی کاباعث ہو اس کو مذہب اسلام کی طرف نسبت کرنے کی کسی طرح اسلام اجازت نہیں دیتا۔

یہی بات ہے جس پر اسلام نے تلوا رپکڑنے کی اجازت دی ہے۔ یہی لڑائی ہے جس کے کرنے کی ترغیب دی ہے۔ یہی لڑائی ہے جس کا نام جہاد رکھا ہے۔ یہی لڑائی ہے جس کے مقتولوں کو روحانی ثواب کا وعدہ دیا ہے۔ یہی لڑائی ہے جس کے لڑنے والوں کی فضیلتیں بیان ہوئی ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ لڑائی اخلاق کے برخلاف ہے، کون کہہ سکتا ہے کہ یہ لڑائی قانون قدرت انسان کی فطرت کے مخالف ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس لڑائی کا حکم خدا کی مرضی کے برخلاف ہے کون کہہ سکتا ہے کہ اس حالت میں بھی لڑائی کا حکم نہ ہونا بلکہ دوسرا گال پھیردینا خدا کی مرضی کے مطابق ہوگا۔

لڑائی شروع ہونے کے بعد تلوار ہر ایک کی دوست ہوتی ہے۔اس میں بجز اس کے کہ دشمنوں کوقتل کرو، لڑائی میں بہادر ی کرو، دل کومضبوط رکھو میدان میں ثابت قدم رہو، فتح کرو یا مارے جاؤ اورکچھ نہیں کہاجاتا یہی قرآن نے بھی کہا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کوئی شخص اس موقع اورمحل کو جس کی نسبت قرآن میں لڑنے والوں کے دلوں کو مضبوط کرنے کی آیتیں نازل ہوئی ہیں چھوڑ کران آیتوں کو عموماً خونخواری اور خون ریزی پر منسوب کرے۔ جیسا کہ اکثر نادان عیسائیوں نے کیا ہے تو یہ خود اس کاقصورہوگا نہ کہ اسلام کا۔

لڑائی میں بھی جو رحم قانون قدرت کے موافق ضرور ہے اسلام نے اس میں بھی فروگذاشت نہیں کیا عورتوں کو، بچوں کو، بوڑھوں کو جولڑائی میں شریک نہ ہوئے ہوں ان کو قتل کرنے کی ممانعت کی۔ عین لڑائی میں اور صف جنگ میں جو مغلوب ہوجاوے اس کے قتل کی اجازت نہیں دی۔ صلح کو معاہدہ امن کو، قبول کرنے کی رغبت دلائی۔ باغ کو، کھیتوں کو جلانے کی ممانعت کی قیدیوں کو احسان رکھ کر یا فدیہ لے کر چھوڑدینے کا حکم دیا۔ نہایت ظالمانہ طریقہ جو لڑائی کے قیدیوں کو عورت ہوں یا مرد غلام اورلونڈی بنالینے کا تھا اس کو معدوم کیا۔ اس سے زیادہ لڑائی کی حالت میں انصاف اوررحم کیا ہوسکتا ہے ہاں یہ سچ ہے کہ مسلمانوں نے اس میں سے کسی کی بھی پوری تعمیل نہیں کی۔ بلکہ برخلاف اس کے بے انتہا ظلم و ستم کیے ۔ مگر جب کہ وہ اسلام کے حکم کے برخلاف تھے تو اسلام کو اس سے داغ نہیں لگ سکتا۔ وہ بھی تو مسلمانوں ہی میں سے تھے جنھوں نے عمرؓ کو، عثمانؓ کو، علیؓ کو، حسینؓ کو ذبح کرڈالا تھا۔ کعبہ کو جلایا تھا۔ پس ان کے کردار سے اسلام کا کیا تعلق ہے۔

مشرکین مکہ نے ان لوگوں پر جو مسلمان ہوگئے تھے صرف اسلام کی عداوت سے اورخود رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت سے ظلم کیے تھے اور تکلیفیں پہنچائی تھیں قتل کے درپے تھے۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ مسلمانوں نے حبشہ میں جاکر پناہ لی اور آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور سب مسلمان مکہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے آئے پھرانھوں نے وہاں بھی تعاقب کرنا چاہا اورمکہ میں حج کے آنے سے روکا لڑائی پر آمادہ ہوئے۔ تب اسلام نے بھی ان سے لڑنے کاحکم دیا۔ پس جس قدر احکام قتل مشرکین کے ہیں وہ سب انہی لڑنے والوں سے متعلق ہیں وہ بھی اسی وقت تک کہ فتنہ و فساد رفع ہوجائے جیسے خود خدا نے فرمایا کہ ’’وقاتلو واھم حتیٰ لاتکون فتنۃ ویکون الدین للہ‘‘ امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ مشرکین کافتنہ یہ تھا کہ وہ مکہ میں مسلمانوں کو مارتے تھے اور ایذا دیتے تھے۔ تنگ ہو کر مسلمان حبشہ کو چلے گئے۔ پھر بھی وہ برابر ایذا اورتکلیف دیتے رہے۔ یہاں تک مسلمان مدینہ میں ہجرت کرگئے اورمشرکین کی غرض ایذاؤں اورتکلیفوں سے یہ تھی کہ مسلمان اپنا اسلام چھوڑکر پھر کافر ہوجائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کے معنی یہ ہیں کہ کافرورں سے لڑو جب تک کہ ان پر غالب ہوجاؤ تاکہ وہ تم کو تمہارے دین سے پھیرنے کے لیے ایذا نہ دے سکیں اور تم شرک میں نہ پڑو۔

’’یکون الدین للہ‘‘ کا فقرہ بھی انہی آیتوں کے ساتھ ہے جو مشرکین عرب کے حملہ کے رفع کرنے کی بابت نازل ہوئی ہیں۔ اس کے یہ معنی سمجھنے کہ اتنا لڑنا چاہیے کہ اسلام کے سوا کوئی دین نہ رہے یہ تومحض نادانی کی بات ہے جو سلف سے آج تک نہ کبھی ہوئی نہ ہونے کی توقع ہوسکتی ہے۔ اس کے معنی صاف صاف یہ ہیں کہ اس قدر لڑنا چاہیے کہ اللہ کے دین کے بجالانے میں جو کافر حرج ڈالتے ہیں وہ نہ رہے اور اللہ کے لیے دین ہوجاوے کہ مسلمان خدا کے لیے اس کو بے ایذا کے بجالاسکیں۔

  • بشکریہ : راحت ابرار، سابق پی آر او اے ایم یو
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔