گرمی اور رنگ کا تعلق: نیلا سب سے گرم، لال سب سے ٹھنڈا!
گرم اشیاء سے نکلنے والی روشنی کا رنگ ان کے درجہ حرارت پر منحصر ہوتا ہے۔ جتنا زیادہ درجہ حرارت ہوگا، روشنی کا رنگ لال سے سفید اور پھر نیلا ہوتا چلا جائے گا

علامتی تصویر
ہم سب جانتے ہیں کہ جب کسی چیز کو گرم کیا جاتا ہے تو اس سے روشنی یا ریڈی ایشن خارج ہوتی ہے۔ مثلاً جب کوئی لوہار لوہے کے سیاہ ٹکڑے کو بھٹی میں گرم کرتا ہے تو جیسے جیسے اس کا درجہ حرارت بڑھتا ہے، اس سے نارنجی، پھر لال اور آخر میں سفید رنگ کی روشنی نکلتی ہے۔
سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ کسی بھی چیز سے خارج ہونے والی روشنی کا اس کے درجہ حرارت سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ بات عمومی مشاہدے کا حصہ ہے، لیکن اس کی سائنسی تفصیل کو جاننا بھی نہایت ضروری ہے کیونکہ اسی سمجھ نے نہ صرف ہمیں ستاروں کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کیں بلکہ بیسویں صدی کے کوانٹم انقلاب کی بنیاد بھی رکھی۔
جب کسی شے کو گرم کیا جاتا ہے تو وہ برقی مقناطیسی شعاعیں (ایکٹرومیگنیٹک ریڈیشن) خارج کرتی ہے۔ جتنا درجہ حرارت کم ہوگا، اتنی ہی زیادہ طول موج (ویو لینتھ) کی شعاعیں خارج ہوں گی۔ مثلاً، اگر کوئی شے بہت ٹھنڈی ہو اور ہم اسے گرم کریں تو وہ ریڈیو ویوز خارج کرے گی۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہماری کائنات کا اوسط درجہ حرارت تقریباً 3 کیلون ہے، جس کے باعث مائیکرو ویوز ہر سمت خارج ہو رہی ہیں۔ یہ مائیکرو ویوز 1964 میں حادثاتی طور پر دریافت ہوئیں اور جن سائنس دانوں نے یہ دریافت کی، انہیں نوبل انعام سے نوازا گیا کیونکہ اس سے کائنات کی ابتدا کو سمجھنے میں مدد ملی۔
اگر ہم درجہ حرارت کو مزید بڑھائیں تو شے سے انفرا ریڈ شعاعیں نکلتی ہیں، جنہیں انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی، مگر ہماری جلد انہیں گرمی کے طور پر محسوس کر سکتی ہے۔
جب درجہ حرارت تقریباً 1000 سے 1500 ڈگری سینٹی گریڈ ہو جائے تو خارج ہونے والی شعاعیں ہمیں لال رنگ کی روشنی کی صورت میں نظر آتی ہیں۔ اگر اس سے زیادہ درجہ حرارت ہو تو روشنی کے اسپیکٹرم میں موجود دیگر رنگ بھی ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں، اور جب تمام رنگوں کی توانائی تقریباً برابر ہو جائے تو آنکھ کو وہ روشنی سفید دکھائی دیتی ہے۔ یہ سفید روشنی عموماً 5500 سے 6000 ڈگری سینٹی گریڈ پر نظر آتی ہے، جیسا کہ سورج کی روشنی۔ یہی وجہ ہے کہ سورج کو پیلا دکھانا سائنسی اعتبار سے درست نہیں۔
اگر درجہ حرارت مزید بڑھایا جائے تو روشنی کا رنگ نیلا ہونے لگتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیلے رنگ کی شعاعوں میں زیادہ توانائی ہوتی ہے جبکہ لال روشنی کی توانائی کم ہوتی ہے۔ مثلاً اگر کسی شے کا درجہ حرارت 12,000 سے 15,000 ڈگری سینٹی گریڈ ہو تو وہ ہمیں نیلی دکھائی دے گی کیونکہ اس سے زیادہ تر نیلی شعاعیں خارج ہو رہی ہوں گی۔
مختصراً، جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھتا ہے، شے سے خارج ہونے والی توانائی ریڈیو ویوز سے ہوتی ہوئی مائیکرو ویوز، انفرا ریڈ، لال، نارنجی، سفید، نیلی، ایکس رے اور آخر میں گاما رے کی طرف جاتی ہے۔ ہر درجہ حرارت پر کئی طرح کی روشنی نکلتی ہے، مگر سب سے زیادہ طاقت ایک خاص رنگ کی روشنی میں ہوتی ہے۔ اسی لیے ویلڈنگ کرتے وقت لوہار موٹے چشمے پہنتے ہیں تاکہ نیلی اور الٹرا وائلٹ شعاعوں کی شدید توانائی ان کی آنکھوں کو نقصان نہ پہنچائے۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ لال رنگ کی روشنی والی چیز کا درجہ حرارت عموماً 1000 سے 1500 ڈگری کے درمیان ہوتا ہے جبکہ نیلی روشنی والی چیز کا درجہ حرارت 12,000 سے 30,000 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہو سکتا ہے۔ یعنی نیلا ستارہ، لال یا سفید ستارے کے مقابلے میں کہیں زیادہ گرم ہوتا ہے۔ سائنس کی نظر میں نیلا رنگ بہت زیادہ گرم، سفید درمیانہ اور لال نسبتاً ٹھنڈا ہوتا ہے۔
لیکن یہاں ایک دلچسپ تضاد پیدا ہوتا ہے: جب آرٹسٹ یا عام افراد کسی ٹھنڈی جگہ کی تصویر بناتے ہیں تو وہ نیلا اور سفید رنگ استعمال کرتے ہیں اور اگر کسی گرم مقام، جیسے جہنم کی تصویر ہو، تو وہ گہرے لال رنگ کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کی وجہ انسانی نفسیات اور روزمرہ مشاہدہ ہے، نہ کہ سائنس۔
مثال کے طور پر، آئس کیوب ہمیں نیلا دکھائی دیتا ہے، اس لیے ہم لاشعوری طور پر نیلے رنگ کو ٹھنڈک سے جوڑتے ہیں، حالانکہ نیلا رنگ اس پر پڑنے والی روشنی کے مخصوص حصے کے زیادہ ریفلیکٹ ہونے کی وجہ سے نظر آتا ہے۔
اسی طرح، اکثر باتھ رومز میں گرم پانی کے نل پر لال اور ٹھنڈے پر نیلا نشان لگا ہوتا ہے، جو کہ سائنسی اعتبار سے درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نیلا رنگ زیادہ گرم اور لال رنگ کم گرم ہونے کی علامت ہے۔ یہی ہے رنگوں اور حرارت کے رشتے کی سائنسی کہانی — جو ہمیں کائنات کے راز بتاتی ہے، مگر ہماری روزمرہ عادتوں سے الگ چلتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔