ہندوستان میں آرین کہاں سے آئے، پرانے انسانی ڈھانچوں کی زبانی... وصی حیدر

تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کہ وادی سندھ کے آس پاس کے علاقوں کے انسانی ڈھانچوں میں کافی حد تک 3000-4700 ق م کے دوران ایران کے ذگروڑ پہاڑی کے پاس بسنے والوں کے جینس کی ملاوٹ ہے۔

Human skeletons found in the House of Neptune and Amphitrite, Herculaneum (UNESCO World Heritage Site, 1997), Campania, Italy, Roman civilization, 1st century.
Human skeletons found in the House of Neptune and Amphitrite, Herculaneum (UNESCO World Heritage Site, 1997), Campania, Italy, Roman civilization, 1st century.
user

وصی حیدر

(انیسویں قسط)

پرانے انسانی ڈھانچوں کی مختلف وقتوں میں ڈی این اے کے مشاہدوں سے یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے کہ انسان کی آبادیاں کب اور کہاں کہاں جا کر بسیں۔ مثلاً اگر ہم یہ پائیں کہ کسی ایک جگہ پرانہ ڈی این اے یہ ثابت کرتا ہے کہ اس جگہ پر کسی بھی ڈھانچہ میں 2000 ق م سے پہلے یوریشیا کے جینس نہیں ہیں اور 1000 ق م سے زیادہ پرانے لوگوں کے ڈھانچوں میں یوریشیا کے جینس ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس جگہ پر یوریشیا سے لوگ 2 ہزار سے ایک ہزار سال ق م کے دوران باہر سے آئے۔ بہت پرانے انسانی ڈھانچوں کی ڈی این اے تحقیق کے طریقوں سے حال ہی میں بہت ترقی ہوئی ہے اور اس کی مدد سے پوری دنیا میں مخلف جگہوں پر انسانی آبادی پھیلنے کے سوالوں کو حل کرنے میں آسانیاں ہوئیں ہیں۔

سائنسی تحقیق کے اس طریقہ کار نے بہت ساری فرسودہ کہانی قصوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا، جن میں ہمارے لئے کافی اہم سوال یہ ہے کہ آرین کہاں سے آئے ہیں۔ سن 2018 میں دنیا بھر کے 92 ماہرین جن کا تعلق امریکہ کی ہاروڈ یونیورسٹی، جرمنی کے میکس پلینک انسیٹی ٹیوٹ اس کے علاوہ ہندوستان کے حیدرآباد کے سی سی ایم بی اور لکھنؤ کے بیربل انسٹی ٹیوٹ سے ہیں) نے اپنے ایک اہم ریسرچ مضمون میں آرین کے مسئلہ کو ہمیشہ کے لئے حل کر دیا۔


اوپر بیان کی گئی تحقیق 612 پرانے انسانی ڈھانچوں پر مبنی ہے۔ یہ ڈھانچے مختلف پرانے وقتوں اور جگہوں کے ہیں مثلاً ایران اور توران( جو اصل میں ترکمنستان، ازبکستان اور تاجکستان) کے 1200-5600 ق م کے یورپ کے یورال پہاڑیوں مشرق یعنی کزاخستان کے پاس کے علاوہ جو 1000-4800 ق م پرانے اور پاکستان کی سوات وادی میں جو 1200 ق م سے پہلی صدی جتنے پرانے ہیں۔ ان ڈھانچوں سے حاصل ہوئی معلومات کا موازنہ پھر تقریباً 1800 موجودہ انسانوں کی مختلف جگہوں پر آباد ہوئے لوگوں سے کیا گیا۔ بہت پرانے اور موجودہ انسانوں کی ڈی این اے تحقیقات کے بعد ہی سائنسداں ایک ٹھوس نتیجہ پر پہنچے ہیں جو نیچے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کہ وادی سندھ کے آس پاس کے علاقوں کے انسانی ڈھانچوں میں کافی حد تک 3000-4700 ق م کے دوران ایران کے ذگروڑ پہاڑی کے پاس بسنے والوں کے جینس کی ملاوٹ ہے۔ سندھ ندی کے مغرب میں رہنے والے در اصل ہڑپا تہذیب کے انسان تھے جن کے تجارتی اور ثفاتی تعلق گونور اور سحر سوختا (ترکمنستان) کی آبادیوں سے تھا۔ سحر سوختا میں ایک کامیاب تہذیب 1800-3200 ق م میں پنپ رہی تھی۔


گونور اور سحر سوختا میں تین پرانے انسانی ڈھانچے ایسے تھے جنہیں ہندوستان میں 65 ہزار سال پہلے افریقہ سے آئے ہوموسیپین کے کافی جینس تھے اور اس کے علاوہ ایرانی جینس بھی تھے۔ کیونکہ ہڑپا تہذیب کے علاقہ سے کوئی بھی پرانہ انسانی ڈھانچہ نہیں ملا ہے، اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہاں کے انسانوں میں بھی وہی ایرانی جینس کی ملاوٹ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایران سے کھیتی کرنے والے لوگ ہندوستان آئے، کیونکہ ہڑپا کے لوگوں میں کافی حد تک ایرانی جینس پائے گئے ہیں۔ اس نتیجہ پر پہنچنے کی کچھ تفصیل نیچے بیان کی گئی ہے۔

8000-7000 ق م پرانے ایران کے ذگروز علاقہ کے لوگوں کے جینس عراق، لبنان اور اسرائیل کے لوگوں سے کافی فرق پائے گئے اور ان میں یوریشیا کے لوگوں کی کافی ملاوٹ ہے۔ ان میں اناتولیا(موجودہ ترکی) کے جینس نہیں ہیں جو ترکی سے ایران کے مغرب تک پائے جاتے ہیں۔ جیسے جیسے ترکی سے ایشیا کی طرف بڑھتے ہیں ویسے ویسے اناتولین جینس 70 فیصدی سے گھٹتے گھٹتے 33 فیصدی ایران میں اور صرف 3 فیصدی توران تک ملے۔


اس کی وجہ سے شاید یہ ہے کہ اناتولیا کے لوگوں نے مشرق کی طرف کھیتی باڑی پھیلانے میں اہم رول ادا کیا لیکن یہ اثر ایران کے ذگروز علاقہ تک ختم ہوا۔ وہاں کے لوگوں میں 7000 ق م تک اناتولیا کا کوئی اثر نہیں دکھائی دیتا۔ دوسرا اہم انکشاف گونوراور سحر سوختا کے پرانے انسانی ڈھانچوں سے ملا ہے۔ وہاں کے تقریباً 70 انسانوں کے ڈھانچوں کی ڈی این اے تحقیقات کی گئی۔ ان سے یہ معلوم ہوا کہ وہاں کے لوگوں میں 60 فیصدی ایرانی کھیتی کرانے والے 21 فیصدی اناتولیا کے لوگوں کے اور 13 فیصدی سائبریا کے لوگوں کے جینس کی ملاوٹ تھی۔

ہڑپا کے لوگوں کے جینس کے بارے مییں کچھ اور انکشافات اگلی قسط میں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */