بہار: خواتین کے خلاف جرائم عروج پر اور این ڈی اے لیڈران چلا رہے’دعووں کی سائیکل‘

مظفر پور شیلٹر ہوم معاملے میں جیسے ہی وزیر منجو ورما کے شوہر کا نام آیا، جنتا دل یو اور بی جے پی لیڈران دعویٰ کرنے لگے کہ بہار میں لڑکیاں کتنی محفوظ ہیں اس کی مثال سائیکل سے اسکول جاتی لڑکیاں ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سرور احمد

بہار کے دیہی علاقوں میں سائیکل پر جاتی لڑکیاں شاید ان لڑکیوں سے زیادہ محفوظ ہیں، جنھیں نتیش حکومت کے ویمن ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے پیسے پر چل رہے این جی او کے شیلٹر ہوم میں رکھا جاتا ہے۔ آج (30 جولائی کو) ملک بھر کی خواتین بہار کے مظفر پور واقعہ کے خلاف مظاہرہ کر رہی ہیں۔ مظفر پور میں ’سیوا سنکلپ ایوم وِکاس سمیتی‘ نام کے ایک این جی او کے ذریعہ چلائے جا رہے لڑکیوں کے شیلٹر ہوم میں دل دہلا دینے والی خبریں سامنے آئی ہیں۔ یہاں رہنے والی لڑکیوں کے جنسی استحصال کے ساتھ ہی بھیانک ظلم دینے کے سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں۔ اور اب اسی قسم کی جانکاریاں بہار حکومت کی مدد سے چل رہے دوسرے شیلٹر ہوم کے بارے میں بھی سامنے آ رہی ہیں۔

حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ جیسے ہی اس معاملے میں بہار کی وزیر برائے سماجی فلاح منجو ورما کے شوہر چندیشور ورما کا نام آیا، برسراقتدار جنتا دل یو اور بی جے پی لیڈر اور حکومت کے وزیر دعویٰ کرنے لگے کہ بہار میں لڑکیاں کتنی محفوظ ہیں اس کی مثال سائیکل سے اسکول جاتی ہوئی لڑکیاں ہیں۔ منجو ورما کی وزارت کے تحت ہی ویمن ڈیولپمنٹ کارپوریشن کام کرتا ہے جو مظفر پور کے گرلس شیلٹر ہوم کو پیسہ دیتا ہے۔ حالانکہ منجو ورما نے الزامات سے انکار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر الزام صحیح ثابت ہوتے ہیں تو میں خود اپنے شوہر کو پھانسی پر لٹکا دوں گی اور استعفیٰ دے کر سیاست چھوڑ دوں گی۔‘‘

غور طلب ہے کہ منجو ورما کے شوہر پر الزام کسی اور نے نہیں بلکہ اس معاملے میں گرفتار اور گرلس شیلٹر ہوم میں کام کرنے والے ایک افسر کی بیوی نے ہی لگایا تھا کہ منجو ورما کے شوہر اکثر اس شیلٹر ہوم میں آتے تھے اور وہاں گھنٹوں گزارا کرتے تھے۔ اس معاملے میں منجو ورما کا انکار اور این ڈی اے لیڈروں کے دعوے ہو سکتا ہے کہ درست ہوں۔ یہ سچ ہے کہ وزیر اعلیٰ سائیکل منصوبہ سے اسکولی لڑکیوں کو فائدہ ملا ہے۔ لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ لڑکیاں گزشتہ کئی دہائیوں سے سائیکل پر اسکول جا رہی ہیں۔ ہاں، بس اتنا ضرور ہوا ہے کہ وزیر اعلیٰ سائیکل منصوبہ کے بعد ان کی تعداد ضرور بڑھی ہے۔ لیکن اصل ایشو یہ ہے کہ بہار میں نابالغ لڑکیاں کتنی محفوظ ہیں، خاص طور سے سرکاری مدد سے چلنے والے ان شیلٹر ہوم میں؟

ایک بات اور، این ڈی اے لیڈر بھول رہے ہیں کہ 90 کی دہائی میں لالو-رابڑی راج میں پٹنہ میں ہی ایک لڑکی آٹو رکشہ چلا کر اپنی فیملی کی زندگی چلاتی تھی کیونکہ اس کے والد بیمار تھے۔ ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے پٹنہ ایڈیشن نے اس لڑکی پر خبر بھی شائع کی تھی۔ اگر یہ پیمانہ ہے لڑکیوں کے تحفظ کا تو پھر این ڈی اے لیڈروں کو ان 15 سالوں کو جنگل راج کہنا بے معنی ہے۔

خاتون سیکورٹی کے مورچے پر نتیش حکومت بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے، لیکن میڈیا میں اسے کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ نتیش کی پہلی مدت کار 10-2005 کے دوران ایک شادی شدہ خاتون کو بے لباس کر کے پٹنہ کی ایگزبیشن روڈ پر گھمانے کا شرمناک واقعہ پیش آیا تھا۔ ’ہندوستان ٹائمز‘ کی خبر کے مطابق ایس ایس پی رہائش چند قدم دوری پر ہونے کے باوجود یہ خوفناک جرم کھلے عام کیا گیا تھا۔

4 جنوری 2011 کو ایک خاتون پرنسپل روپم پاٹھک کے ذریعہ پورنیہ کے بی جے پی ممبر اسمبلی کی چاقو گھونپ کر قتل سے بھی اصل تصویر سامنے آئی تھی۔ اس خاتون کا الزام تھا کہ اس کا جنسی استحصال کرنے سے بھی جب اس ممبر اسمبلی کا من نہیں بھرا تو اس نے اس کی نابالغ بچی پر نیت خراب کر دی تھی جس کے بعد اسے یہ قدم اٹھانا پڑا تھا۔ اس کے بعد بی جے پی ممبر اسمبلی کے حامیوں نے بھیڑ کی شکل میں روپم پر حملہ کر تقریباً اس کا قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن طویل علاج کے بعد آخر وہ بچ گئی تھیں۔ اس دوران بہار کے نائب وزیر اعلیٰ سشیل کمار مودی نے پورنیہ جا کر اس خاتون کے کردار پر سوال اٹھائے تھے۔

آج کے بہار میں خاتون سیکورٹی کی حالت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ 5 مہینوں کے دوران خواتین دو بار بھوک ہڑتال کر چکی ہیں۔ پہلی بھوک ہڑتال 72 گھنٹے کی تھی اور دوسری 48 گھنٹے کی۔ پہلی بھوک ہڑتال ’بہار مہیلا نیٹورک‘ کی طرف سے منعقد کیا گیا تھا، اور دوسرا ’ناگرک پہل‘ نام کی تنظیم کے ذریعہ۔ اس بھوک ہڑتال میں شامل ہونے والوں میں پدم شری سسٹر سدھا ورگیز بھی شامل تھیں۔ لیکن افسوس ہے کہ ان دو بھوک ہڑتال کے بعد بہار کے کئی علاقوں میں اجتماعی عصمت دری، خواتین کو بے لباس کرنے اور ان کا ویڈیو وائرل کرنے کے معاملے سامنے آئے۔

حقوق نسواں کی کارکن نیلو اور کنچن بالا کا ماننا ہے کہ بہار میں آج خواتین جتنا غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں، ایسی حالت پہلے کبھی نہیں رہی۔ جرائم پیشے اب کھلے عام جرائم کرتے ہیں اور ویڈیو وائرل کرتے ہیں۔ حیران کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ ابھی جب 24 جولائی کو ’ناگرک پہل‘ مظفر پور واقعہ کی مخالفت میں دو روزہ بھوک ہڑتال کے لیے اسٹیج بنا رہا تھا تو پولس نے انھیں روکنے کی کوشش کی۔ حالانکہ پولس سے نبرد آزما ہو کر انھوں نے گاندھی میدان میں اپنی بھوک ہڑتال جاری رکھی۔

نتیش حکومت بھی شروع میں جھجک رہی تھی لیکن آخر کار اسے اس معاملے کو سی بی آئی کے حوالے کرنا پڑا۔ پشپ راج جیسے سماجی کارکنان کو لگتا ہے کہ جانچ پڑتال میں بھی مظفر پور واقعہ کے اہم ملزم برجیش ٹھاکر کے خلاف کچھ نکلنے والا ہے کیونکہ اقتدار کے گلیاروں میں اس کی اچھی پہنچ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔