دیوبند کے 314 سالہ قدیم ’مدرسہ اصغریہ‘ کی حالت مخدوش

مدرسہ تعلیم القرآن دارالمسافرین دیوبند کے بانی حضرت عبدالقادر جیلانی کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور اسے مدرسہ اصغریہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ مدرسہ دارالعلوم دیوبند سے بھی 161 سال پرانا ہے

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

مدرسوں کا کیپٹل کہے جانے والے دیوبند میں کم و بیش 400 مدرسے ہیں۔ ان میں سے ایک دارالعلوم دیوبند بھی ہے جسے ام المدارس کہا جاتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کا قیام 1866 میں ہوا تھا۔ دارالعلوم کی تاریخ 153 سال قدیم ہے۔ لیکن یہاں ایک مدرسہ ایسا بھی ہے جس کی تاریخ اس سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ جی ہاں، دیو بند میں ایک 314 سال قدیم مدرسہ ہے جو ابھی تک چل رہا ہے۔ یہ مدرسہ دارالعلوم کے قیام سےکم و بیش 161 سال قبل قائم ہوا تھا۔ مدرسے کے بانی مشہور پیر حضرت عبدالقادر جیلانی کی نسل سے ہیں۔ دیوبند شہر کے بیچوں بیچ واقع اس مدرسہ کا نام ہے مدرسہ تعلیم القرآن دارالمسافرین دیوبند۔

دیوبند کے لوگ اس مدرسہ کومدرسہ اصغریہ قدیم کے نام سے بھی جانتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مشہور اسلامی دانشور میاں اصغر سید حسین دیوبندی کے آبا و اجداد نے اسے قائم کیا تھا۔ مغل بادشاہ شاہجہاں کے دور میں بغداد سے آئے سید غلام رسول نے دیوبند کی شاہی جامع مسجد میں امامت کی اور بعد میں بغداد واپس چلے گئے۔ لیکن ان کے بیٹے سید غلام نبی اور سید غلام علی یہیں رہے اور انھوں نے ہی اس مدرسے کی بنیاد ڈالی۔


تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف

مدرسے کی عمارت پختہ ہے لیکن اب یہ کافی کمزور ہو گئی ہے۔ اس میں جگہ جگہ دراڑیں پڑ گئی ہیں اور بالکل مخدوش حالت میں ہے۔ سید عادل حسین اس مدرسہ میں بطور مہتمم اپنی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔ ان کے بیٹے سید شارق حسین ’قومی آواز‘ کو ایک عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ عمارت 1916 میں بنی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے مدرسہ کچی مٹی کے دو کمروں میں شروع ہوا تھا۔ یہ دیوبند میں دینی تعلیم کا سب سے پرانا مرکز ہے۔


مدرسہ میں موجودہ وقت میں بھی 110 طلبا ہیں جنھیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ رہنے و کھانے کے لیے کچھ بھی خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ مدرسہ کا نظام دیکھنے والے عادل حسین بتاتے ہیں کہ 1866 میں دارالعلوم کی بنیاد بھی اسی مدرسے کے ایک ذمہ دار حضرت منّے شاہ نے رکھی تھی۔ اس دن مدرسہ اصغریہ قدیم میں چھٹی کر دی گئی تھی۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی نے خاص طور سے ان سے بنیاد رکھوائی اور کہا کہ حضرت منّے شاہ ایک ایسے شخص ہیں جنھیں کبھی گناہ کا خیال بھی نہیں آیا۔

سید عادل حسین معروف اسلامی شخصیت میاں سید اصغر حسین کے پڑپوتے ہیں۔ میاں سید اصغر حسین اسلامی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ وہ حجرت عبدالقادر کی 20ویں نسل سے تھے۔ انھوں نے اپنے قدیم مدرسے میں صرف 17 سال کی عمر میں پڑھانا شروع کیا تھا جہاں وہ عربی اور فارسی کی تعلیم دیتے تھے۔ بعد میں وہ دارالعلوم میں تعلیم و تعلم سے بھی منسلک رہے۔ میاں سید اصغر حسین اس کے بعد جون پور اٹالہ مسجد میں امامت کرنے پہنچے جہاں انھوں نے سرائے میر میں مدرسۃالاصلاح قائم کیا۔ میاں سید اصغر حسین نے شیخ الہند مولانا محمودالحسن اور مولانا روم کی سوانح عمری لکھی ہے۔


تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف

عادل ’قومی آواز‘ کو بتاتے ہیں کہ پہلے اس مدرسے کا قدیم نام مدرسہ تعلیم القرآن دارالمسافرین دیوبند تھا لیکن بعد میں اسے مولانا اصغر کے نام پر اصغریہ قدیم کہا جانے لگا۔ ایک وقت میں مدرسہ میں 400 بچے رہتے تھے، اب صرف 100 ہیں۔ سید عالد کہتے ہیں کہ اس کی وجہ عمارت کا کمزور ہونا ہے۔ اوپر کی منزل پوری طرح سے بند کر دی گئی ہے۔ دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ عمارت 103 سال پرانی ہے۔ بزرگوں نے یہ روشنی پھیلائی تھی۔ ہم ان کی لو کو جلائے رکھنا چاہتے ہیں۔


مدرسہ کے اندر ایک ملاقاتی کمرہ بھی موجود ہے۔ عادل کا کہنا ہے کہ اس کمرے کی بڑی عظمت ہے۔ ہر جمعرات کو یہاں تمام بڑے اکابرین اکٹھا ہوتے تھے۔ ان میں مولانا اسعد مدنی، مفتی حبیب الرحمن صاحب، شاہ صاحب اور سید جلیل حسین، مولانا سالم صاحب آپس میں بیٹھ کر علمی گفتگو کرتے تھے۔ مدرسے کی عمارت اب پوری طرح سے کمزور ہو چکی ہے۔ کمرے چھوٹے ہیں، کھڑکیاں ٹوٹ چکی ہیں۔ دیواریں دھنس رہی ہیں۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف

دیوبند کے ایک بزرگ فہیم احمد مدرسہ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ اپنے بزرگوں سے سنتے ہیں کہ مدرسہ اصغریہ جب یہاں قائم ہوا تو دور دور کوئی مدرسہ نہیں تھا۔ لوگوں میں جہالت تھی اور صرف جمعہ کی نماز ہوتی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’300 سال کی تاریخ بہت بڑی ہوتی ہے۔ آپ بس یہ سمجھ لیجیے کہ یہ مدرسہ دارالعلوم سے 150 سال سے زیادہ قدیم ہے اور یہاں سے جو عالم تیار ہو کر نکلے ہیں وہ پوری دنیا میں پھیلے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ مدرسے عظیم الشان ہو گئے ہیں، لیکن اِس مدرسے کی بھی بہت اہمیت ہے۔‘‘

مقامی نوجوان سمیر چودھری کے مطابق یہ بات واقعی حیران کر ڈالتی ہے کہ دیوبند کی تاریخ کا 300 سال پرانا مدرسہ امید سے بہت کم ترقی کر پایا ہے۔ حالانکہ مدرسہ اب بھی چل رہا ہے لیکن اس کے 150 سے بھی زیادہ سال بعد شروع ہوا دارالعلوم دیوبند دنیا بھر میں خاص پہچان بنا چکا ہے۔مدرسہ کے تعلق سے سمیر چودھری بتاتے ہیں کہ اس مدرسہ کو قائم کرنے والے سید غلام نبی بغداد آئے تھے اور بزرگوں کا کہنا ہے کہ وہ حضرت عبدالقادر جیلانی کے خاندان سے تھے۔ اس خاندان کی دیوبند میں کافی عزت ہے۔ حالانکہ مدرسے کی موجودہ حالت کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اب یہ بہت زیادہ دور تک نہیں جانے والا۔ گویا کہ 314 سالہ قدیم مدرسہ اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے۔


سمیر چودھری کہتے ہیں کہ ’’کچھ لوگوں کے مطابق دوسرے مدرسوں کو زیادہ تشہیر ملی اور مدرسہ اصغریہ کے بانیوں نے باہری تشہیر کو زیادہ توجہ نہیں دی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مدرسہ اصغریہ کو امید کے مطابق ترقی نہیں مل پائی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Oct 2019, 7:00 PM