سائنس: کائنات کا ارتقاء– اسٹیفن ہاکنگ کی نگاہوں سے

Getty Images
Getty Images
user

وصی حیدر

افریقہ میں بوشونگو قبیلے کے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ شروع میں صرف اندھیرا، پانی اور بڑا دیوتا بمبا تھا۔ ایک دن بمبا کے پیٹ میں درد ہوا اور اس کی قے میں سورج نکلا۔ سورج کی گرمی سے کچھ پانی سوکھا تو زمین سامنے آئی۔ بمبا کے پیٹ میں اب بھی درد تھا اور ابکی بار اس کی قے میں چاند ستارے اور کچھ جانور— چیتا، مگرمچھ، کچھوا اور آخر میں انسان نکلا۔

کائنا ت کی تخلیق کا یہ تصور اور اس سے ملتی جلتی بہت ساری کہانیاں دراصل ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہیں جو ہم سب کبھی نہ کبھی ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں ’’ہم کہاں سے آئے اور یہ دنیا، چاند ستارے کیسے اور کب بنے۔‘‘ ان سوالوں کے جواب سےیہ تو بظاہر صاف ہے کہ انسان کا وجود بہت زیادہ پرانا نہیں ہے (سائنسی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ انسان اس شکل میں تقریبا ڈھائی تین لاکھ سال سے زیادہ پرانا نہیں ہے) کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ انسان کے معلومات، اوزاروں اور رہنے سہنے کے طریقوں میں خوشگوار ترقی ہو رہی ہے اور اگر انسان ہمیشہ سے ہوتا تو اب تک بہت زیادہ ترقی ہو چکی ہوتی۔ عیسائیوں کی مقدس کتاب ‘Genesis’ کے حوالے سے پادری اوشر (Usher) کا کہنا ہے کہ دنیا کا وجود 27 اکتوبر کو صبح 9 بجے 4004 ق م میں ہوا۔

کائنات کی کب ابتدا ہوئی اس بات پر سارے مفکرین متفق نہیں تھے۔ مثلاً ارسطو (Aristotle) کا یہ ماننا تھا کہ کائنات ہمیشہ سے ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ جو چیز ہمیشہ سے ہوگی زیادہ کامل (Perfect) ہوگی۔ اس کے خیال میں قدرتی آفات انسانی تہذیب کو بار بار پیچھے ڈھکیل دیتے ہیں اور ان کے بعد انسانی تہذیب پھر ترقی کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ اگر یہ مانا جائے کہ کائنات کی کب شروعات ہوئی تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ کائنات کو شروع کرنے سے پہلے دیوی دیوتا کیا کر رہے تھے۔ کیا وہ اس طرح کے سوال کرنے والوں کے لیے جہنم بنانے میں مصروف تھے۔ اس بحث پر کہ ’’کائنات کب شروع ہوئی یا ہمیشہ سے ہے‘‘ جرمن فلسفی ایمنیول کانٹ (Emmanual Kant) نے بہت غور و فکر کیا اور لکھا۔ اس کے خیال میں ان دونوں باتوں میں عجیب تضاد ہے۔ اگر کائنات کبھی شروع ہوئی تو ایسا کیوں ہے کہ اس کے شروع ہونے میں لامحدود وقت لگا اور اگر کائنات ہمیشہ سے ہے تو ترقی کی موجودہ حدوں تک پہنچنے میں لامحدود وقت کیوں لگا۔ یہ دونوں اعتراض اس بات پر مبنی ہیں کہ سبھی لوگ وقت کو کائنات سے الگ ایک مطلق چیز مانتے تھے۔ یعنی وقت لامحدود ماضی سے لامحدود مستقبل کی طرف ایک ہی رفتار سے چلے جا رہا ہے۔ اس کا کائنات کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

وقت (Time) کی اس سمجھ میں زبردست تبدیلی تب آئی جب آئنسٹائن نے اپنا انقلابی مقولہ ‘General Theory of Relativity’ دنیا کے سامنے 1915 میں پیش کیا۔ اس کے مطابق وقت اور کائنات آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور اس کا دار و مدار کائنات میں مادہ (Matter) اور قوت (Energy) پر مبنی ہے۔ اس لیے وقت اور کائنات کا ارتقا آپس میں جڑا ہوا ہے۔ کائنات کی شروعات سے پہلےوقت کی بات کرنا بالکل بے معنی ہے۔ کائنات کے ارتقا سے پہلے وقت کی بات کرنا ویسے ہی ہے جیسے ہم یہ جاننا چاہیں کہ زمین پر قطب جنوبی کے جنوب میں کیا ہے یہ بیان ہی نہیں کر سکتے۔ ان باتوں کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات اور وقت کی شروعات دونوں ایک ہی ہیں۔

1920 سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ کائنات میں وقت کے ساتھ کوئی تبدیلی نہیں ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہو تو وقت اور کائنات کی شروعات کو اور ماضی میں کھسکایا جا سکتا ہے اور اس کی شروعات کا وقت مصنوعی ہو جائے گا۔ اس سمجھ میں زبردست تبدیلی آئی جب ایڈون ہبل (Edwin Hubble) کے ولسن پہاڑی پر 100 انچ کی دوربین سے کیے گئے مشاہدات سامنے آئے۔ ہبل نے یہ پایا کہ ستارے آسمان میں چاروں طرف یکساں نہیں بکھرے ہوئے ہیں بلکہ مختلف کہکشاؤں میں اکٹھا ہیں۔ ان کہکشاؤں سے آنے والی روشنی کے مشاہدے سے ہبل ان کی رفتار معلوم کر پایا۔ ہبل اور سبھی لوگ یہ سوچتے تھے کہ جتنی کہکشائیں ہم سے دور جا رہی ہیں تقریباً اتنی ہی کہکشائیں ہمارے پاس آ رہی ہوں گی۔ لیکن سبھی کو تعجب ہوا جب ہبل کے بہت ہوشیاری سے کیے گئے مشاہدہ سے یہ ثابت ہوا کہ تقریباً سبھی کہکشائیں ہم سے دور جا رہی ہیں اور یہ بھی کہ کہکشائیں جتنا دور ہیں اتنی ہی تیز رفتاری سے دور جا رہی ہیں۔

اس اہم مشاہدے سے یہ ثابت ہو گیا کہ کائنات وقت کے ساتھ مستقل نہیں ہے بلکہ بڑی اور پھیلتی جا رہی ہے۔ یہ مشاہدہ 20 صدیوں کی کائنات کے سلسلہ میں ایک نہایت اہم دریافت تھی۔ اس کی وجہ سے کائنات کب شروع ہوئی کے مسئلہ کی بحث میں بہت تبدیلی آئی۔ کیونکہ اگر سبھی کہکشائیں اب ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں تو وہ ماضی میں ایک دوسرے کے بہت قریب رہی ہوں گی۔ اور اگر ان کی رفتار ایسی ہی تھی تو وہ تقریباً پندرہ ارب سال پہلے ایک نقطہ پر رہی ہوں گی۔ بس یہی کائنات اور وقت کی شروات تھی۔

بہت سارے سائنسداں کائنات کی اس طرح کی شروعات سے مطمئن نہیں تھے اور اس کے لیے مختلف مقولہ پیش کیے گئے لیکن وہ سب مشاہدہ کے پیمانے پر غلط ثابت ہوئے اور اب سبھی سائنسداں اس بات پر متفق ہیں کہ یہ کائنات پندرہ ارب سال پہلے بنی اور وقت کے ساتھ نہ صرف بڑی ہوتی جا رہی ہے بلکہ اس میں حیرت انگیز تبدیلیاں بھی ہو رہی ہیں۔

  • مضمون نگار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر ہیں

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Sep 2017, 6:18 PM