کائنات کی سمجھ کی تاریخ (دوسری قسط)...وصی حیدر

لامحدودیت کو سمجھنے کے لئے نیوٹن کی دلیل ایک دلچسپ دھوکہ ہے جس کے نتائج غلط ہیں اور یہ کوشش کہ کائنات بغیر کسی تبدیلی کے اپنی جگہ ایسے ہی ہمیشہ سے ساکت ہے۔ گرویٹشن کے قانون کے بعد ناممکن ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وصی حیدر

پچھلی قسط میں ہم نے یہ دیکھا کہ کوپرنکس کا ماڈل اور کیپلر (1571-1630) کے مشاہدات کے بعد یہ سمجھ صاف ہوگئی کہ سیارے سورج کے گرد مختلف دوری پر بیضاوی (Elliptical) چکر میں گھوم رہے ہیں۔ مگر یہ سیارے کیوں چکر لگا رہے ہیں اس مسئلہ کا حل نیوٹن کی تحقیقات کے بعد ہی سامنے آیا۔

سیارے کیوں سورج کے گرد چکر لاگا رہے ہیں اس مسئلہ کا حل تقریباً 50 سال کے بعد 1687 میں نیوٹن کی مشہور کتاب پرنسپیا ریاضی (Principia Mathematica) کے چھپنے کے بعد ہی ہوا۔یہ کتاب اس وقت تک کی سب سے بیش قیمت تحقیقات کا خزانہ تھی۔ اس میں نہ صرف اس کی تحقیقات نے یہ بتایا کہ کیوں سیارے گھومتے ہیں بلکہ ریاضی کی مکمل ایک نئی شاخ بھی بیان کی جس کی مدد سے نہ صرف سیاروں اور چاند کا گھومنا سمجھا جاسکتا ہے بلکہ ہماری زمین پر بھی مختلف چیزوں کی حرکت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اس نے یہ ثابت کیا کہ چیزوں کا زمین کی طرف گِرنا اور سیاروں کا سورج کے گرد گھومنا ایک ہی قانون کے تحت ہوتا ہے اور اس کا نفاذ پوری کائنات میں ہر جگہ ہوتا ہے۔

نیوٹن نے جس قانون کو بیان کیا اس کے تحت ہر چیز کسی بھی دوسری چیز پر ایک کشش کی قوت لگاتی ہے اور یہ کشش زیادہ ہوتی ہے جب چیزوں میں مادہ زیادہ ہو اور کشش دوری بڑھنے سے کم ہوتی ہے۔ یہی قانون سورج کے گرد سیاروں کے گھومنے کو پوری تفصیل سے سمجھنے میں مدد دیتا ہے اس کے علاوہ سیاروں کے گرد چاند کا گھومنا، زمین پر کسی بھی چیز کا اونچائی سے گرنا اور اس من گڑنتھ کہانی کے سیب کا گِرنا۔ اسی لئے نیوٹن کے اس قانون کو کائناتی کشش(Universal Gravitation) کا قانون کہا جاتا ہے۔ اس قانون کی مدد سے کیپلر کے تینوں قوانین اور ساتھ ہی ساتھ سیاروں کے بنیادی چکروں کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔

کوپرنکس کے خاکہ نے ٹومی کے 8 لوگوں کو ختم کیا یہ مسئلہ نیوٹن کے لئے پریشان کن تھا اور اس کے ساتھ ہی یہ بات ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی کہ کائنات کی کوئی حد یا چہاردیواری ہے۔ زمین کے سورج کے گرد چکر لگانے پر بھی ایسا لگتا ہے کہ ستارے اپنی جگہ رکے ہوئے ہیں۔ اس سے سائنسدانوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ستارے بھی ہمارے سورج کی طرح تارے ہیں لیکن بہت زیادہ دور ہیں اس لئے ایسا لگتا ہے کہ ان کے آپس میں دوری میں کوئی تبدیلی نہیں ہو رہی ہے۔

نیوٹن کو اس بات کا احساس تھا کہ اگر کشش کا قانون کائنات میں ہر چیز پر لگنا ہے تو یہ دور کے ستارے اپنی جگہ پر منجمد نہیں رہ سکتے۔ تو کیا ایسا ہونا چاہیے کہ کشش کی وجہ سے کائنات کی ہر شی ایک دوسرے کی طرف سمٹ جائے گی اور اس طرح کائنات مستحکم نہیں رہ سکتی۔ کشش کے باوجود کائنات بظاہرمستحکم ہے یہ مسئلہ نیوٹن کے لئے پریشان کن تھا۔ اس کے حل کے سلسلے میں اپنے دوست فلسفی رچرڈ بینٹلی کو 1691 میں ایک خط میں کچھ اس طرح کا تذکرہ کیا۔ نیوٹن نے یہ دلیل پیش ی کہ اگر ستاروں کی محدود تعداد ہوتی تو واقعی کشش کی وجہ سے سارے ستارے ایک نقطہ پر جمع ہوجاتے، لیکن شائد ستارے لا محدود ہیں اور کائنات بھی لامحدود ہے اور کیونکہ لامحدود کائنات میں ہر نقطہ کی حیثیت ایک جیسی ہے یعنی کوئی بھی نقطہ محور(Centre) نہیں ہوگا اس لئے کائنات کے سب ستارہ اپنی جگہ بغیر کسی تبدیلی کے مستحکم ہیں۔

لامحدودیت کو سمجھنے کے لئے نیوٹن کی دلیل ایک دلچسپ دھوکہ ہے جس کے نتائج غلط ہیں اور یہ کوشش کہ کائنات بغیر کسی تبدیلی کہ اپنی جگہ ایسے ہی ہمیشہ سے ساکت ہے۔ گرویٹشن کے قانون کے بعد ناممکن ہے۔ لامحدود کائنات کو سمجھنے کا صحیح طریقہ نیوٹن کے بہت بعد معلوم ہوا۔

صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم اس طرح آگے بڑھیں کہ محدود کائنات سے شروع کریں، اس میں تو کشش کی وجہ سے سارے ستارے سب ایک جگہ پر اکٹھا ہوجائیں گیں۔ اب ہم اگر اس محدود کائنات کے باہر اور ستارے جوڑتے جائیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور کائنات ساکت نہیں رہ پائے گی اور سیارے ستارے ایک دوسرے میں زم ہوجائیں گیں اور کائنات مستحکم نہیں رہ سکتی، چاہے وہ محدود ہو لا محدود ہو۔

ساکت کائنات مستحکم نہیں رہ سکتی

یہ دلچسپ بات ہے کہ اوپر بیان کی گئی دلیلوں کے باوجود 20 ویں صدی کے شروع تک کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ کائنات پھیلتی یا سکڑتی جارہی ہے۔ عام سمجھ یہ تھی کہ ہم کو اب جیسی کائنات دکھائی دے رہی ہے وہ یا تو ہمشہ سے ہے یا بہت سالوں پہلے ایسی ہی بنی اور اس میں کوئی بھی تبدیلی نہیں ہو رہی ہے۔ ان میں وہ سائنسداں بھی شامل ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ نوٹن کے کشش کے قانون کی سچائی کے بعد ساکت کائنات ممکن ہی نہیں۔ کسی نے بھی یہ رائے نہیں دی کہ کائنات پھیلتی جارہی ہے۔ اس کے بجائے لوگوں نے نوٹن کے قانون میں تبدیلی پرغور کیا۔ یہ سوچا گیا کہ پاس کی دوریوں پر کشش اور بغیر کسی ثبوت کے یہ فرض کیا گیا کہ زیادہ دوری پرRepulsion کی قوت کام کرتی ہے اور اس کی وجہ سے دونوں قوتوں میں ایک توازن بنا رہتا ہے اور کائنات ساکت اور مستحکم بنی ہوئی ہے۔ یہ دلیل ایک بھونڈا طریقہ بظاہر ساکت دکھنے والے کائنات کو سمجھنے کا کچھ زیادہ مقبول نہیں رہا۔

ہم کو اب یہ معلوم ہے کہ کائنات کا سکوت بہت ہی غیر مستحکم ہوگا کیونکہ اگر کسی وجہ سے کائنات کے کسی حصہ میں کچھ ستارے اگر قریب آگئے تو ان کے بیچ کشش کی قوت زیادہ ہوجانے سے وہ ایک دوسرے کی طرف بڑھ کر آپس میں ضم ہوجائیں گے اور مستحکم کائنات اس شکل میں نہیں رہ پائے گی۔ برخلاف اس کے اگر تارے کچھ زیادہ دوری پر ہوگئے تو ان کے بیچ یہ Repulsion کی طاقت زیادہ ہونے کی وجہ سے سارے تارے جلد ہی ایک دوسرے سے بہت دور ہوجائیں گے اور پھر کائنات کا اس شکل میں مستحکم سکوت ختم ہوجائے گا۔ ان باتوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ نیوٹن کے قوت کے قوانین میں تبدیلی کر کے Repulsion بھی کائنات کے اس شکل میں سکوت کو نہیں بچا پائے گی۔ کسی اور طرح کے ثبوت کی غیر موجودگی کی وجہ سے سبھی لوگوں نے نیوٹن کے قانون میں کسی تبدیلی کو ترک کردیا۔ لامحدود کائنات کی سمجھ کے خلاف دوسری دلیل جرمن فلسفی ہنرک اولبر نے 1823 میں پیش کی۔ حالانکہ نیوٹن کے زمانے میں ہی کچھ سائنسدانوں نے اس طرح کے اعتراض پیش کیے تھے لیکن اوبر کی دلیل ہی پہلی کافی مشہور اور مقبول ہوئی۔

اوبر کا یہ کہنا تھا کہ اگر کائنات اور اس میں ستارے لامحدود ہیں اور یہ کائنات ہمیشہ سے ایسی ہے تو ہم آسمان میں کسی بھی طرف دیکھیں تو ہماری نگاہ کسی نہ کسی ستارے کی طرف ٹکے گی جہاں سے روشنی ہم تک آرہی ہے اور اگر ان لامحدود ستاروں سے روشنی ہمیشہ سےرہی ہت تو سارا آسمان دھیرے دھیرے گرم ہوتا ہوا اب تک کم از لم سورج کی طرح گرم اور روشن ہوچکا ہوتا جبکہ ایسا نہیں ہے۔

رات میں بھی آسمان ایسا چمکتا ہے جیسا دن میں سورج۔ کیونکہ ایسا نہیں ہے یہ صرف جب ہی ممکن ہے کہ یہ سب ستارے ہمیشہ سے روشن نہیں ہیں بلکہ ماضی میں کسی محدود وقت پہلے ستارے روشن ہوئے۔ کچھ ستارے روشن ہوئے اور کشھ گُل ہوئے اور اسی وجہ ستاروں سے آنے والی روشنی نے راستہ کی کائنات کو اتنا گرم نہیں کرپائے کہ پورا آسمان ہمارے سورج جیسا روش ہوجائے۔

اوپر دی گئی دلیل کے بعد یہ سوال ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی ترکیب ہے جس سے ستارہ روشن ہوتے ہیں اور پھر گُل ہوجاتے ہیں۔ یعنی یہ کائنات کیسے شروع ہوئی اور یہ کہ کیا کائنات میں وقت کے ساتھ کوئی تبدیلی نہیں ہو رہی ہے۔ نہ وہ پھیل رہی ہے اور نہ سکڑ رہی۔ ان سوالوں کے جواب اگلی قسط میں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Mar 2019, 9:10 PM
/* */