ایل ای ڈی انقلاب: روشنی، گرمی اور توانائی کی بچت کی سائنسی کہانی
شے گرم ہونے پر توانائی ریڈیئٹ کرتی ہے، کم گرم چیزیں انفرا ریڈ خارج کرتی ہیں جبکہ زیادہ گرم سفید یا نیلی روشنی۔ پرانے بلب گرمی اور توانائی ضائع کرتے تھے، جبکہ ایل ای ڈی بلب ٹھنڈے اور ماحول دوست ہیں

علامتی تصویر / اے آئی
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ روشنی اور گرمی کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ اور آخر کیوں پرانے ایڈیسن کے ایجاد کردہ بلب کی جگہ اب ایل ای ڈی بلب نے لے لی ہے؟ یہ صرف ٹیکنالوجی کی ترقی نہیں، بلکہ سائنس کے ایک دلچسپ اصول کی بنیاد پر ممکن ہوا ہے، جس کا تعلق درجہ حرارت، توانائی اور روشنی سے ہے۔
جب ہم کسی بھی چیز کو گرم کرتے ہیں تو وہ توانائی کا اخراج (ریڈی ایشن) کرتی ہے۔ اگر وہ شے بہت ٹھنڈی ہو، تو اس سے صرف ریڈیو ویوز یا مائیکرو ویوز خارج ہوں گی۔ چونکہ کائنات کا درجہ حرارت تقریباً 3 کیلون ہے، اس لیے اس سے صرف مائیکرو ویو اخراج ہوتا ہے، جو ہمیں بگ بینگ کے بعد باقی رہنے والے ریڈیشن کی صورت میں آج بھی ہر طرف سے موصول ہو رہا ہے۔
جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھتا ہے، ویوز کی فریکوئنسی بڑھتی جاتی ہے اور ویو کی لمبائی کم ہوتی ہے۔ مثلاً، جب کوئی چیز کچھ حد تک گرم ہوتی ہے، تو اس سے انفراریڈ شعاعیں نکلتی ہیں۔ یہ شعاعیں ہمیں نظر تو نہیں آتیں لیکن ہم انہیں اپنی جلد سے گرمی کے احساس کی صورت میں محسوس کر سکتے ہیں۔ یہی انفراریڈ شعاعیں رات کے وقت جانوروں کو دیکھنے والے خصوصی چشموں میں استعمال ہوتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے جسم بھی مسلسل انفراریڈ شعاعیں خارج کرتے رہتے ہیں۔
اگر ہم کسی چیز کو مزید گرم کریں تو اس سے روشنی خارج ہونے لگتی ہے، پہلے سرخ، پھر نارنجی اور درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ سفید روشنی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہی وہ اصول ہے جس پر ایڈیسن کا بلب کام کرتا تھا۔ اس بلب کا فلامنٹ اتنا گرم کیا جاتا تھا کہ وہ سفید روشنی خارج کرے لیکن اس کے ساتھ ہی بے تحاشا انرجی انفراریڈ شعاعوں کی صورت میں ضائع ہوتی تھی، جو صرف گرمی پیدا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرانے بلب بہت زیادہ گرم ہو جاتے تھے اور اگر وہ چلتے چلتے خراب ہو جاتے تو انہیں چھونے سے ہاتھ جل سکتا تھا۔
اگر آپ آسمان کی طرف دیکھیں تو ستارے بھی درجہ حرارت کے فرق کی بنیاد پر مختلف رنگوں میں نظر آتے ہیں، نیلے ستارے سب سے زیادہ گرم، سفید درمیانے اور سرخ یا نارنجی سب سے کم گرم ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ نیلے فوٹون زیادہ توانائی کے حامل ہوتے ہیں جبکہ سرخ والے کم۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے روشنی پیدا کرنے کے لیے پرانے گرم بلب کی جگہ ٹھنڈے ایل ای ڈی بلب کیوں اپنائے؟ اس کا جواب ایک انقلابی ایجاد میں پوشیدہ ہے۔
ایل ای ڈی یعنی لائٹ ایمٹنگ ڈائیوڈ ایک ایسا آلہ ہے جو بہت کم توانائی خرچ کرکے روشنی خارج کرتا ہے، وہ بھی بغیر گرم ہوئے۔ مگر ایک مسئلہ تھا، سفید روشنی پیدا کرنے کے لیے ہمیں تین بنیادی رنگوں، سرخ، سبز اور نیلا کی ضرورت ہوتی ہے۔ سرخ ایل ای ڈی 1962 میں اور سبز 1958 میں دستیاب ہو گئی تھی لیکن نیلے رنگ کی ایل ای ڈی بہت دیر سے وجود میں آئی۔
بالآخر 1990 کی دہائی میں تین جاپانی سائنسدانوں نے نیلے رنگ کی کارگر ایل ای ڈی ایجاد کر لی، جس نے روشنی کے میدان میں انقلاب برپا کر دیا۔ ان کی اس اختراعی کوشش کو اتنا اہم سمجھا گیا کہ انہیں 2014 میں نوبل انعام دیا گیا۔
ایل ای ڈی بلب کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ صرف تین خاص فریکوئنسیز سرخ، سبز اور نیلا کی روشنی خارج کرتا ہے، جو ہماری آنکھ سفید روشنی کے طور پر دیکھتی ہے۔ اس میں نیوٹن کے ساتوں رنگوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مزید یہ کہ ایل ای ڈی بلب گرمی پیدا نہیں کرتا کیونکہ اس سے انفراریڈ شعاعیں خارج نہیں ہوتیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انرجی ضائع نہیں ہوتی اور بلب گرم نہیں ہوتا۔
ایک عام 5 واٹ کا ایل ای ڈی بلب، پرانے 60 واٹ بلب جتنی روشنی دے سکتا ہے یعنی تقریباً 20 گنا زیادہ مؤثر۔ اس کے علاوہ، چونکہ پرانے بلب کافی زیادہ گرمی پیدا کرتے تھے، اس لیے ان کا عالمی درجہ حرارت پر بھی اثر پڑتا تھا۔ ایل ای ڈی بلب اس اثر کو کم کرنے میں معاون ہیں۔
لہٰذا، جب بھی آپ ایل ای ڈی بلب کی روشنی میں بیٹھے ہوں، صرف اس کی چمک ہی نہیں بلکہ پس پردہ چھپی سائنسی بصیرت اور اختراعات کو بھی یاد رکھیں۔ ایل ای ڈی نے نہ صرف ہمارے گھروں کو روشن کیا ہے بلکہ بجلی کے بل کو کم اور کرہ ارض کو نسبتاً ٹھنڈا رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
آخر میں ایک سادہ سی بات، جب بھی ایل ای ڈی بلب جلائیں، سائنس کا شکریہ ادا کریں – کیونکہ یہی وہ روشنی ہے جو کم توانائی، کم گرمی اور زیادہ ہوشیاری کے ساتھ روشن ہوتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔