رفتار اور اکسیلریشن: وہ حقائق جو عام طور پر کتابوں میں نہیں ملتے

یہ مضمون بتاتا ہے کہ ہم رفتار کو کیوں محسوس نہیں کرتے، اکسیلریشن کیسے کام کرتا ہے اور حادثات یا موشن سکنیس میں اس کا کیا کردار ہے۔ زیادہ اکسیلریشن جان لیوا ہو سکتا ہے، اس سے ہوشیار رہیں

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>
i
user

وصی حیدر

اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رفتار اور اکسیلریشن (Acceleration) کو ہم بخوبی جانتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سے متعلق کچھ ایسے پہلو بھی ہیں جن پر عام طور پر کتابوں میں بات نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ اس مضمون کو پڑھیں گے تو آپ کو نہ صرف معلومات میں اضافہ ہوگا بلکہ کئی نئی چیزوں کا بھی احساس ہوگا۔

سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم رفتار کو محسوس کیسے کرتے ہیں؟ ہماری زمین اپنی محوری گردش 24 گھنٹوں میں مکمل کرتی ہے اور سورج کے گرد ایک سال میں چکر لگاتی ہے۔ زمین کے اپنی دھری پر گھومنے سے خطِ استوا پر ہر مقام کی رفتار تقریباً 1000 میل (1600 کلومیٹر) فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ اگر آپ دہلی میں ہیں تو آپ کی رفتار تقریباً 1450 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔

اسی طرح سورج کے گرد زمین کی گردش کی رفتار تقریباً 67000 میل (یعنی 100,000 کلومیٹر) فی گھنٹہ ہے، جو کہ 18 میل فی سیکنڈ کے برابر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم گھر میں آرام سے کرسی پر بیٹھے ہوتے ہیں تو بھی ہم اس حیرت انگیز تیز رفتاری سے حرکت کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں اس کا بالکل احساس نہیں ہوتا۔

یہ حقیقت ثابت کرتی ہے کہ جب تک رفتار میں تبدیلی نہ ہو ہمیں اس کا شعور نہیں ہوتا۔ ہم سب اس کا روز تجربہ کرتے ہیں، چاہے کسی ہموار سڑک پر موٹر کار میں سفر کریں یا ہوائی جہاز میں۔ اگر ہم بغیر رفتار اور اس کی سمت بدلے حرکت کر رہے ہوں تو ہمیں اپنی تیز رفتاری کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ ہمارے حواس کی کوئی کمزوری نہیں بلکہ قدرت کا ایک اہم قانون ہے، جسے سب سے پہلے گیلیلیو نے بیان کیا اور بعد میں آئزک نیوٹن نے اس کو اپنے پہلی قانونِ حرکت (فرسٹ لا آف موشن) کی شکل میں پیش کیا۔


سائنس دان ویلوسٹی (رفتار بمع سمت) میں تبدیلی کو اکسیلریشن کہتے ہیں، جو مثبت یا منفی دونوں ہو سکتا ہے۔ جب ہم اپنی سمت یا رفتار بدلتے ہیں تو ہمیں اس کا فوراً احساس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ہوائی جہاز، کار یا ٹرین اچانک چلنا شروع کرے تو ہمیں پیچھے کی طرف جھٹکا لگتا ہے اور جب یہ چلتے چلتے رکنے لگیں تو ہمیں آگے کی طرف جھٹکا محسوس ہوتا ہے۔

اسی لیے تمام گاڑیوں اور ہوائی جہازوں میں سیٹ بیلٹ لگانا ضروری ہے، کیونکہ سفر کے آغاز اور اختتام پر اکسیلریشن سب سے زیادہ ہوتا ہے اور جھٹکے سے شدید چوٹ لگ سکتی ہے۔ جب ہوائی جہاز اپنی بلندی پر پہنچ کر یکساں رفتار سے چل رہا ہوتا ہے تو اس وقت کوئی اکسیلریشن نہیں ہوتا، اسی لیے آپ سیٹ بیلٹ کھول سکتے ہیں لیکن جیسے ہی جہاز اترنے لگتا ہے تو اس کی رفتار کم کرنے کے لیے منفی اکسیلریشن ہوتا ہے، جس کی وجہ سے آگے کی طرف دھکا لگتا ہے۔ اسی لیے لینڈنگ کے دوران سیٹ بیلٹ لازمی لگائی جاتی ہے تاکہ جھٹکے سے محفوظ رہا جا سکے۔

یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ کیونکہ جب ہم یکساں رفتار سے بغیر تبدیلی حرکت کر رہے ہوتے ہیں تو ہمارا جسم کسی تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ سائنس دان اس رجحان کو انرشیا (Inertia) کا نام دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو موٹر کار کے سفر کے دوران قے یا متلی جیسی کیفیت محسوس ہوتی ہے جسے عام طور پر موشن سکنیس (Motion Sickness) کہا جاتا ہے لیکن اصل میں یہ نام درست نہیں۔ یہ تمام کیفیت اکسیلریشن کی وجہ سے ہوتی ہے، اس لیے اس کا صحیح نام اکسیلریشن سکنیس ہونا چاہیے۔

نیوٹن کا پہلا قانون یہ بھی بتاتا ہے کہ اکسیلریشن صرف اس وقت پیدا ہوگا جب کسی مادی چیز پر کوئی فورس عمل کرے۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس سمت میں اکسیلریشن ہوگا اسی سمت میں فورس بھی لگ رہا ہوگا۔ نیوٹن کا دوسرا قانون یہ وضاحت کرتا ہے کہ اکسیلریشن کو ماس سے ضرب دینے سے فورس حاصل ہوتی ہے۔


یعنی اگر فورس زیادہ ہوگی تو اکسیلریشن بھی زیادہ ہوگا اور اگر اکسیلریشن زیادہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ زیادہ فورس کام کر رہی ہے۔ اسی طرح اگر کسی چیز پر کوئی فورس نہ ہو تو نہ رفتار بدلے گی اور نہ ہی سمت، یعنی وہ چیز یا تو یکساں حرکت کرتی رہے گا یا پھر اپنی جگہ رکی رہے گی۔

اکسیلریشن کی ایک اور اہم قسم وہ ہے جسے ہم سب روز محسوس کرتے ہیں، خاص طور پر جب کسی بلندی سے کوئی چیز گرتی ہے اور زمین سے ٹکراتی ہے۔ اس کو زمینی کشش کہا جاتا ہے، جس کی مقدار ہر چیز کے لیے تقریباً 10 m/s² ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کی رفتار ہر سیکنڈ میں 10 میٹر فی سیکنڈ سے بڑھتی جائے گی۔ مثال کے طور پر اگر کوئی چیز 5 سیکنڈ تک گرتی رہے تو اس کی رفتار 50 m/s ہو جائے گی۔

فرض کریں کہ یہ چیز زمین سے ٹکراتی ہے اور زمین سے ٹکرا کر رکنے میں آدھا سیکنڈ لیتی ہے، تو اس کا منفی اکسیلریشن 100 m/s² ہوگا۔ یہ زمین کی کشش کے اکسیلریشن سے دس گنا زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹکر کے لمحے پر اس چیز پر لگنے والا فورس زمین پر ساکن ہونے کی حالت سے دس گنا زیادہ ہوگا۔

اگر یہ گرنے والی چیز انسان ہو تو اتنی زیادہ فورس کی وجہ سے جسم کی کوئی ہڈی محفوظ نہیں رہ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ تیز رفتار حادثات جیسے ہوائی جہاز کے گرنے یا کسی تیز رفتار کار کے اچانک رکنے پر ہلاکتیں ہوتی ہیں، کیونکہ اکسیلریشن میں اچانک اور شدید تبدیلی جسم کو برداشت نہیں ہوتی۔

اس مضمون کا خلاصہ یہی ہے کہ اگر آپ کو اپنی جان پیاری ہے تو زیادہ اکسیلریشن سے ہمیشہ ہوشیار رہیں۔ چاہے سفر میں ہوں یا کسی بھی تیز رفتار مشین کے قریب، ہمیشہ حفاظتی اصولوں پر عمل کریں تاکہ حادثات سے بچ سکیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔