کورونا بحران: کیا اب گھر سے کام کرنا عام بات ہو جائے گی ؟

کورونا کی وباء نے جرمنی میں نیٹ ورکنگ کو فروغ دیا ہے۔ کچھ تکنیکی رکاوٹوں کے باوجود، گھر سے کام کرنا اس حد تک بڑھ گیا ہے جو چند ماہ پہلے تک ناممکن تھا۔ کیا جرمنی ڈیجیٹل ہائی فلائر بن جائے گا؟

کورونا بحران: کیا جرمنی ڈیجیٹل ہائی فلائر بن جائے گا؟
کورونا بحران: کیا جرمنی ڈیجیٹل ہائی فلائر بن جائے گا؟
user

ڈی. ڈبلیو

لاکھوں جرمن باشندے فی الحال گھروں سے کام کر رہے ہیں۔ ویڈیو کانفرنسوں کے ذریعے مشاورت کررہے ہیں اور اپنی ملازمتوں کے ليے ڈیجیٹل پلیٹ فارم استعمال کر رہے ہیں۔

یہ سب کچھ چند ہفتوں پہلے تک ناقابل فہم تھا اور اب ایک نیا معمول بن گیا ہے۔ لیکن یہ جرمن معاشرے کی مکمل تصویر نہیں ہے۔ ملک میں اب بھی کافی کمپنیاں موجود ہیں جو روایتی انالاگ کے کام کے عمل پر انحصار کرتی ہیں۔ جرمنی میں وبائی مرض کے متاثر ہونے کے ایک ماہ سے زیادہ گزرنے کے بعد، صحت عامہ کے بہت سے محکمے بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے ليے جرمنی کی سرکاری ادارے برلن میں قائم رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کو نئے انفیکشن کيسز اور اموات کے اعداد وشمار فیکس کرتے رہتے ہیں۔


ساتھ ہی زیادہ سے زیادہ فرمز اور ان کے ملازمین گھر سے کام کرنے کے فوائد اور سہولت کی تعریف کرنا سیکھ رہے ہیں۔ جرمنی کے آئی ٹی اور ٹیلی مواصلات کے ڈیجیٹل بزنس پروسیس ڈیپارٹمنٹ بِٹ کام کے سربراہ نیلس برٹسے کے بقول، "بنیادی طور پر ایسے شعبے جو اب تک اعلی ڈیجیٹلائزیشن کی سطح کے لیے نہیں جانے جاتے تھے اب انہیں مزید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے شہرت اور اچھے نتائج حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔"

نیلس برٹسے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ، "ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ صلاحیت ہے، خاص طور پر اس طرح کے آزمائشی دور میں۔ ہم ان ٹیکنالوجیز کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو اس وقت وبائی امراض اور بحران کے درمیان معاشروں کو تیز رفتار رکھے ہوئے ہیں مثال کے طور پر آن لائن شاپنگ، ای گورنمنٹ اور ہوم اسکولنگ کو بروۓ کار لاتے ہوئے۔ ڈیجیٹل ہونے کے بہت سے فوائد ہیں – دفتر کی ميز پر بکھرے کاغذات سے نجات اور افراتفری کو دور کرنا ان میں سے ایک ہے


پیپر لیس آفس

لیکن یورپی پاور ہاؤس میں یکساں طور ڈیجیٹلائزیشن میں ترقی نہیں ہورہی ہے، بڑی کمپنیاں عموما لیڈ یا سبقت لے جاتی ہیں جبکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے پیچھے رہ جاتے ہيں۔


بِٹ کام کے سربراہ نیلس برٹسے کا کہنا ہے کہ پوسٹل لیٹرز اور فیکس مشینوں کا استعمال کرتے ہوئے انتظامی اور تعلیمی کاموں میں بہت سی فرمیں اب بھی کاغذ پر انحصار کر رہی ہيں۔ تاہم، کورونا وائرس کا بحران ان میں سے بہت سے لوگوں کے ليے ایک "ويک اپ کال" ثابت ہوا ہے۔

برٹسے کا ماننا ہے کہ چھوٹی کمپنیاں اب اس ميدان ميں کودنے اور مقابلے کی دوڑ یں آگے بڑھنے کی امید کر رہی ہیں۔ "کلاؤڈ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے، ہر کمپنی دستاویزات پر کارروائی کرنے یا ویڈیو کانفرنسیں ترتیب دینے کا ایک ڈیجیٹل حل جلدی سے تلاش کر سکتی ہے۔" سرورز کے ساتھ مکمل آئی ٹی انفراسٹرکچر میں براہ راست سرمایہ کاری بہت سارے لوگوں کے ليے بہت مہنگی پڑتی ہے، لیکن کلاؤڈ بیسڈ سروسز ایک حقیقی گیم چینجر ثابت ہوئے ہيں۔


بِٹ کام کے ماہر نے کہا،''یہ ایک معجزہ ہے کہ اب کتنی کمپنیاں اس کو اپنا رہی ہیں۔‘‘ لیکن کام کی بہاؤ کو بہتر بنانے کے ليے ڈیجیٹل ٹولز کا استعمال ہی کافی نہیں ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن کی مکمل صلاحیت کو استعمال کرنے کے ليے پورے بورڈ میں کام کے عمل کو بڑھانا ہوگا۔ برٹسے استدلال کرتے ہوۓ کہتے ہيں، "اگر آپ صرف ایک غیر فعال اینالاگ عمل کو ڈیجیٹل بناتے ہیں تو ، آپ اسے ایک غیر موزوں ڈیجیٹل عمل کے ساتھ ختم کردیتے ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ مینیجرز کو ملازمین کو متحرک رکھنے کے نئے، تخلیقی طریقے ڈھونڈنا ہوں گے۔ ان کے بقول، "اگر مینیجرز اور ملازمین روزانہ ایک دوسرے سے نہیں ملتے ہیں تو، باہمی اعتماد قائم نہيں ہوگا جو موثر تعاون کے ليے ناگزیر ہے۔"


امریکا ٹیلی ورکنگ ميں بہت آگے

ایم آئی ٹی کے ایک حالیہ مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کی وبا آنے سے پہلے صرف 5 فیصد امریکی گھر سے کام کرتے تھے۔(جزوی طور پر) اب یہ شرح 30 فیصد کے قریب ہو چکی ہے۔


لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ اعداد و شمار مسلسل بڑھتے ہی رہيں گے۔ شکاگو یونیورسٹی کے ماہرين کا خیال ہے کہ 30 فیصد شرح ایک ایسی دہلیز ہے جو ملک بھر میں مشکل سے ہی پار کی جاسکے گی ۔ بِٹ کام کے نیلس برٹسے پراميد ہيں کہ وبائی بیماری کے قابو میں آنے کے بعد ڈیجیٹلائزیشن سے وابستہ پیش قدمياں واپس نہیں لائی جائيں گی۔ انہوں نے کہا ، "موجودہ پیشرفتوں کو برقرار رکھا جائے گا ، اور جرمنی کے ليے آخر میں ڈیجیٹل ہائی فلائر بننے کی خواہش موزوں ہے۔ آخر کار اس کا انحصار ہم پر ہی ہے اور ہم اس ہدف تک پہنچ سکتے ہيں۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔