ایّا کونڈا: ہندوؤں کا گاؤں، جہاں ہر گھر کے سامنے قبر موجود

ان کی عقیدت کا یہ عالم ہے کہ گھر کے افراد گھر میں پکنے والا کھانا اس وقت تک نہیں چھوتے جب تک پہلے قبر پر نذر نہیں کیا جاتا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

کنرنول: کیا آپ کبھی یہ تصور کرسکتے ہیں کہ آپ کسی ایسے گاؤں میں داخل ہوں جہاں ہر گھر کے سامنے ایک قبر ہو، جی ہاں، جنوبی ہندوستان کی ریاست آندھرا پردیش کے کنرنول ضلع میں واقع ایّا کونڈا ایک ایسا گاؤں ہے جہاں ہر گھر کے بغل میں یا پھر گھر کے سامنے قبر موجود ہے۔اس گاؤں میں پہنچتے ہی لوگوں کو یہ خیال آتا ہے کہ کہیں وہ کسی قبرستان میں تو نہیں آ گئے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا

یہ گاؤں ایّا کونڈا کرنول ضلعی ہیڈکوارٹر سے 66 کلو میٹر کے فاصلے پر گونے گنڈل تحصیل میں ایک پہاڑی پر آباد ہے۔یہاں مالاداسری برادری کےتقریباً 150 خاندان مقیم ہیں۔ اس گاؤں کے لوگ اپنے عزیزواقارب کی موت کے بعد ان کی میت گھر کے سامنے دفن کرتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کیونکہ یہاں کوئی قبرستان نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس گاؤں میں ہر گھر کے سامنے ایک یا دو قبریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ گاؤں کی خواتین اور بچوں کو اپنے روز مرہ کے کاموں کے لیے ان قبروں سے ہو کر گزرنا ہوتا ہے۔گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ یہ قبریں ان کےآباو اجداد کی ہیں جن کی وہ روزانہ پوجا کرتے ہیں، ان کی قبروں پر نذرانے پیش کرتے ہیں اور اپنے مخصوص رسم و رواج کی پابندی کرتے ہیں۔ان کی عقیدت کا یہ عالم ہے کہ گھر کے افراد گھر میں پکنے والا کھانا اس وقت تک نہیں چھوتے جب تک پہلے قبر پر نذر نہیں کیا جاتا۔

اس رواج کے بارے میں گاؤں کے سرپنچ شرينواسول نےبتایا کہ ’روحانی پیشوا نلا ریڈی اور ان کے شاگرد مالا دشاری چنتلا منی سوامی نے گاؤں کی ترقی کے لیے اپنی پوری طاقت اور دولت لگا دی تھی۔ ان کےفیضیاب کاموں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے گاؤں کے لوگوں نے ان کے اعزاز میں یہاں ایک مندر قائم کیا اور ان کی پوجا کرنے لگے۔ اسی طرح اپنے خاندان کے بزرگوں کے اعزاز میں یہ لوگ اپنے گھر کے باہر ان کی قبریں بناتے ہیں۔‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا

ان کے یہاں کا یہ رواج محض کھانے نذر کرنے اور پوجا کرنے تک محدود نہیں بلکہ جب وہ کوئی نئی چیز خریدتے ہیں تو بھی وہ سب سے پہلے اس کو ان قبروں کے سامنے رکھتے ہیں اور اس کے بعد ہی اس کا استعمال کرتے ہیں۔

شرينواسل نے بتایا کہ گاؤں والوں سے ان توہمات کی گہری جڑوں کو ختم کرنا بہت مشکل ہے اور اب انھوں نے گاؤں کے بچوں کو تعلیم دینے کا بیڑا اٹھایا ہے کیونکہ ان کے مطابق وہی مستقبل میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔اس گاؤں میں کچھ دوسرے رسم و رواج بھی ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں کے لوگ اپنے گاؤں سے باہر شادی نہیں کرتے اور یہ لوگ چارپائی پر بھی نہیں سوتے۔گاؤں والوں کا اہم پیشہ کاشتکاری ہے اور یہاں اناج کے علاوہ پیاز، مونگ پھلی اور مرچ کی کاشت بھی ہوتی ہے۔

ایّا كونڈا کو اس علاقے میں خرگوش کی کثیر آبادی کی وجہ سے پہلے’كنڈے لو پڑا‘ (خرگوش کا گھر) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ پھر بعد میں اسے ایّا کونڈا کا نام دیا گیا۔دیہی باشندوں کو اپنے راشن یا روزمرہ کی ضروریات کے لیے پہاڑی سے نیچے اتر کر گنجی ہلی جانا ہوتا ہے۔

تحصیل کونسل کے علاقائی حلقہ (ایم پی ٹی سی) کے رکن خواجہ نواب کہتے ہیں کہ اگر حکومت قبرستان کے لیے زمین مختص کر دے تو یہ توہمات ختم ہو سکتی ہیں۔

گاؤں کے سربراہ رنگاسوامی نے کہا: ’نسل در نسل ہم جن رسم و رواج پر عمل کرتے آئے ہیں انھیں روک دینے سے ہمیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہم اس بات پر بھی فکر مند ہیں کہ مستقبل میں قبر بنانے کے لیے ہمارے پاس زمینیں نہیں رہ جائیں گی۔‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔