سمندروں میں زندگی کے تحفظ کا معاہدہ
یہ معاہدہ سمندری حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور پائیدار استعمال کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ اس کا مقصد سمندری آلودگی کو کم کرنا، مچھلیوں کے ذخائر کی بحالی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنا ہے

بین الاقوامی سمندری حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کا معاہدہ 60 ممالک کی توثیق کے بعد نافذ العمل ہو گیا ہے۔ 19 ستمبر کو مراکش اور سیرالیون نے اس معاہدے کی توثیق کی، جس کے بعد یہ دونوں ممالک توثیق کرنے والے 60ویں اور 61ویں ممالک بن گئے۔ آئندہ سال جنوری سے اس معاہدے پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ رکن ممالک نے جون 2023 میں اس معاہدے کی منظوری دی تھی، لیکن اس پر تقریباً دو دہائیوں تک بات چیت ہوتی رہی۔
اس معاہدے کو "ملکی دائرہ ہائے اختیار سے پرے سمندری حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور پائیدار استعمال کا معاہدہ" (بی بی این جے) کہا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اس کی منظوری کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے سمندر اور کثیرالفریقیت کے لیے ایک تاریخی کامیابی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، گزشتہ دو سال کے دوران رکن ممالک نے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ثابت کیا کہ جب مشترکہ بھلائی کے لیے اکٹھے کام کیا جائے تو ممکنات کا کوئی حد نہیں۔ دنیا کو موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور آلودگی کی صورت میں تہرے بحران کا سامنا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ معاہدہ سمندر اور انسانیت کی بقا کا ضامن بنے گا۔
انسانی زندگی کا بنیادی عنصر
یہ معاہدہ بین الاقوامی پانیوں کے دو تہائی حصے کا احاطہ کرتا ہے اور سمندری حیاتیاتی تنوع کے تحفظ، جینیاتی وسائل کی منصفانہ تقسیم، مچھلیوں کو تحفظ دینے کے لیے محفوظ علاقوں کے قیام اور سائنسی تعاون کو مستحکم کرنے کی غرض سے اقدامات کرے گا۔اس کی پابندی رکن ممالک پر لازم ہو گی۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یونیپ) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے کہا کہ سمندر انسان کے وجود کی بنیاد ہے اور آج دنیا نے اپنے مستقبل کو تحفظ دینے کے لیے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔
"بی بی این جے" معاہدہ سمندری قانون پر اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت اٹھائے گئے اقدامات کو مزید آگے بڑھائے گا۔ یہ معاہدہ 17 جنوری 2026 کو نافذ العمل ہو گا اور حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے بین الاقوامی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ایک عالمگیر طریقہ کار فراہم کرے گا۔ سیکرٹری جنرل نے تمام اقوام متحدہ کے ارکان پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاہدے کی توثیق میں کوئی تاخیر نہ کریں اور اس پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنائیں کیونکہ سمندروں کی صحت انسانوں کی صحت سے جڑی ہوئی ہے۔
سمندری حیاتیاتی تنوع معاہدے کی اہمیت
جون 2023 میں اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک نے سمندری حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے ایک تاریخی معاہدے کی منظوری دی تھی۔ اس معاہدے کے پانچ اہم پہلو درج ذیل ہیں:
1۔ قومی حدود سے پرے نیا تحفظ
اگرچہ ممالک اپنی قومی سمندری حدود میں ماحول کے تحفظ اور آبی گزرگاہوں کے پائیدار انداز میں استعمال کے ذمہ دار ہیں تاہم اس معاہدے کی بدولت اب گہرے پانیوں کو بھی آلودگی اور ناپائیدار ماہی گیری کی سرگرمیوں جیسے تباہ کن رحجانات کے خلاف تحفظ مل گیا ہے۔معاہدے کا مقصد سمندری قانون کے کنونشن کی مطابقت سے موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے سمندر کی نگرانی اور حفاظت کرنا ہے۔ اس میں 75 دفعات کا تعلق سمندری ماحول کی حفاظت اور اس کے ذمہ دارانہ انداز میں استعمال، سمندری ماحولیاتی نظام کی سالمیت برقرار رکھنے اور سمندری حیاتیاتی تنوع کی موروثی قدر کے تحفظ سے ہے۔
2۔ صاف ساحلی ماحولیاتی نظام
ساحلی ماحولیاتی نظام زہریلے کیمیائی مادے اور لاکھوں ٹن پلاسٹک کے کچرے سے بھرے پڑے ہیں جس سے مچھلیاں، سمندری کچھوے، سمندری پرندے اور میمالیہ ہلاک و زخمی ہو رہے ہیں۔ یہ کچرا ان کے غذائی نظام میں شامل ہو رہا ہے اور بالآخر انسانوں کی خوراک کا حصہ بن رہا ہے۔ پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) سے متعلق رپورٹ کے مطابق 2021 میں ایک کروڑ 70 لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ پلاسٹک دنیا بھر کے سمندروں میں پھینکا گیا جس نے 85 فیصد سے زیادہ سمندروں کو آلودہ کیا۔ متوقع طور پر 2040 تک اس تعداد میں دو یا تین گنا اضافہ ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اگر ضروری اقدامات نہ کئے گئے تو 2050 تک سمندر میں پلاسٹک کی مقدار مچھلیوں سے بڑھ جائے گی۔ اس معاہدے کا مقصد سمندر کو آلودگی سے پاک کرنے کے اقدامات کو مضبوط بنانا ہے ۔
3۔ مچھلیوں کے ذخائر
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں مچھلیوں کے ایک تہائی سے زیادہ ذخائر کا حد سے زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ اس معاہدے میں صلاحیتوں میں اضافے کی اہمیت، سمندری ٹیکنالوجی کی منتقلی اور اس کے فریم ورک کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ اس میں علاقائی سمندری تنظیموں اور ماہی گیری کے انتظام سےمتعلق علاقائی اداروں و تنظیموں کے مابین تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
4۔ حدت میں کمی کے لیے اقدامات
عالمی حدت سمندری درجہ حرارت کو نئی بلندیوں پر لے جا رہی ہے، مزید تواتر اور شدت سے آنے والے سمندری طوفانوں کو تیز کر رہی ہے، سطح سمندر میں اضافہ کر رہی ہے اور ساحلی علاقوں اور زیرآب پانی کو کھارا بنا رہی ہے۔ یہ معاہدہ موسمیاتی تبدیلی اور سمندری تیزابیت جیسے خطرات سے نمٹنے کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے اور ماحولیاتی نظام کی سالمیت کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
5۔ سال 2030 ایجنڈے کی تکمیل
یہ معاہدہ سمندری آلودگی کم کرنے اور 2030 کے ایجنڈے کی کامیابی کے لیے اہم ہے۔ اس کا مقصد 2025 تک سمندری آلودگی روکنا اور مچھلیوں کے ذخائر کی بحالی کے لیے ماہی گیری کو کنٹرول کرنا ہے۔ اس کے ذریعے علاقے کی بنیاد پر انتظامی ذرائع کا اہتمام کیا جائے گا، جن میں محفوظ سمندری علاقے شامل ہوں گے، تاکہ سمندری حیات کا تحفظ اور پائیدار انتظام ممکن ہو سکے۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ معاہدہ سمندروں کی حفاظت اور انسانیت کے مستقبل کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔