ہندوستان کی ’ویدر وومین‘ انا منی، جنہیں فزکس نہ ملا تو موسمیات میں انقلاب برپا کر دیا!

انا منی، جنہیں ’ویدر وومین آف انڈیا‘ کہا جاتا ہے، نے موسم سے متعلق آلات میں انقلابی تحقیق کی۔ ان کی انتھک محنت نے ہندوستان کو جدید موسمیاتی نظام دینے میں مرکزی کردار ادا کیا

<div class="paragraphs"><p>ویدر وومین آف انڈیا انامنی / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

ریاستِ تروانکور (موجودہ کیرالہ) میں 23 اگست 1918 کو پیدا ہونے والی انا منی کا شمار ان خواتین سائنس دانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے وژن اور انتھک محنت سے ملک کا سر فخر سے بلند کیا۔ آج ہندوستان کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو دنیا کو درست اور فوری موسم کی پیش گوئی فراہم کرتے ہیں۔ یہ کارنامہ برسوں کی تحقیق اور کوششوں کا نتیجہ ہے جس میں انا منی کا کردار نمایاں ہے۔ انہیں بجا طور پر ’ویدر وومین آف انڈیا‘ کہا جاتا ہے۔

بچپن ہی سے انا منی کو کتابوں سے خاص شغف تھا۔ محض بارہ برس کی عمر تک وہ اپنے علاقے کے پبلک لائبریری کی تقریباً تمام کتابیں پڑھ چکی تھیں۔ ہائی اسکول کے بعد انہوں نے ویمنز کرسچن کالج سے انٹرمیڈیٹ سائنس اور پھر مدراس کے پریسیڈنسی کالج سے فزکس اور کیمسٹری میں آنرز کے ساتھ بی ایس سی مکمل کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا اصل خواب میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا تھا لیکن حالات نے رخ بدلا اور وہ فزکس میں آ گئیں، جس میں وہ غیر معمولی صلاحیت رکھتی تھیں۔

انا منی کو 1940 میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، بنگلور میں اسکالرشپ ملی، جہاں انہوں نے نوبل انعام یافتہ سائنس داں سی وی رمن کی نگرانی میں ہیروں کی خصوصیات پر تحقیق کی اور پانچ برس تک دن رات تجربہ گاہ میں کام کیا۔ اس انتھک محنت کے باوجود انہیں وہ پی ایچ ڈی ڈگری نہیں دی گئی جس کی وہ حقدار تھیں کیونکہ اس وقت یونیورسٹی آف مدراس نے یہ شرط لگائی کہ ان کے پاس ایم ایس سی کی ڈگری نہیں ہے۔ مگر انا منی نے اس محرومی کو کبھی دل پر نہیں لیا اور کہا کہ ڈگری نہ ملنے سے ان کی زندگی اور کام پر کوئی اثر نہیں پڑا۔


بعد ازاں انہیں برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپ ملی۔ جب وہ لندن پہنچیں تو معلوم ہوا کہ یہ اسکالرشپ فزکس کے بجائے موسمیاتی آلات کے مطالعے کے لیے ہے۔ انہوں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور یہی فیصلہ ان کے کیریئر کا نیا موڑ ثابت ہوا۔ لندن کے امپیریل کالج میں انہوں نے موسمیاتی آلات کی تیاری اور تحقیق میں مہارت حاصل کی۔

انا منی نے 1948 میں وطن واپسی کے بعد پونے میں انڈین میٹیرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ (ہندوستانی محکمہ موسمیات) میں شمولیت اختیار کی۔ یہاں انہوں نے تقریباً تین دہائیوں تک کام کیا اور درجنوں سائنسی تحقیقی مقالے شائع کیے۔ ان کا سب سے اہم کارنامہ شعاعی اور فضائی اوزون کی پیمائش کے آلات تیار کرنا تھا۔ انہوں نے اوزون سونڈ نامی آلہ بنایا جو اوزون کی مقدار ناپنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

انہی کی کوششوں سے ہندوستان میں موسمی آلات کے قومی معیار قائم ہوئے اور عالمی سطح پر ان آلات کا موازنہ ممکن ہوا۔ ان کے کام نے ملک میں موسم کی پیش گوئی کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا اور کسانوں سے لے کر عام شہری تک سب کے لیے اس کا فائدہ ہوا۔

1976 میں انا منی محکمہ موسمیات کی ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تحقیق سے رشتہ نہ ٹوٹا اور وہ تین برس تک رمن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیتی رہیں۔


ان کی زندگی اس بات کی روشن مثال ہے کہ عزم، مطالعہ اور محنت کے بل بوتے پر کس طرح رکاوٹوں کو مواقع میں بدلا جا سکتا ہے۔ 2001 میں ترواننت پورم (کیرالہ) میں ان کا انتقال ہوا لیکن ان کا سائنسی ورثہ آج بھی ہندوستانی موسمیات کی بنیادوں کو مضبوط کیے ہوئے ہے۔

انا منی کی کہانی صرف ایک سائنس داں کی نہیں بلکہ اس خواب کی ہے جو خواتین کو سائنس اور تحقیق کے میدان میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں، لگن اور علم سے راستے نکالے جا سکتے ہیں۔

(مآخذ: آئی اے این ایس)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔