گمنام مجاہد آزادی: مولانا سید کفایت علی کافی، یوم شہادت پر خصوصی پیش کش

مولانا سید کفایت علی کافی
مولانا سید کفایت علی کافی
user

شاہد صدیقی علیگ

یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مدارس کے طلبا تا علماء کرا م نے جدوجہد آزادی میں کلیدی کردار ادا کیا تھااور وطن عزیز کا کوئی ایسا گوشہ نہیں چھوڑا جہاں انہوں نے اپنا لہو نہ بہایا ہو۔ ایسے جانباز جگر گوشوں کی فہرست میں مولانا سید کفایت علی کافی کا نام بھی شامل ہے۔ جنہوں نے مولوی وہاج الدین عرف منو، مولانا سید عالم علی، مجید الدین عرف مجّو خاں اور عباس علی خاں کے ساتھ مل کر تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

عظیم مجاہد آزادی مولانا سید کفایت علی کافی ایک عالم دین، عاشق رسول، بے مثل طبیب اور مشہور شاعر تھے۔ آپ نگینہ، ضلع بجنور کے سادات خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ مولانا کافی نے ابتدائی تعلیم مراد آباد میں حاصل کرنے کے بعد بریلی اور بدایوں کا رخ کیا۔ شیخ ابو سعید رامپوری سے علم حدیث توفنون طب حکیم شیر علی سے حاصل کیا۔ شاعر ی میں مولوی مہدی علی خاں ذکی سے اصلاح لی۔


مولانا کافی نے جب ہوش سنبھالا تو انگریزی بالادستی عروج بام پر تھی، بجہت ہندوستانیوں کی زندگی اجیرن بن چکی تھی۔ جسے دیکھ کر مولانا کافی کو فرنگیوں سے شدید نفرت ہو گئی اور انہوں نے انگریزی عمل داری کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے کمر کس لی۔ مولانا کافی ہر جمعہ کو کمپنی کے خلاف کلمہ حق سے عوام کو برانگیختہ کرتے، انہیں جہاد کے لیے آمادہ اور ترغیب دلاتے۔ اسی دوران میرٹھ میں قبل ازوقت بھڑکی پہلی ملک گیر جنگ آزادی کی خبر جیسے ہی 12 مئی 1857 کو مراد آباد پہنچی تو آزادی کے پرستار مولانا زین العابدین نے جہاد کا اعلان کر دیا۔ مولانا کفایت علی کافی نے فتویٰ جہاد مرتب کیا۔ جسے جامع مسجد پر چسپاں کیا گیا۔ اس کی نقول دوسرے مقامات پر ارسال کی گئیں۔ اسی سلسلے میں مولانا کافی نے آنولہ اور بریلی کا سفر کیا۔ بریلی میں خان بہادر خاں اور مولوی سرفراز علی سے صلاح و مشورہ کر کے مراد آباد واپس لوٹ آئے۔

جے سی ولسن نے نظم و نسق قائم رکھنے کی پوری کوشش کی لیکن سرکشی بریلی نے اس کی ساری جان توڑ محنتوں پر پانی پھیر دیا۔ چنانچہ 3 جو ن کو 29 ویں دیسی رجمنٹ نے اطاعت کا چولہ اتار پھنکا اور سرکاری خزانے کے 270000 لوٹ لیے۔ انگریز حکام نے نینی تال بھاگ کر جان بچائی۔ نواب مجید الدین عرف مجّو خاں نے مراد آباد کی نظامت سنبھالی۔ اسد خاں ہندی توپ خانے کے افسر اعلیٰ اور مولوی کفایت علی صدر الشریعۃ مقرر ہوئے۔ مجو خاں نے کچھ عرصے تک بڑی ذمے داری سے شہر کا انتظام سنبھالا لیکن نواب یوسف علی خاں رام پور انگریزوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنا ہوا تھا اور نینی تال میں بیٹھے اپنے سفید فام آقاؤں کی ہر ممکنہ مدد کر رہا تھا۔ اسی اثنا میں جب 14 جون 1857 کو دلی کی جانب پیش قدمی کرنے والی بخت خاں کی زیر کمان فوج مراد آباد پہنچی تو نواب رام پور نے عیارانہ حکمت عملی کا مظاہرہ کر کے اپنی جان بچائی۔


اس کے بعدشہزادہ فیروز شاہ کا لشکر جرار 21 اپریل 1858 کو مراد آباد میں داخل ہوا اور اس نے نواب رام پور کی فوج کے چھکے چھڑا دیے جس کے غم میں نواب یوسف علی خاں نے دو دن کھانا تک نہیں کھایا۔ 27 اپریل کو بریگیڈیئر جنرل جونس کی پیش قدمی کی اطلاع ملتے ہی فیروز شاہ نے شہر کو الوداع کہہ دیا۔ جنرل جونس کے مراد آباد پہنچنے پر نواب رام پور کی انتظامیہ نے اسے نظامت سونپ دی۔ لہٰذا انگریزوں اور نواب رام پور کے ناپاک گٹھ جوڑ کے آگے مخلص مجاہدین کی قربانیاں بے محل ثابت ہوئیں۔

انگریزوں نے مقامی غداروں کی وساطت سے تمام انقلابیوں مع نواب مجو خاں کو انسانیت سے عاری ایسی بربریت کا نشانہ بنایا جس کی مثال پتھروں کے دور میں بھی نہیں ملتی۔ مولانا کافی کو انگریزی مخبر فخرالدین کلال نے 30 اپریل کو گرفتار کرایا۔ جنہیں قید خانہ میں بڑی درد ناک اذیتیں دی گئیں، مگر انہیں مولانا کافی نے خندہ لب برداشت کیں۔ ان کا مقدمہ مجسٹریٹ جان انگلسن کے نام نہاد کمیشن کے روبرو 4 مئی 1858 کو پیش کیا گیا اور آناً فاناً میں دو روز بعد یعنی 6 مئی مطابق ۲۲ رمضان ۱۲۷۴ کو کمشن نے طے شدہ پھانسی کی سزا کا فیصلہ سنا دیا۔


کمیشن نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ’’چونکہ ملزم مدعا علیہ نے انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کر کے عوام کو ایک قانونی آئینی حکومت کے خلاف اکسایا اور شہر کو لوٹا، اس لیے ملزم کا یہ فعل انگریزوں کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ حکومت اور اس کی سزا کے طور پر وہ سخت سزا کا مستحق ہے۔ جس کی پاداش میں اسے سزائے موت دی جاتی ہے۔‘‘

مولانا کافی کو اسی دن مراد آباد جیل کے نزد مجمع عام کے سامنے پھانسی دے دی گئی اور وہیں سپرد لحد کر دیا گیا لیکن مولانا کافی پھانسی کے وقت مغموم ہونے کے بجائے مسرور نظر آ رہے تھے اور تختہ دار پر عشق نبی میں سرشار ہو کر نعت گن گنا رہے تھے،

کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا، پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔