کائنات  کا ارتقاء،اسٹیفن ہاکنگ کی نگا ہوں سے — (حصہ دوئم)

Getty Images
Getty Images
user

وصی حیدر

1920 کے اڈون ہبل (Edwin Hubble)کے مشاہدہ سے یہ ثابت ہوا کہ آسمان میں ستارے مختلف کہکشاؤں میں بکھرے ہوئے ہیں اوریہ تما م کہکشائیں ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں اور 15 ارب سال پہلے کائنات ایک نقطہ سے عظیم دھماکہ (Big Bang) سے شروع ہوئی۔

بہت سارے سائنسداں کائنات کی اس طرح کی شروعات سے مطمئن نہیں تھے کیونکہ کائنات کا سارا مادہ ایک نقطہ پر ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ اس وقت علم طبیعات کے سارے قوانین بیکار ہو جائیں گے اور کائنات کو شروع کر نے کے لئے دیوی دیوتاؤں کی ضرورت ہو گی۔ اس بات سے بچنے کے لئے ایسے کئی نظریات آئے جس میں یہ تو ماننا پڑا کہ کائنات ابھی تو وقت کے ساتھ پھیلتی اور بڑی ہوتی جا رہی ہے لیکن اس کی شروعات ایک نقطہ نہ تھی ۔بانڈی، گولڈ اور ہوائل (Bondi, Gold & Hoyel) نے ایک ایسا مقولہ 1948 میں پیش کیا جو Steady State Theoryکے نام سے مشہور ہوا۔ اس نظریہ کے مطابق کہکشائیں جیسے جیسے دور ہوتی جا رہی ہیں وہ نئی کہکشائیں بنتی جا رہی ہیں اس مادہ سے جو کائنات میں برابر بن رہا ہے۔ اس وجہ سے کائنات وقت کے ساتھ نہیں بدلے گی۔ اس مقولہ کی یہ پیشین گوئی بہت اہم تھی کیو نکہ اس کو مشاہدہ کی کسوٹی پر پرکھا جا سکتا ہے۔

کیمبرج یو نیورسٹی کے مارٹن رائل کی قیادت میں ریڈیو لہروں (Radio waves) کے تحقیقاتی گروپ نے ان پر انے ستاروں کا سروے کیا جن سے ریڈیو لہریں آتی ہیں۔ یہ ستارے آسمان میں یکساں بکھرے ہوئے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان میں سے بیشتر ستارے ہما ری کہکشاں (Milky Way)کے باہر ہیں۔ کمزور ستارے اوسطاً دور پائے گئے۔ہو ئل کی Steady State Theoryان ستاروں کی تعداد اور قوت کے بارے میں خاص پیشین گوئی کر تی ہے سروے کے مشاہدہ سے یہ معلوم ہوا کہ ان ستاروں کی تعداد امید سے کہیں زیادہ ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ماضی میں زیادہ ستارے پاس پاس تھے اس طرح Steady State Theoryکی یہ پیشین گوئی غلط ثابت ہوئی۔اور بھی کئی وجوہات کی بنا پر ہوائل کی Theory کو سائنس دانوں نے ترک کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں... https://www.qaumiawaz.com/science-technology/universe-formation-view-of-stephen-hawkins

کائنات کبھی ایک نقطہ سے شروع ہوئی تھی اس بات سے بچنے کے لئے ایک اور کوشش کی گئی ۔ 2 روسی سائنسداں khalatinikovاورLifshitz نے یہ نظریہ پیش کیا کی ماضی میں کائنات سکڑ رہی تھی اور کہکشاں کے گھومنے کی وجہ سے سارہ مادہ ایک نقطہ پر اکٹھا نہیں ہوا اور ساری کہکشائیں ایک دوسرے کے پاس ہو کر نکل گئیں اور کائنات پھر پھیلنے لگی۔ اس طرح سے کائنات ہمیشہ سے پھیلتی اور سکڑتی رہے گی۔

جن دنوں یہ بحث چل رہی تھی اس وقت اسٹیفن ہاکنگ علم طبیعات میں ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرنے کے کسی اچھے مو ضوع کی تلاش میں تھے۔ ان کو لفشنر کے ثبوتوں میں بہت ساری کمیاں دکھائی دیں۔ انھوں نے اکسفورڈ یو نیورسٹی کے پروفیسر راجر پنروڑ کے ساتھ مل کر یہ ثابت کیا کہ اگر انسٹائٹن کی Theory of Relativityصحیح ہے تو ماضی میں کائنات یقیناً ایک نقطہ سے شروع ہوئی اور اس وقت مادہ کا گھنا پن اور گھماؤ لا محدوود تھا۔ اس اہم بات کے معلوم ہونے کے چند ہی دنوں بعد اکتوبر 1965 میں ایک بہت ہی کا ر آمد مشاہدہ سامنے آیا جس سے ہاکنگ کے مقولہ کو بہت تقویت پہنچی۔ یہ معلوم ہو اکہ کائنات میں چاروں طرف مائکرو لہریں پھیلی ہوئیں ہیں۔ یہ لہریں اسی قسم کی ہیں جیسی کی گھر میں استعمال ہونے والی Microwave Oven میں ہو تی ہیں۔بلکہ اس سے بھی بہت کمزور ہیں ۔ ہم ان لہروں کو آسانی سے دیکھ سکتے ہیں ۔ اگر ٹیلی وزن کو کسی خالی چینل پر لگائیں تو اسکریں پر بارش جیسی چیز اسی مائکرو لہروں کی وجہ سے دکھائی دیتی ہیں۔کائنات کے شروعاتی دور میں جب مادہ بہت گرم اور گھنا تھا وہی اس مائکرو لہروں کی جڑ ہیں۔جیسے جیسے کائنات پھیلتی گئی یہ لہریں بڑی ہو تی گئیں ۔ ان باتوں کا خلاصہ یہ کہ ہاکنگ اور پنیروز (Penrose)کا تحقیقاتی نتیجہ یہ تو ثابت کر تے ہیں کہ کائنات کی شروعات ایک عظیم دھماکہ (Big Bang)سے ہوئی لیکن ایسا کیوں ہوا یہ وہ نہیں بتا پائے ۔

انسٹائین (Einstein)کے مقو لہ کائنات کے شروعاتی دور میں اکیلے یہ نہیں بتا سکتے کہ کائنات کیسے شروع ہوئی کیونکہ شروع میں پوری کائنات تقریباً ایک نقطہ کے برابر تھی ۔ 20 ویں صدی میں علم طبیعات (Physics)کی تحقیقات نےیہ ثابت کر دیا کہ بہت چھوٹے پیمانے یعنی ایٹم یا Nucleusکےپیمانے پر سمجھنے کے لئے قوانٹم قوانین کا استعمال ضروری ہےاور انسٹائٹن کے مقولہ میں اس کی شمولیت نہیں ہے۔ قوانٹم قوانین کے استعمال سے ایٹم اور نیو کلیس کے پیمانےکی ایک حیرت انگیز دنیا کا انکشاف ہوا ہے جس کا استعمال اب تقریباً زندگی کہ ہر شعبہ میں ہو رہا ہے چاہے وہ موبائل فون ہو یا انٹر نیٹ ہو یا ایم آر آئی ان چیزوں میں قوانٹم قوانین کا استعمال ایک الگ دلچسپ کہانی ہو گی۔

موجودہ کائنات کی تحقیقات مین قوانٹم قوانین کے استعمال سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ موجودہ کائنات بہت بڑی ہے لیکن جب شروع میں جب کائنات بہت ہی چھوٹے دائرہ (سینٹی میٹر کے کروڑویں حصہ سے بھی چھوٹی) میں تھی تو اس وقٹ اس کو قوانٹم قوانین کے استعمال کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتاتھا۔ اس عمل کو اچھی طرح کرنے کا طریقہ فائن مین (Feynaman) کی تاریخ کے جوڑ کا ہے۔ یہ تحقیقات جاری ہیں۔

یہ سوال کے وقت کیا کبھی شروع ہوا ویسا ہی ہے جیسا کہ ہم ماضی میں یہ سوچتے تھے کہ اگر ہم دنیا کے کنارے گئے تو گر پڑیں گے یعنی یہ کہ دنیا ایک پلیٹ کی طرح فلیٹ ہے اس کے کناروں سے سمندر کا پانی بہہ رہا ہوگا۔ہم سبھی اس بات کو جانتے ہیں کہ اس مسئلہ کا یہ آسان حل نکلا کہ زمین گول ہےاور اس کا کوئی کنارہ نہیں ہے۔لیکن وقت ہم سب کو ایک کائنات سے الگ طرح کی چیز معلوم ہوتا ہے۔

اسٹیفن ہاکنگ اور جم ہارٹل (Jim Hartle) کی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ کائنات کے شروعاتی غیر معمولی حالات میں وقت بالکل 3 سمتوں کی طرح ہو جاتاہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کے وقت کی شروعات کے مسئلہ کا حل بالکل ویسے ہی نکلے گا جیسا کہ دنیا کے کنارے سے گر جانے کے ڈر کا حل ہوا۔

اب یہ تصور ہے کہ کائنات کی شروعات دنیا کے قطب جنوبی جیسی ہے اور عرض البلد (Latitude) وقت کی عکاسی کرتیں ہیں۔ ہم جیسے جیسے شمال کی طرف جاتے (یعنی وقت گزرتا ہے) ہیں بڑے ہو تے ہوئے طول البلد کے گولے کائنات کے بڑے اور پھیلنے کی عکاسی کر تے ہیں ۔ اس طرح یہ سوال بے معنی ہو جاتا ہے کہ کائنات کے شروع ہونے سے پہلے وقت کیا تھا بالکل اسی طرح کہ زمین پر قطب جنوبی کے جنوب میں کیا ہے۔

بہت ساری کامیا بیوں کے باوجود ابھی کچھ سوالوں کے جواب باقی ہیں لیکن یہ ثابت ہو گیا کہ سائنس کے اصولوں کو استعمال کر کے کائنات کے ارتقاء کو سمجھا جا سکتا ہے اور تحقیقات ان تمام سوالوں کے تشفی بخش جوابوں کے نزدیک سے نزدیک ترہو تی جا رہی ہے۔

  • مضمون نگار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر ہیں

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔