ڈیجیٹل دنیا: لڑکیوں کی ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی ضروری
ڈیجیٹل دنیا میں صنفی مساوات کے لیے لڑکیوں کو ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی، تعلیم میں سرمایہ کاری اور تربیت کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا کے مضر اثرات اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں لڑکیوں کی کم نمائندگی بھی رکاوٹ ہے

تصویر اے آئی
ڈیجیٹل دنیا میں صنفی عدم مساوات کا خاتمہ کرنے کے لیے لڑکیوں کو ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی دینا ضروری ہے، اس کام کے لیے تعلیمی شعبے میں مزید سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ دنیا بھر میں پائی جانے والی ڈیجیٹل تفریق کے باعث ٹیکنالوجی کے میدان میں خواتین اور لڑکیوں کی کئی نسلوں کے پسماندہ رہ جانے کا خدشہ ہے۔ اس خدشہ کا اظہار ہنگامی حالات اور طویل بحرانوں میں تعلیم کی فراہمی پر اقوام متحدہ کے عالمی فنڈ 'ایجوکیشن کین ناٹ ویٹ' (تعلیم انتظار نہیں کر سکتی) کی ڈائریکٹر یاسمین شریف نے کیا ہے۔ انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشنز ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) یا معلومات اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کے شعبے میں لڑکیوں کے عالمی دن کے موقع پر انہوں نے کہا کہ مسلح تنازعات، موسمیاتی تبدیلی اور جبری نقل مکانی کا سامنا کرنے والے علاقوں میں یہ تقسیم اور بھی نمایاں ہے جسے ختم کرنے اور لڑکیوں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں لڑکوں کے مساوی مواقع کی فراہمی کے لیے خاطر خواہ مالی وسائل کی دستیابی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس تبدیلی کے لیے تعلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے، لڑکیوں کو وہ تربیت، ہنر اور وسائل فراہم کیے جائیں جن کی انہیں ڈیجیٹل انقلاب کا حصہ بننے کے لیے ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) کے مطابق، دنیا بھر میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد تقریباً 24 کروڑ تک کم ہے۔ اس طرح تعلیم، روزگار کے مواقع اور اختراعات تک ان کی رسائی بھی محدود ہے۔ براعظم افریقہ میں سماجی پابندیوں، لاگت اور نقل و حرکت کی رکاوٹوں کے باعث بہت سی لڑکیاں ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل تعلیم سے محروم رہتی ہیں۔ ذیلی صحارا افریقہ میں ’اسپریڈ شیٹ‘ کے استعمال سے آگاہی رکھنے والے ہر ایک سو مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد محض چالیس ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اس خطے میں 90 فیصد نو عمر لڑکیاں اور نوجوان خواتین انٹرنیٹ سے محروم ہیں۔ یعنی ہر 10 میں سے 9 کو انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات اور مواقع تک رسائی نہیں مل رہی۔ اگر لڑکیوں کو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ میٹکس (ایس ٹی ای ایم) میں تعلیم کے مواقع میسر ہوں تو ان کی زندگی میں نمایاں تبدیلی آ سکتی ہے۔
اس ضمن میں یاسمین شریف نے ’افغان گرلز روبوٹکس ٹیم‘ کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے (ایس ٹی ای ایم) کی تعلیم کے ذریعے روبوٹ بنانا اور پروگرام تخلیق کرنا سیکھا اور سائنس و انجینئرنگ میں نئی مہارتیں حاصل کیں۔ اس طرح وہ دنیا بھر میں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے سے وابستہ لڑکیوں کی سفیر بن گئی ہیں۔ 'ایجوکیشن کین ناٹ ویٹ' کی 'عالمی چیمپئن' سومیہ فاروقی کے زیرقیادت ان لڑکیوں نے رکاوٹیں توڑ کر اپنا مقصد حاصل کیا ہے اور وہ دنیا بھر کی لاکھوں لڑکیوں کے لیے بھی انٹرنیٹ تک رسائی اور ٹیکنالوجی میں کیریئر بنانے کی راہ ہموار کریں گی۔
سوشل میڈیا کے مضر اثرات
دریں اثنا، یونیسکو کی گلوبل ایجوکیشن مانیٹر (جی ای ایم) کی ایک رپورٹ میں نوجوان لڑکیوں پر سوشل میڈیا کے مضر اثرات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ 24 اپریل کو جاری ہونے والی اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اور الگورتھم سے چلنے والے سافٹ ویئر - خاص طور پر سوشل میڈیا - پرائیویسی پر حملے، سائبر دھونس جمانے یا ہراساں کرنے اور نوجوان لڑکیوں کو سیکھنے یا تعلیم سے دور ہٹانے کے خطرات پیش کرتے ہیں۔ اس رپورٹ ٹیم کی ایک سینئر تجزیہ کار، اینا ڈی ایڈیو کے مطابق، تعلیم میں ٹیکنالوجی کے معاملے کو صنفی عینک سے جانچا گیا ہے۔ رپورٹ میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے میں پیش رفت کو اجاگر کیا گیا ہے، لیکن لڑکیوں کی تعلیم کے مواقع اور نتائج پر ٹیکنالوجی کے منفی اثرات کو بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ آن لائن ہراساں کیے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے، ڈی اڈیو نے کہا، سوشل میڈیا پر لڑکیوں کو ہراساں کرنے کی مختلف شکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں میں سائبر بلنگ یا دھونس بہت زیادہ اثرانداز ہوتی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو ان کی صحت کو متاثر کرتی ہے، جبکہ تندرستی تعلیم حاصل کرنے یا سیکھنے کے لیے اہم ہے۔
یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی ٹیلی کام ایجنسی - انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین (آئی ٹی یو) کی قیادت میں آئی سی ٹی ڈے میں لڑکیوں کے بین الاقوامی دن جاری کی گئی۔ اس موقع پر ایک ٹویٹر پوسٹ میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیریس نے نشاندہی کی کہ مردوں کے مقابلے میں کم خواتین کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے اور یہ ان کے کام کے مساوی مواقع حاصل کرنے کی راہ میں حائل ہے۔ لہٰذا انہوں نے انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) کے شعبے میں لڑکیوں کے لیے مزید آلات اور معاونت کا مطالبہ کیا۔
ذہنی صحت اور تندرستی
گلوبل ایجوکیشن مانیٹر (جی ای ایم) کی رپورٹ کے مطابق، سوشل میڈیا نوجوان لڑکیوں کو جنسی مواد سمیت غیر مناسب ویڈیو مواد فراہم کرتا ہے، اور غیر صحت مند اور غیر حقیقی جسمانی معیارات کو فروغ دیتا ہے جو ذہنی صحت اور تندرستی کو منفی طور پر متاثر کرتے ہیں۔ نو عمر لڑکیوں میں لڑکوں کے مقابلے تنہائی محسوس کرنے کا امکان دوگنا ہوتا ہے اور وہ کھانے کے عوارض کا شکار ہوتی ہیں۔ ڈی اڈیو کے مطابق، شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی نمائش کا تعلق دماغی صحت کے مسائل، کھانے کے عوارض اور بہت سے دوسرے مسائل سے ہے جو سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں اور خاص طور پر لڑکیوں کی توجہ تعلیم سے دور کرتے ہیں اور ان کی تعلیمی کامیابی کو متاثر کرتے ہیں۔
رپورٹ میں شامل ’فیس بک‘ کے اعدادوشمار کے مطابق، ’انسٹاگرام‘ پر مبینہ طور پر 32 فیصد نو عمر لڑکیوں نے پلیٹ فارم کے مواد کو استعمال کرنے کے بعد اپنے جسم کے بارے میں بدتر محسوس کیا ہے۔ اس کے برعکس، ڈی اڈیو اس بات پر زور دیتی ہیں کہ سوشل میڈیا کا استعمال نوجوان لڑکیوں پر مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے، خاص طور پر جب اسے علم میں اضافہ اور سماجی مسائل پر بیداری پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ان کی رائے میں سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کا طریقہ سکھانا ضروری ہے۔
بہتر تعلیم، قوانین و ضوابط کی ضرورت
رپورٹ میں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ لڑکیوں کو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ میٹکس (ایس ٹی ای ایم) کیرئیر تک رسائی حاصل کرنا دشوار ہے، جو کہ جدید ٹیکنالوجی کی تیاری اور ترقی میں تنوع کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ یونیسکو انسٹی ٹیوٹ برائے شماریات کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین عالمی سطح پر ایسے (ایس ٹی ای ایم) گریجویٹز میں صرف 35 فیصد ہیں اور صرف 25 فیصد سائنس، انجینئرنگ اور انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشنز ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) ملازمتیں رکھتی ہیں۔ ڈی اڈیو کے مطابق، ابھی بھی بہت کم لڑکیاں اور خواتین ہیں جو (ایس ٹی ای ایم)مضامین کا انتخاب کرتی ہیں اور وہاں کام کرتی ہیں۔ رپورٹ کے نتائج تعلیم میں زیادہ سرمایہ کاری اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے بہتر ضابطے کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں۔
بہرحال، یونیسکو تعلیم کے نظام کو مزید جامع بنانے والی پالیسیوں کی وکالت کرتے ہوئے، ایسے قوانین اور ضوابط کو فروغ دے کر جو لڑکیوں کے لیے تعلیم تک مساوی رسائی کی ضمانت دیتے ہیں اور انہیں امتیازی سلوک سے محفوظ رکھتے ہیں، لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کے لیے مسلسل کام کر رہا ہے۔ یونیسکو کے مطابق، ٹیکنالوجی کے شعبے میں خواتین کی تعداد کو دو گنا کر کے 2027 تک دنیا کے جی ڈی پی میں 600 ارب یورو تک اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس مقصد کے لیے بعض رکاوٹوں کو دور کرنا ضروری ہے۔ اس ضمن میں شمالی دنیا کے وسائل سے کام لیتے ہوئے ایشیا، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور لاطینی امریکہ سمیت دنیا بھر کی لڑکیوں کو ٹیکنالوجی سے کام لینے کے قابل بنانا ہو گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔