اوڈیسیئس کی کامیاب مون لینڈینگ، نصف صدی سے زائد عرصے میں چاند پر پہنچنے والا پہلا امریکی خلائی جہاز

نجی کمپنی کا تیار کردہ بغیر عملے کا یہ روبوٹ 22 فروری کو چاند کی سطح پر پہنچا ۔ ناسا نے اوڈیسیئس لینڈنگ کو ایک بہت بڑا کارنامہ اور کمرشل لونر پے لوڈ سروسز پالیسی کی کامیابی قرار دیا ہے

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

مدیحہ فصیح

اوڈیسیئس، نصف صدی سے زائد عرصے میں چاند پر پہنچنے والا پہلا امریکی خلائی جہاز ہے۔ اوڈیسیئس نے 22 فروری کو چاند پر سافٹ لینڈنگ کی اور یوں کسی نجی کمپنی کے ذریعے بنائے گئے چاند پر اترنے والے پہلے روبوٹ کے طور پر تاریخ رقم کی۔ امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے لینڈر کے پے لوڈ کے طور پر مواصلاتی آلات کے علاوہ دیگر آلات بھی بھیجے ہیں ۔ سات روزہ مشن کے دوران، ایجنسی اس بات کا تجزیہ کریگی کہ خلائی جہاز کی لینڈنگ کے اثرات کا چاند کی مٹی پر کیا رد عمل ہوا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اوڈیسیئس چاند کے قطب جنوبی کے ایک ناہموار خطہ میں ’ملاپرٹ اے ‘نامی گڑھے کے قریب یا مطلوبہ لینڈنگ سائٹ پر اترا ہے، ہدف کے شاید 2 یا 3 کلومیٹر کے اندر۔ اس کی تصدیق ناسا کا لونر ریکونیسنس آربیٹر نامی سیٹلائٹ کرے گا۔ اس خطہ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ منجمد پانی سے مالا مال ہوگا اور مستقبل میں چاند پرمستقل بیس قائم کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔

بغیر عملے کا روبوٹ خلائی جہاز 22 فروری کو چاند کی سطح پر پہنچا تو کریش لینڈنگ سے بچنے کے لیے زمین پر فلائٹ کنٹرولرز کو غیر آزمودہ طریقہ استعمال کرنے کی ضرورت پڑی ۔ اوڈیسیئس کے اصل لیزر رینج فائنڈرز کو غیر فعال کر دیا گیا کیونکہ فلوریڈا میں ناسا کے کینیڈی اسپیس سینٹر میں خلائی جہاز بنانے والی نجی کمپنی انٹیوٹو مشینز (آئی ایم ) کے انجینئرز لینڈر کے لانچ سے قبل نادانستہ طور پر حفاظتی سوئچ کو ’ان لاک‘ کرنے میں ناکام رہے تھے۔ مسئلہ کا پتہ ایک ہفتہ بعد چاند کے مدار کے دوران ہوا،اس وقت لینڈنگ میں صرف چند گھنٹے باقی تھے۔


امریکی ریاست ٹیکساس کے ہیوسٹن شہر میں قائم کمپنی، انٹیوٹو مشینز (آئی ایم ) نے انکشاف کیا ہے کہ انسانی غلطی خلائی جہاز کے لیزر پر مبنی رینج فائنڈرز کی ناکامی کا باعث بنی، کس طرح انجینئرز نے لینڈنگ کے وقت سے چند گھنٹے قبل غلطی کا پتہ لگایا، اور کس طرح مشن کو ممکنہ طور پر بچایا گیا۔ کمپنی کے مطابق اوڈیسیئس کی حالت اس کے اترنے کے فوراً بعد مخدوش تھی۔ ایک متوقع ریڈیو بلیک آؤٹ کے بعد خلائی جہاز کے ساتھ مواصلات کو دوبارہ قائم کرنے اور زمین سے تقریباً 384,000 کلومیٹر (239,000 میل) کے فاصلے پر اس کی قسمت کا تعین کرنے میں کچھ وقت لگا۔ جب بالآخر رابطہ ہوا تو سگنل کمزورتھا، جس سے چاند پر سافٹ لینڈنگ کی تصدیق تو ہو گئی تھی لیکن مشن کنٹرول کے لیے لینڈر کی حالت اور پوزیشن کے بارے میں معلومات غیر یقینی تھی۔

انٹیوٹو مشینزکے سی ای او اور شریک بانی سٹیو آلٹیمس کے مطابق، اوڈیسیئس نامی 4.3 میٹریا 14 فٹ ہیکساگونل، چھ ٹانگوں والے لینڈر نے کمپنی کے لیزر آلے ناکام ہونے کے بعد چاند کی سطح پر اترنے کے لیے ناسا کے تجرباتی لیزر نیویگیشن سسٹم کا استعمال کیا ۔ یہ واضح نہیں کہ کیا ہوا لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اوڈیسیئس کی چھ ٹانگوں میں سے ایک پھسل گئی اور پھر روبوٹ گر گیا۔ ایک اور امکان یہ ہے کہ نیچے آتے ہی اوڈیسیئس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔ تاہم، سینسر لینڈر کی باڈی کے افقی پوزیشن میں ہونے کی نشاندہی کررہے ہیں۔ ریڈیو اینٹینا زمین کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور شمسی خلیے بیٹری سسٹم کو چارج کر رہے ہیں۔ وہ تمام سائنسی آلات جنہیں چاند پر مشاہدات کے لیے بنایا تھا وہ اوڈیسیئس کے سامنے کی طرف ہیں اور کچھ حد تک کام کرسکتے ہیں۔ غلط سمت میں واحد پے لوڈ ایک جامد آرٹ پروجیکٹ ہے جو چاند کی سطح پر نیچے کی طرف اشارہ کررہا ہے۔


اوڈیسیئس مشن ڈائریکٹر ٹم کرین کے مطابق انجینئرز نے لینڈر کو ہدایت دی کہ وہ ناسا کے تجرباتی لیڈار پے لوڈ پر انحصار کرے -لیڈار ایک ریموٹ سینسنگ سسٹم جو اشیاء کے درمیان فاصلے کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اوڈیسیئس خلائی جہاز نے پہلی بار خلا میں مائع میتھین اور مائع آکسیجن کے پروپلشن ایندھن کو جلایا ، اور اپنی سات روزہ پرواز کے دوران بے عیب کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہیں یقین ہے کہ لینڈر پر موجود پے لوڈ تقریباً 9 یا 10 دن تک کام کر سکیں گے، جس کے بعد قطبی لینڈنگ سائٹ پر سورج غروب ہو جائے گا۔

انٹیوٹو مشینز لینڈر سے تصاویر حاصل کرنے اور اس کی ساخت اور بیرونی آلات کا جائزہ لینے کے لیے پرامید ہے۔ ایمبری-ریڈل ایروناٹیکل یونیورسٹی کے ڈیزائن کردہ ’ایگل کیم ‘نامی ایک آلہ کو اوڈیسیئس کی لینڈنگ کی تصاویر لینے کے لیے ٹچ ڈاؤن سے 30 سیکنڈ پہلے پاپ آف ہونا تھا، لیکن اس ڈیوائس کو اترنے کے دوران جان بوجھ کر بند کر دیا گیا کیونکہ نیویگیشن سسٹم کو سوئچ آن کرنے کی ضرورت تھی۔ تاہم، ایمبری-ریڈل ٹیم آنے والے دنوں میں ایگل کیم کو چالو کرنے کی کوشش کرے گی، تاکہ وہ تقریباً 8 میٹر یا 26فٹ دور سے لینڈر کی تصویر کھینچ سکے۔ اس کی موجودہ فعالیت سے قطع نظر، اوڈیسیئس کا مارچ کے آغاز سے زیادہ کام کرنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ لینڈنگ سائٹ پر سورج غروب ہونے کے بعد، بیٹریاں چاند کی سرد رات میں زندہ نہیں رہیں گی۔ لہذا، کمپنی مزید 9 سے 10 دن کی کارروائیوں پر توجہ دےرہی ہے۔


ناسا کا کمرشل لونر پے لوڈ سروسز (سی ایل پی ایس)مشن خلابازوں کو چاند پر بھیجنے کے آرٹیمس پروگرام کا حصہ ہے۔اور انٹیوٹو مشینز (آئی ایم ) کا یہ مشن سی ایل پی ایس کا حصہ ہے، جس میں ایجنسی مختلف نجی امریکی کمپنیوں کو خدمات کے لیے ادائیگی کر رہی ہے۔ اوڈیسیئس کے معاملے میں، ناسا نے 11 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی فیس ادا کی۔ ایسی تمام کمپنیاں اپنے خلائی جہاز کی مالی اعانت، تعمیر، لانچ اور آپریشن کے علاوہ ناسا کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے تجارتی پے لوڈ تلاش کرنے کے لیے ذمہ دار ہیں۔

اس سال کے لیے چھ سی ایل پی ایس مشنوں کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ پہلا، پٹسبرگ میں قائم فرم ’ایسٹروبوٹک‘ کا ناکامی پر اس وقت ختم ہوا جب اس کا پیریگرین لینڈر چاند کے راستے میں تکنیکی مسائل کا شکار ہو گیا ۔ وہ چاند کی سطح پر نہیں اترا بلکہ اس روبوٹ کو زمین کی فضا میں جلانے کے لیے واپس لایا گیا ۔آئی ایم کے 2024 میں مزید دو مشن ہیں۔ اگلے میں چاند کی سطح پر روبوٹ ڈرل (سوراخ) کرتا نظر آئے گا۔ ٹیکساس کی ایک اور کمپنی ’فائر فلائی ایرو اسپیس ‘بھی آنے والے مہینوں میں چاند پر جائے گی ۔

ناسا سی ایل پی ایس کو اپنے سائنس پراجیکٹس کو انجام دینے کا ایک مفید اقتصادی طریقہ سمجھتی ہے اور امید کرتی ہے کہ سی ایل پی ایس پالیسی ایک ترقی پذیر قمری معیشت بن جائے گی۔ ایجنسی کے سائنس مشن ڈائریکٹوریٹ سے تعلق رکھنے والے جوئل کیرنز نے اوڈیسیئس لینڈنگ کو ایک بہت بڑا کارنامہ اور سی ایل پی ایس پالیسی کی تصدیق قرار دیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔