کائنات کی سمجھ کی تاریخ (تیسری قسط)... وصی حیدر

آسمان میں بکھرے ہوئے ستارے ہم سے اتنے دور ہیں کہ صرف روشنی کے نقطہ جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ سورج کے علاوہ سب سے نزدیکی ستارہ بھی اتنی دور ہے کہ وہاں کی روشنی ہم تک پہنچنے میں تقریباً 4 سال لگاتی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وصی حیدر

کائنات کی شروعات بہت پرانے زمانے سے بحث کا موضوع رہی ہے۔ یہودی، عیسائی اور اسلامی سمجھ کے مطابق خدا نے ماضی میں کائنات کو ایک خاص وقت پر بنایا۔ عیسائی رہنما ’’اگسٹین‘‘ نے یہ دلیل پیش کی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ترقی پوتی جارہی ہے اور اگر کائنات ہمیشہ سے ہوتی تو ابتک بہت زیادہ ترقی ہوچکی ہوتی؛ اگسٹین نے اس موضوع پر ایک کتاب “The City of God” لکھی۔

اگسٹین نے“The Book of Genesis” کے حوالے سے یہ اندازہ لگایا کہ کائنات تقریباً 5000 سال پہلے خدا نے بنائی۔ دلچسپ بات یہ کہ کائنات کی پیدایش کی تاریخ آخری “ice Age” (10ہزار سال پہلے) سے بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔

اس کے برخلاف ارسطو(384BC-322BC) اور زیادہ تر یونانی فلسفی یہ مانتے تھے کہ کائنات ہمیشہ سے ایسی ہے اور ہمیشہ بغیر کسی تبدیلی کے ایسی ہی رہی رہے گی اور بہت زیادہ ترقی نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قدرتی آفات سیلاب، زلزلے انسانی تہذیب کو بار بار پیچھے ڈھکیل دیتے ہیں جو پھر شروع سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتی ہے۔

جب زیادہ تر لوگ یہ سوچتے تھے کہ کائنات میں وقت کے ساتھ کوئی تبدیلی نہیں ہو رہی ہے تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کائنات ہمیشہ سے ایسی ہی ہے یا ماضی میں کبھی بنی اور ایسا لگتا ہے جیسے یہ ہمیشہ سے ایسی ہی ہے۔ لیکن 1929 میں امریکی مشہور فلکیاتی سائنس داں ایڈون ہبل (1953-1889) کی تجرباتی تحقیقات نے اس سمجھ کو ہمیشہ کے لئے بدل دیا۔ ہبل کے مشاہدات سے یہ ثابت ہوا کہ ہم آسمان میں کسی بھی طرف دیکھیں دور کے سارے ستارے ہم سے تیزی سے اور دور جارہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات وقت کے ساتھ بڑی اور پھیلتی جارہی ہے۔ یعنی کبھی ماضی میں یہ سارے ستارے اور پوری کائنات ایک بہت ہی چھوٹے دائرے میں رہی ہوگی اور شائد یہی کائنات کی شروعات ہوگی اور اگر ستاروں کی یہی رفتار تھی تو ساری کائنات تقریباً 15 بلین سال پہلے ایک نقطہ پر رہی ہوگی۔

ہبل کے مشاہدات سے کائنات کی شروعات کے مسئلہ کو سائنس کے دائرہ میں کھڑا کردیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ تقریباً 15 بلین سال پہلے ایک بڑے دھماکے کے ساتھ کائنات کی شروعات ہوئی۔ اس بیگ بینگ سے پہلے کے واقعات کا موجودہ کائنات پر کوئی اثر نہیں ہوگا اور وقت کی شروعات بھی جبھی سے ہوئی۔ یہ سوچنا بے معنی ہے کہ بیگ بینگ سے پہلے کائنات کیا تھی۔

ہمارا سورج اور پاس کے بہت سے ستارے ایک گروپ(Galaxy) کہکشاں (جس کا نام دودھ گنگاMilky way) کا حصہ ہیں جس میں لاکھوں ستارے ہیں۔ بہت عرصہ تک لوگ اسی کو پوری کائنات سمجھتے تھے۔ ہبل کے مشاہدوں سے 1924 میں یہ معلوم ہوا کہ اسی طرح کی لاکھوں کہکشائیں ہیں اور ان کے بیچ کی دوریوں میں بظاہر خلا ہے۔ ہبل نے 9 کہکشاؤں کی دوری معلوم کی۔

ہم کو اب یہ معلوم ہے کہ ہماری اپنی کہکشاں (Milky way) اتنی بڑی ہے کہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک جانے میں روشنی کو تقریباً ایک لاکھ سال لگتے ہیں اور یہ کہکشاں اپنے محور پر گھوم رہی ہے اور پورا ایک چکر 10 کروڑ سال میں پورا کرتی ہے۔ ہمارا نظام سمشی اس کہکشاں کے باہری کنارے پر Spiralکے ایک بازو پر واقع ہے۔ یہ سمجھ ارسطو اور ٹولمی کے خاکہ سے ایک لمبا سفر طے کرنے کے بعد حاصل ہوئی ہے۔

آسمان میں بکھرے ہوئے ستارے ہم سے اتنے دور ہیں کہ صرف روشنی کے نقطہ جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ سورج کے علاوہ سب سے نزدیکی ستارہ بھی اتنی دور ہے کہ وہاں کی روشنی ہم تک پہنچنے میں تقریباً 4 سال لگاتی ہے۔ ان ستاروں کی شکل اور موٹائی کا اندازہ لگانا دوری کی وجہ سے مشکل کام ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مختلف قسموں کے ستاروں میں ہم کس طرح فرق کر پاتے ہیں۔

نیوٹن نے یہ مشاہدہ اور تجربہ کر کے ثابت کیا کہ اگر سورج سے آنے والی بظاہر سفید روشنی کو اگر پرزم (Prism)سے گزار کر دیکھا جائے تو وہ اپنے اندر موجود رنگوں میں ٹوٹ جاتی ہے۔ بالکل قوس و قزح کی طرح۔ یہ ایک بہت ہی اہم اور کار آمد کھوج تھی۔ اس طرح حاصل ہوئے روشنی کے یہ رنگین حصوں کو اسپکٹرم(Spectrum) کہتے ہیں اور اس میں روشنی کے وہ حصہ بھی (مثلاً Xرےاور گاما رے وغیرہ) بھی ہوتے ہیں جن کو ہماری آنکھ نہیں دیکھ پاتی لیکن ان کی فوٹو گراف لی جاسکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ ہر Element کا اسپکٹرم فرق ہوتا ہے اور اس وجہ سے اسپکٹرم سے اس Element کو پہچانا جاسکتا ہے۔ اس طرح سے اسپکٹرم بالکل ایسا ہی جیسا ہمارے ہاتھ کی انگلیوں (Finger Prints)کے نشان جو ہماری پہچان کے راز کو کھول دیتے ہیں۔

ہیلیم (Helium) کی دریافت سب سے پہلے سورج سے آنے والی روشنی کے اسپکٹرم سے ہی ہوئی تھی۔ مختصراً ستاروں سے آنے والی روشنی باوجود ان کی دوری کے بہت سارے رازوں کو کھول کر رکھ دیتی ہے۔ روشنی کے اسپکٹرم میں مختلف رنگوں کی نسبت چمک سے ستاروں کا درجہ حرارت معلوم ہوجاتا ہے۔ اسپکٹرم میں کچھ رنگ غائب ہوتے ہیں ان کی مدد سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ستارہ میں کون کون سے Element موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ستارہ ہم سے دور جارہا ہو یا پاس آرہا ہو تو اس کی رفتار بھی اسی روشنی سے معلوم کی جاسکتی ہے۔

1920 کے دور میں فلکیاتی سائنسدانوں نے ستاروں سے آنے والی روشنی کے اسپکٹرم کا مشاہدہ کیا تو ان کو بہت ہی حیرت ناک چیز معلوم ہوئی۔ یہ معلوم ہوا کہ سبھی ستاروں سے آنے والی روشنی میں ایک ہی طرح کے رنگ غائب ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان میں موجود ایک ہی طرح کے Element ہیں یعنی یہ ستارے سبھی ایک طرح کی چیزوں سے بنیں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا کہ آنے والی روشنی میں مختلف رنگ سبھی لال رنگ کی طرف تھوڑا کھسکے ہوئے ہیں۔ اس چیز کی صرف ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے کہ یہ سبھی ستارے ہم سے دور جارہے ہیں۔ ان رنگوں کے کھسکنے کی مقدار سے ان کے دور جانے کی رفتار معلوم کی جاسکتی ہے۔ کسی بھی کہکشاں کے سبھی ستارے ایک ہی رفتار سے ہم سے دور جارہے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ پوری کہکشاں ہم سے دور جارہی ہیں۔ اگر وہ ستارے ہمارے پاس آرہے ہوتے تو ان سے آنے والی روشنی کے مختلف رنگ نیلے رنگ کی طرف کھسکے ہوتے۔ رفتار کی وجہ سے رنگوں کا کھسکنا ڈاپلر اثر (Doppler Effect)کہلاتا ہے۔

آواز کی لہروں (Waves) میں میں ڈاپلر اثر (Doppler Effect) کو ہم آسانی سے محسوس کرسکتے ہیں۔ اگر ہم گزرتی ہوئی ایمبولینس کی آواز پر غور کریں۔ جب ایمبولینس ہمارے نزدیک آرہی ہوتی ہے تو اس کی آواز کی لہروں کی فریکونسی بڑھ جاتی ہے اور جب وہ ہم سے دور جارہی ہوتی ہے تو اس کی فریکونسی کم ہوجاتی ہے۔ روشنی کی لہروں میں بھی رفتار کی وجہ سے یہی اثر ہوتا ہے۔ اسی اثر کا استعمال کرکے ریڈیو لہروں کے ذریعہ سڑکوں پر چلنے والی کاروں کی رفتار پولس معلوم کرتی ہے۔

ہبل نے بہت ساری کہکشاؤں کی دوری اور ان کی رفتار معلوم کی۔ جن دنوں یہ مطالعہ ہو رہا تھا زیادہ تر سائنسدانوں کا خیال تھا کہ اوسطاً جتنی کہکشائیں ہم سے دور جارہی ہیں اتنی ہی ہمارے نزدیک آرہی ہوں گی۔ حیرت انگیز بات یہ معلوم ہوئی کہ ہر کہکشاں ہم سے دور جارہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز نتیجہ ہبل نے 1929 میں ایک مقولہ میں بیان کیا۔ معلوم یہ ہوا کہ کہکشاں جتنی دور ہے اتنی ہی تیزی سے دور جارہی ہے۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ کائنات وقت کے ساتھ بڑی اور پھیلتی جارہی ہے اور ماضی میں کہکشاؤں کے بیچ کی دوری کم رہی ہوگی۔ یعنی کائنات ساکت (Static)نہیں ہے جیسا کہ پہلے سوچتے تھے۔

ان مشاہوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ کائنات ساکت نہیں اور ماضی میں تقریباً 15 بلین سال پہلے پوری کائنات ایک نقطہ پر رہی ہوگی اور جب کائنات بہت گھنی (Dense)اور چھوٹی رہی ہوگی۔

کائنات کے بارے میں کچھ اور دلچسپ باتیں اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔