ایٹمی دھماکوں کے اثرات

جاپانی شہروں ہیروشیما-ناگاساکی پر ایٹمی دھماکوں کے نتیجہ میں دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا، دنیا میں امریکی غلبہ قائم ہوا، سرد جنگ شروع ہوئی اور ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا آغاز ہوا جو ہنوز جاری ہے

<div class="paragraphs"><p>ایٹمی دھماکوں کے اثرات / Getty Images</p></div>

ایٹمی دھماکوں کے اثرات / Getty Images

user

مدیحہ فصیح

دوسری جنگ عظیم (1939-45) کے دوران 6 اگست 1945 کو ایک امریکی بمبار طیارہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر دنیا کا پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ دھماکے سے ایک اندازے کے مطابق 80000 افراد فوری طور پر ہلاک ہوئے۔ مزید دسیوں ہزار بعد میں تابکاری کا شکار ہوئے۔ تین دن بعد 9 اگست کو دوسرے بمبار نے ناگاساکی پر ایک اور ایٹمی بم گرایا، جس سے ایک اندازے کے مطابق 40000 افراد ہلاک ہوئے۔ نتیجتاً جاپان کے شہنشاہ ہیروہیتو نے 15 اگست کو ایک ریڈیو خطاب میں ’ایک نئے اور انتہائی ظالمانہ بم‘ کی تباہ کن طاقت کا حوالہ دیتے ہوئے دوسری جنگ عظیم میں اپنے ملک کے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا۔ اس تباہ کن جنگ کے خاتمے کو 78 سال ہو گئے ہیں۔

امریکی ایٹمی پروگرام: مین ہٹن پروجیکٹ

دوسری جنگ عظیم شروع ہونے سے پہلے، 1939 میں امریکی سائنسدانوں کا ایک گروپ ، جن میں یورپ میں فاشسٹ حکومتوں کے پناہ گزین بھی شامل تھے ، نازی جرمنی میں جوہری ہتھیاروں کی تحقیق کے بارے میں فکر مند ہو گئےتھے۔ 1940 میں، امریکی حکومت نے اپنے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو شروع کیا، جو دوسری جنگ عظیم میں امریکی داخلے کے بعد سائنسی تحقیق اور ترقی کے دفتر اور جنگی محکمے کی مشترکہ ذمہ داری کے تحت آیا۔ یو ایس آرمی کور آف انجینئرز کو ٹاپ سیکرٹ پروگرام کے لیے ضروری سہولیات کی تعمیر کا کام سونپا گیا تھا، جس کا کوڈ نام ’دی مین ہٹن پروجیکٹ‘تھا۔

اگلے کئی سالوں میں سائنسدانوں نے نیوکلیئر فِشن کے لیے کلیدی مواد یعنی یورینیم اور پلوٹونیم تیار کرنے پر کام کیا۔ انہوں نے انہیں لاس الاموس، نیو میکسیکو بھیجا، جہاں جے رابرٹ اوپین ہائیمر کی قیادت میں ایک ٹیم نے ان مواد کو قابل عمل ایٹم بم میں تبدیل کرنے کے لیے کام کیا۔ 16 جولائی 1945 کی صبح ، مین ہٹن پروجیکٹ نے نیو میکسیکو کے الموگورڈو میں واقع تثلیث ٹیسٹ سائٹ پر ایک ایٹمی ڈیوائس — ایک پلوٹونیم بم — کا پہلا کامیاب تجربہ کیا۔


جاپانیوں کو ہتھیار ڈالنے کی دھمکی

اس ایٹمی تجربہ کے وقت تک اتحادی طاقتیں جرمنی کو یورپ میں شکست دے چکی تھیں۔ تاہم، جاپان نے بحرالکاہل میں تلخ انجام تک لڑنے کا عزم ظاہر کیا، واضح اشارے کے باوجود (1944 کے اوائل میں) کہ ان کے جیتنے کے امکانات بہت کم تھے۔ اپریل 1945 کے وسط (جب صدر ہیری ٹرومین نے عہدہ سنبھالا) اور جولائی کے وسط کے درمیان ،جاپانی افواج کے ذریعے اتحادی افواج کی ہلاکتیں بحرالکاہل میں تین سال تک جاری رہنے والی جنگ کاتقریباً نصف تھیں ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شکست کے امکان نے جاپان کو اور بھی زیادہ مہلک بنا دیاتھا۔ جولائی کے آخر میں، جاپان نے پوٹسڈیم اعلامیہ میں پیش کردہ ہتھیار ڈالنے کے اتحادیوں کے مطالبے کو مسترد کر دیا، اعلامیہ میں دھمکی دی گئی تھی کہ انکار کی صورت میں اتحادی جاپان کو مکمل تباہ کر دیں گے۔

اس صورتحال میں جنرل ڈگلس میک آرتھر اور دیگر اعلیٰ فوجی کمانڈروں نے جاپان پر روایتی بمباری کو جاری رکھنے کی حمایت اور ایک بڑے حملے کی پیروی کی، جسے ’آپریشن ڈاؤن فال‘ کا نام دیا گیا تھا۔ انہوں نے امریکی صدرکو مشورہ دیا کہ اس طرح کے حملے کے نتیجے میں دس لاکھ تک امریکی ہلاکتیں ہوں گی۔ ہنری اسٹمسن، جنرل ڈوائٹ آئزن ہاور اور مین ہٹن پروجیکٹ کے متعدد سائنسدانوں کے اخلاقی تحفظات کے باوجود، اتنی زیادہ ہلاکتوں سے بچنے کے لیے، ٹرومین نے ایٹم بم کے استعمال کا فیصلہ اس امید میں کیا کہ اس طرح جنگ کافوری اختتام ہوجائےگا-بم کے حامیوں جیسے ٹرومین کے وزیر خارجہ جیمز بائرنس کا خیال تھا کہ ایٹمی بم کی تباہ کن طاقت نہ صرف جنگ کا خاتمہ کرے گی بلکہ دنیا میں امریکہ کو ایک غالب پوزیشن فراہم کرے گی۔

’لٹل بوائے‘ اور ’فیٹ مین‘

ٹوکیو سے تقریباً 500 میل کے فاصلے پر واقع تقریباً 350,000 لوگوں کا مینوفیکچرنگ مرکز ہیروشیما کو پہلے ہدف کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ بحرالکاہل کے جزیرے ٹنیان پر امریکی اڈے پر ، 9000 پاؤنڈ سے زیادہ کا یورینیم-235 بم ایک ترمیم شدہ B-29 بمبار پر لادا گیا۔ طیارے نے صبح 8:15 پر پیراشوٹ کے ذریعے بم’لٹل بوائے‘کوگرایا جو ہیروشیما سے 2000 فٹ اوپر12-15000 ٹن TNT کے برابر دھماکے میں پھٹ گیا۔ اس دھماکہ سے شہر کا پانچ مربع میل تباہ ہو گیا۔

ہیروشیما کی تباہی فوری طور پر جاپانی ہتھیار ڈالنے میں ناکام رہی۔ 9 اگست کو ایک اور B-29 بمبار کو ٹنیان سے اڑایا گیا۔ اس کا بنیادی ہدف، کوکورا شہرتھا لیکن گھنے بادلوں نے بمبار کو ثانوی ہدف ناگاساکی پہنچا دیا جہاں صبح 11:02 پر پلوٹونیم بم ’فیٹ مین‘ گرایا گیا۔ ہیروشیما میں استعمال ہونے والے بم سے زیادہ طاقتور، اس بم کا وزن تقریباً 10,000 پاؤنڈ تھا اور اسے 22 کلوٹن کے دھماکہ کے لیے بنایا گیا تھا۔ ناگاساکی ٹپوگرافی، جو پہاڑوں کے درمیان تنگ وادیوں میں واقع تھی، نے بم کے اثر کو کم کر دیا، جس سے تباہی 2.6 مربع میل تک محدود ہو گئی۔


بمباری کے بعد کا نتیجہ

جاپانی شہنشاہ ہیروہیتو نے 15 اگست 1945 کو ایک ریڈیو خطاب میں اپنے ملک کے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا۔ اس خبر کے بعد’جاپان میں فتح‘ کی تقریبات پورے امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک میں شروع ہو گئیں۔ ہتھیار ڈالنے کے رسمی معاہدے پر 2 ستمبر کو، ٹوکیو بے میں لنگر انداز امریکی جنگی جہاز میسوری پر دستخط کیے گئے۔

ہیروشیما اور ناگاساکی پر بمباری سے دونوں شہروں کا زیادہ تر بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو گیا اور ان سے ہونے والی ہلاکتوں کی صحیح تعداد نامعلوم ہے۔ تاہم، اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان دھماکوں اور تابکاری کے طویل مدتی مضر اثرات سے ہیروشیما میں تقریباً 70,000 سے 135,000 افراد اور ناگاساکی میں 60,000 سے 80,000 افراد ہلاک ہوئے۔

علاوہ ازیں ہیروشیما اور ناگاساکی ایٹمی دھماکوں نے سرد جنگ اور دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ جیسے عالمی اثرات کو بھی جنم دیا۔ سرد جنگ ایک ایسی دشمنی تھی جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی دو سپر پاورز یعنی امریکہ اور سوویت یونین کے ساتھ ساتھ ان کے متعلقہ اتحادیوں کو سیاسی، اقتصادی اور جوہری برتری کے لیے لڑتے دیکھا۔

اس وقت دنیا میں 9 ممالک ایسے ہیں جن کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ وہ ہیں روس، امریکہ، چین، فرانس، برطانیہ، ہندوستان، پاکستان، شمالی کوریا اور اسرائیل۔ ان میں سے اسرائیل نے کبھی بھی کسی جوہری تجربہ کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔ حالانکہ ہیروشیما اور ناگاساکی کے بعد ایٹمی ہتھیاروں کو جنگ میں استعمال نہیں کیا گیا ہے لیکن اگر ان کا استعمال آئندہ کسی جنگ میں ہوتا ہےتو انسان و جاندار زندہ نہیں رہ سکیں گے اور پوری دنیا کا صفایا ہو جائے گا۔


ایٹمی ہتھیار سے زیادہ تباہی اور اموات

ایک ایٹمی ہتھیار کسی شہر کو تباہ کر سکتا ہے اور اس کے زیادہ تر لوگوں کو ہلاک کر سکتا ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کے بم دھماکے اس کی اہم مثالیں ہیں۔ جدید شہروں پر جوہری دھماکوں یادو ممالک کے درمیان ایک بڑی ایٹمی جنگ سے کروڑوں ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔

عام شہری سب سے بڑا شکار

جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے ہونے والی تباہی صرف فوجی اہداف تک محدود نہیں رہ سکتی۔ جوہری حملے سے زیادہ تر ہلاکتیں عام شہریوں کی ہوتی ہیں۔ لوگ جوہری دھماکے اور اس کے نتیجے میں تابکاری سے یا تو مارے جاتے ہیں یا طویل مدتی صحت کے اثرات کا شکار ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ پڑوسی شہروں یا ممالک میں رہنے والے بھی ایٹمی دھماکے کے اثرات سے دوچار ہوں گے۔جوہری ہتھیار عام شہریوں اور عسکریت پسندوں کے درمیان فرق نہیں کرسکتے ، دوسرے جوہری دھماکوں پر کنٹرول نہ ہونا انھیں غیر انسانی ہتھیاروں کی ایک بہترین مثال بناتا ہے جسے غیر قانونی قرار دینے کی ضرورت ہے۔

تابکاری بیماری، ماحولیاتی آلودگی اور قحط کا باعث

جوہری ہتھیار آئنائزنگ تابکاری پیدا کرتے ہیں ، جو رابطہ میں آتا ہے یہ ان لوگوںکو مار دیتی ہے یا بیمار کرتی ہے، ماحول کو آلودہ کرتی ہے، اور کینسر اور جینیاتی نقصان سمیت طویل مدتی صحت کے اثرات مرتب کرتی ہے۔ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا بھی ماحول پر اثر پڑتا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے دھماکہ خیز مواد کی پیداوار دیرپا تابکار آلودگی کا باعث بنتی ہے۔

دنیا میں ایک فیصد سے بھی کم جوہری ہتھیاروں کا استعمال عالمی آب و ہوا میں خلل ڈال سکتا ہے اور تقریباً دو ارب افراد کو جوہری قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امریکہ اور روس کے پاس موجود ہزاروں جوہری ہتھیار ایک جوہری موسم سرما کا باعث بن سکتے ہیں، جو ضروری ماحولیاتی نظام کو تباہ کر سکتے ہیں جن پر تمام زندگی کا انحصار ہے۔


متاثرین کو انسانی امداد فراہم کرنا مشکل

انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کوئی مدد فراہم کرنا مشکل ہوگا ۔ معالجین اورامدادی عملہ تابکاری سے آلودہ علاقوں میں کام کرنے سے قاصر ہوں گے۔ جوہری جنگ پہلے سے موجود کسی بھی امدادی نظام کو مغلوب کر دے گی اوربے گھر پناہ گزینوں کا ایسابحران پیدا کرے گی جس کا ہم نے کبھی تجربہ نہیں کیا ہے۔

محدود وسائل جوہری ہتھیاروں پر خرچ

اس حقیقت سے آشنا ہوتے ہوئے بھی کہ جوہری ہتھیار صحت اور ماحولیات کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچاتے ہیں، دنیا کے کئی ممالک عوامی فنڈز کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ ترقیاتی و فلاہی پروگراموں کو ترجیح دینے کے بجائے اپنے محدود وسائل جوہری ہتھیاروں پر خرچ کر رہے ہیں اور یوں اہم سماجی خدمات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔