نئے ہندوستان میں زنا جیسا گھناؤنا جرم بھی مذہبی ہوگیا... اعظم شہاب

بی جے پی ممبر اسمبلی ٹھاکور راجا سنگھ لودھ نے 29 نومبر کو اس ضمن میں کیے گیے اپنے ٹوئٹ میں ایک ملزم کی گرفتاری کی خبر دی ہے، جس کا نام انہوں نے جلی حرفوں میں ’محمد‘ لکھا ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اعظم شہاب

حیدرآباد میں جانورں کی ڈاکٹر کے ساتھ کچھ انسانی جانوروں کے جانوروں جیسے سلوک نے گوکہ پورے ملک کو ہلا دیا، لیکن سوشل میڈیا پرکچھ لوگ اس معاملے کو بھی ہندو اور مسلمان کا رنگ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ پولس نے جن چار درندوں کو گرفتار کیا ہے، ان میں سے ایک مسلمانوں جیسے ناموں والا شخص بھی ہے۔ ٹوئٹر پر تو ریپ کی شکار مقتول خاتون کوانصاف دلانے کے نام پر #HangMohammedPasha, #JusticeForPriyankaReddy, #SecularismisaMentalDisorder جیسے کچھ ایسے ہیش ٹیگ تک چلائے جارہے ہیں، جن میں بین السطور مسلمانوں کو ریپسٹ قرار دیتے ہوئے اسے مسلمانوں کی ایک منصوبہ بند حرکت تک بتایا گیا۔ جبکہ کچھ لوگوں نے اپنے ٹوئٹ میں مسلم ملزم کے نام لکھتے ہوئے، اس کے ساتھ گرفتار ہوئے دیگر تین ملزمین کو پولس کی جانب سے کیس کو بیلنس کرنا قرار دیا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک اس معاملے میں جو چار لوگ گرفتار کیے گئے ہیں، ان میں ملزم صرف مسلمان ہے بقیہ تین لوگوں کو پولس نے جھوٹے طور پر گرفتار کیا ہے۔

نئے ہندوستان میں زنا جیسا گھناؤنا جرم بھی مذہبی ہوگیا... اعظم شہاب

مذکورہ بالا ہیش ٹیگس کے تحت جن قابلِ احترام شخصیات نے ٹوئٹر پر مظلومہ ومقتولہ کے لئے انصاف کا علم بلند کیا ہے، ان میں حیدرآباد کے گوشا محل اسمبلی حلقے سے ممبراسمبلی ٹھاکور راجا سنگھ لودھ المعروف ٹی راجا سنگھ بھی شامل ہیں۔ یہ وہی موصوف ہیں جنہوں نے اپنی دیش بھکتی کی بنا پر رواں سال جنوری میں ایم آئی ایم کے ممبران اسمبلی اور عارضی اسپیکر ممتاز احمد خان کی موجودگی میں حلف لینے تک سے انکار کردیا تھا۔ اس وقت اس کی جو وجہ انہوں نے بیان کی تھی وہ یہ تھی کہ ایم آئی ایم ہندوؤں کے خلاف بولتی ہے۔ ٹی راجا سنگھ کی دیش بھکتی کے قصوں سے پورا انٹرنیٹ بھرا پڑا ہے۔ جنہیں موصوف کے بارے میں مزید معلومات درکار ہوں، وہ گوگل سرچ انجن میں صرف ان کا نام ٹائپ کرکے انٹر کا بٹن دبا دیں، ان کا پورا کچا چٹھا سامنے آجائے گا۔ موصوف کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ٹوئٹر پران کے تین لاکھ سے زائد فالور ہیں۔ 29 نومبر کو اس ضمن میں کیے گیے اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے ایک ملزم کی گرفتاری کی خبر دی ہے، جس کا نام انہوں نے جلی حرفوں میں ’محمد‘ لکھا ہے۔ اسی تعلق سے انہوں نے ایک ویڈیو بھی ٹوئٹر پر اپلوڈ کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’ہمیں امید بھی تھی کہ اس معاملے میں ’محمد‘ جیسا شخص ہی ملوث ہوگا‘۔ جن صاحب کو یہ ویڈیو دیکھنی ہو، وہ ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاسکتے ہیں۔


ایک اور ’معزز شخصیت‘ ہیں سریش چوہان۔ یہ موصوف دیش کے سب سے بڑے ’دیش بھکت ٹی وی چینل‘ سدرشن چینل کے روحِ رواں ہیں۔ مذکورہ بالا ہیش ٹیگس کے تحت کیے گیے اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے صاف طور پر کہا ہے کہ ’حیدرآباد پولس نے ’محمد‘ کے بعد بیلنس کرنے کے لئے دو ہندووں کوجبراً پھنسایا ہے۔ کیا یہ اویسی کے دباؤ میں کیا گیا؟ میں اس کی جانچ کی مانگ کرتا ہوں۔ اس کا خدشہ کچھ دن پہلے میں نے علانیہ طور پر ظاہر کیا تھا‘۔ سریش چوہان کے نزدیک محمد پاشا کے علاوہ جو دیگر ملزمین گرفتار کیے گئے ہیں انہیں پولس نے جبراً پھنسایا ہے اور یہ اویسی کی ایماء پر ہوا ہے۔ ان کے علاوہ ایک اور بھاری بھرکم شخص ہیں امیت مالویہ، یہ موصوف بی جے پی آئی ٹی سیل کے روحِ رواں ہیں اور کوئی خبر یا پوسٹ کے وائرل کرنے کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ پھر چاہے وہ خبر یا پوسٹ ’فیک‘ ہی کیوں نہ ہو۔ یوں بھی یہ بات اب ملکی سطح پر تسلیم کی جانے لگی ہے کہ فیک نیوز یعنی کہ جھوٹی خبروں کو پھیلانے میں بی جے پی آئی ٹی سیل سب کا استاد ہے۔ #HangMohammedPasha نامی ہیش ٹیگ کے تحت یہ موصوف اس معاملے پر اظہارِ افسوس کرتے ہیں لیکن ملزمین کی فہرست میں وہ صرف ایک نام ’محمد پاشا‘ تحریر فرماتے ہیں۔ مذکورہ بالا افراد کے ضمن میں یہ بات محض اتفاق ہوگی کہ اناؤ کے کلدیپ سنگھ سینگر اور شاہجہاں پور کے سوامی چنمیانند کا تعلق بھی بی جے پی سے ہے۔

جن حضرات کے ٹوئٹ کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہ ایک مثال کے طور پر ہے۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ چاہے فیس بک ہو یا ٹوئٹر، چاہے یوٹیوب ہو یا واٹس ایپ کے گروپ یہاں تک کہ کچھ ویب سائٹ پر بھی محمد پاشا ہی چھایا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر سوراجیہ مگ swarajyamag.com نامی ویب سائٹ نے اس بارے میں پوری ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں اس نے محمد پاشا کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے ماسٹر مائنڈ قرار دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مبینہ دیش بھکتوں، سنسکاریوں اور عورتوں کی عزت کے رکھوالوں کی جانب سے جس طرح پاشا کے علاوہ دیگر ملزمین کی درپردہ حمایت کی جارہی ہے، کیا کسی مسلمان کی جانب کسی نے ایسی حرکت کی ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ پھر یہ دیش بھکت ریپ جیسے گھناؤنے، غیرانسانی اور درندوں کو مات دینے والی حرکت پر نوین، کیشول اور شیوا کونظر انداز کیوں کر رہے ہیں۔ دراصل ایسے لوگ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے عوام کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ریپ اور قتل جیسا قبیح عمل کوئی مسلمان ہی کرسکتا ہے۔ جبکہ یہ لوگ بھول جاتے ہیں جس دن حیدرآباد میں جانوروں کے ڈاکٹر کے ساتھ کچھ لوگ درندگی کررہے تھے، اسی دن جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں قانون کی طالبہ ایک آدیواسی لڑکی ساتھ درجن بھر لوگوں نے اجتماعی عصمت دری کی۔ پولس نے ان تمام درندوں کو گرفتار بھی کیا ہے ، جن میں سے ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔


اسی طرح 30نومبر کو تامل ناڈو کے کوئمبٹور میں اپنے دوستوں کے ساتھ ایک برتھ ڈے منارہی ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ ۶لوگوں نے اجتماعی عصمت دری کی۔ پولس نے انہیں بھی گرفتار کیا ہے،ان میں سے بھی کوئی مسلمان نہیں ہے۔ اسی 30نومبر کو ہی یوپی کے سمبھل میں ایک 16سالہ لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ کرکے اسے زندہ جلانے کی کوشش کی گئی، جس میں لڑکی 85فیصد جل چکی ہے۔ اس میں بھی کوئی مسلمان نہیں ہے۔اس طرح کے درجنوں کیسیس ہیں، جن میں ملزمین میں ایک بھی مسلمان نہیں ملتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گینگ ریپ اور قتل کے معاملات میں کسی مسلمان کا نام آنے سے کیا اس کی سنگینی کم یازیادہ ہوجائے گی؟ ظاہر ہے کہ نہیں ۔ پھر محمد پاشا کانام لے کر مسلمانوں کو ریپسٹ وقاتل ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس سوال کا جواب دیش کے ان ٹھیکداروں سے بھی ہے جو ملک میں ایسے ماحول کو پروان چڑھا رہے ہیں جو مسلمانوں سے منافرت کو فروغ دے رہا ہے اور جس کے نتیجے میں حیدرآباد عصمت دری وقتل کا معاملہ فرقہ وارانہ شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ تف ہے ایسی سوچ پر جو عصمت دری جیسے بھیانک جرم میں بھی مذہب تلاش کرلیتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Dec 2019, 9:11 PM