سورج نے سائنسدانوں کو کیا حیران، فزکس کے اصول ہو رہے چکناچور

سورج سے نکلنے والی شعاعیں تیزی کے ساتھ باہر کی طرف بھاگتی ہیں، لیکن نئی شعاع بہت ہی عجیب ہے، یہ باہر نکل کر واپس سطح پر تیرتے ہوئے اندر چلی جاتی ہے۔

سورج کی سطح / Getty Images
سورج کی سطح / Getty Images
user

قومی آوازبیورو

سائنسداں ہمیشہ دنیا اور دنیا کے باہر کی چیزوں کے بارے میں ایسی ایسی نئی جانکاریاں دیتے ہیں جو حیران کر دیتی ہیں۔ اب سورج کی شعاعوں کے بارے میں ایک ایسا انکشاف ہوا ہے جس نے فزکس کے اصولوں کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ سورج میں ایک نئی طرح کی شعاع کا پتہ چلا ہے جس کے بارے میں سائنسدانوں کو پہلے پختہ جانکاری نہیں ملی تھی۔ جب اس لہر کی رفتار کی جانچ کرنے کے لیے سائنسدانوں نے کوششیں کی تو ایسی بات پتہ چلی جس سے وہ حیرت زدہ رہ گئے۔

دراصل سورج سے نکلنے والی شعاعیں تیزی کے ساتھ باہر کی طرف بھاگتی ہیں، لیکن نئی شعاع بہت ہی عجیب ہے۔ یہ باہر نکل کر واپس سطح پر تیرتے ہوئے اندر چلی جاتی ہے۔ یہ فزکس کے اصولوں کے خلاف ہے۔ نئی عجیب و غریب لہر امید سے تین گنا زیادہ رفتار سے چلتی ہے اور یہ لہر سورج کی پلازمہ لہروں کے بہاؤ کی سمت کے برعکس چل رہی ہے۔ یہ خاص طرح کی ایکاسٹک لہر ہے جن سے آوازیں بھی آتی ہیں۔ انھیں ہائی فریکوئنسی ریٹروگریڈ (ایچ ایف آر) وارٹیسٹی لہر کہا جا رہا ہے۔ ان لہروں کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ گزشتہ 24 مارچ 2022 کو ’نیچر ایسٹرونومی‘ میں شائع ہوئی ہے۔


سائنس سورج کی دہکتی ہوئی گہرائیوں میں دیکھ نہیں سکتے اس لیے وہ ایکاسٹک لہر کی چال ڈھال پر نظر رکھتے ہیں۔ یہ ایکاسٹک لہریں سورج کی سطح پر تیرتی رہتی ہیں۔ یہ اپنے کور (مرکز) سے نکلتی ہیں اور واپس وہیں چلی جاتی ہیں۔ کئی بار وہ باؤنس بیک بھی کرتی ہیں، ٹھیک اسی طرح جیسے کینوس کی گیند۔ لیکن ان لہروں کی رفتار کا پتہ لگانے میں سائنسدانوں نے 25 سال کے ڈاٹا کا استعمال کیا ہے۔

نیویارک یونیورسٹی کے ابوظہبی سنٹر فار اسپیس سائنس میں ایسٹروفیزسٹ شرون ہناسوگے نے ایک بیان میں کہا کہ اس نئی لہر کی موجودگی، اس کا پیدا ہونا واقعی میں ایک معمہ ہے، ایک ایسا معمہ جو حقیقت میں موجود ہے۔ یہ کوئی تصور نہیں ہے، کوئی ڈھکوسلا نہیں ہے۔ شرون ہناسوگے نے کہا کہ ہم ان حیرت انگیز لہروں کی اسٹڈی کر کے سورج کی اس روش کے بارے میں جان سکتے ہیں جس کے بارے میں ابھی تک نہ سوچا گیا تھا، نہ ہی اسٹڈی کی گئی تھی۔ ہمیں سورج کی اندرونی بناوٹ سے متعلق تفصیلات مل سکتی ہیں۔ پہلے سائنسدانوں کو لگتا تھا کہ ایکاسٹک لہریں کوریولس افیکٹ کی وجہ سے سورج کی سطح پر بنتی ہیں۔ عام زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب کسی سیارہ کے خط استوا کی رفتار اس کے قطبوں کی رفتار سے زیادہ ہوتی ہے، تو اسے کوریولس افیکٹ کہتے ہیں۔ ایک بار جب شمشی لہر اٹھتی ہوگی، تو اس کے ایچ ایف آر بننے کی تین وجہیں ہو سکتی ہیں- پہلی سورج کی مقناطیسی قوت، دوسری کوریولس افیکٹ اور تیسری زیادہ کنویکشن کرنٹس۔ یہ تینوں مل کر بھی ایک نئے طرح کی حیرت انگیز شمشی لہریں بنا سکتی ہیں۔ ان کی وجہ سے ہی ان نئی شمشی لہروں کو تین گنا زیادہ رفتار مل رہی ہے۔ یہ رفتار امید سے بہت زیادہ ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان تینوں اسباب کو پختہ نہیں مانا جا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔