اسٹیفن ہاکنگ کی دو بڑی کامیابیاں .. وصی حیدر

ہاکنگ نے ثابت کیا کہ بلیک ہول کبھی چھوٹا نہیں ہوگا کیوں کہ اس کے پاس جو بھی مادہ آئے گا وہ اس کو ہضم کرے گا اور اگر دو بلیک ہول آپس میں ٹکرائیں گے تو بلیک ہول ٹوٹنے کے بجائے ایک بڑا بلیک ہول بنے گا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وصی حیدر

پچھلے مضمون میں اس بات کا ذکر ہوا کہ ایک بڑا ستارہ اپنی زندگی کے آخری حصہ میں (جب اس کو روشن رکھنے والا ایندھن یعنی لاکھوں ہائیڈروجن بم) ختم ہو جائیں گے تب گریوٹیشن کشش کی وجہ سے وہ بہت زیادہ سکڑ کر بلیک ہول بن جاتا ہے۔

آئنسٹائن کی تھیوری کے استعمال سے ایک امریکی سائنسداں رابرٹ اوپن ہائمر نے 1939 میں بلیک ہول کی پیشگوئی کی۔ اس وقت دنیا کے زیادہ تر سائنسداں کوانٹم قوانین کی حیرت انگیز پیشگوئیوں اور کامیابیوں میں مصروف تھے اور اس وجہ سے بلیک ہول کی طرف توجہ میں کمی رہی۔رابرٹ اوپن ہائمر امریکی ائٹم اور ہائڈروجن بم بنانے والی ٹیم کے لیڈر تھے۔ ہائڈروجن بم کے پہلے ترجباتی دھماکے کو دیکھ کر ان پر اتنا زیادہ اثر ہوا کہ انہوں نے کہا، ’’میں ایک خوفناک موت ہوں اور ساری دنیا کو تباہ کر سکتا ہوں۔‘‘

سنہ 1959 میں جب اسٹیفن ہاکنگ اکسفورڈ یونیورسٹی میں بی ایس سی کر رہے تھے اس وقت تک کئی بلیک ہولز کی نشاندہی ہو چکی تھی اور یہ سائنسی حلقوں میں توجہ کا مرکز بنتا جا رہا تھا۔ نئے اور بہتر دوربینوں کے استعامل سے کائناتی تحقیقات بہت سارے سائنسدانوں کا مرکز بنی اور ہر روز کائنات میں نئی چیزوں کی دریافت ہونا شروع ہوئی۔

سنہ 1927 میں ایڈوین ہبل کے کئے گئے مشاہدات سے یہ ثابت ہوا کہ زیادہ تر کہکشائیں ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں اور جو کہکشائیں جتنی دور ہیں اتنی ہی تیزی سے دور جا رہی ہیں۔ یہ معلومات کائناتی تحقیقات میں ایک نہائت اہم سنگ میل ثابت ہوئی کیوں کہ اگر ساری کہکشائیں آج ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں تو وہ ماضی میں ایک دوسرے سے قریب رہی ہوں گی اور اگر ان کی رفتار یہ تھی جو اب ہے تو وہ 150 کروڑ سال پہلے ایک نقط (singularity) پر رہی ہوں گی۔ یہی ’بِگ بینگ ‘تھیوری ہے۔

سنہ 1964 میں دو امریکی تجرباتی سائنسدانوں رابرٹ ویلسن اور آرنو پنزیاس نے یہ پایا کہ کائنات میں چاروں طرف ایک مائکرو ویو ریڈی ایشن (microwave radiation) پھیلا ہوا ہے۔ یہ ریڈی ایشن کوسمک مائیکرو ویو بیک گراؤنڈ (سی ایم بی آر) کے نام سے مشہور ہوا۔ تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کہ کائنات کے شروع ہونے کے 380000 (تین لاکھ اسی ہزار) سال بعد یہ روشنی پوری کائنات میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی اہمیت یوں بھی ہے کہ یہ سب سے پرانی روشنی ہے۔ وقت کے ساتھ جب کائنات بڑی ہوتی گئی تو یہ روشنی ٹھنڈی ہوتی گئی اور اب یہ صرف 3 Å (انگیسٹروم ) تک ہی گرم ہے۔

اوپر بیان کئے مشاہدوں کی وجہ سے زیادہ تر سائنسداں اس بات پر متفق ہو گئے کہ کائنات کی شروعات بِگ بینگ سے ہوئی ہوگی۔ اسی دوران ’ہینس اے بیتھے‘ نامی سائنسداں نے اپنے ایک تحقیقاتی مقولہ میں سورج اور ستاروں میں پیدا ہونے والی روشنی، گرمی اور بے پناہ قوت کے راز کو اجاگر کر دیا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ ستارے کے اندرونی حصہ میں وہ حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ مختصراً چار ہائڈروجن ائٹم مل کر ہیلیم کا ایک ائٹم بناتے ہیں اور کچھ مادہ نیوٹن کے توانائی کے مقولہ کے حساب سے بے پناہ قوت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس دریافت پر ان کو 1967 کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔

ہاکنگ کا داخلہ 17 سال کی عمر میں سنہ 1959 میں اکسفورڈ یونیوسرسٹی میں ہوا۔ یہ تین سال کا کورس تھا اور پہلے دو سالوں میں انہوں نے کچھ زیادہ محنت نہیں کی۔ تیسرے سال میں انہوں نے خاص طور پر کائناتی تحقیقات کو پنا مرکزی مضمون چنا۔ بی ایس سی میں مشکل سےفرسٹ ڈویزن لانے کے بعد 1962 میں انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لئے داخلہ لیا۔ اس دوران بلیک ہول اور کائنات کے شروع ہونے کا مسئلہ ان کی توجہ کا خاص مرکز رہا۔ ان چیزوں کو سمجھنے کے لئے آئنسٹائن کی جنرل تھیوری آف گریوٹیشن کا استعمال ضروری تھا۔

ریسرچ شروع کرنے کے 2 سال کے اندر ہی ان کی طبعیت خراب ہونا شروع ہو گئی اور یہ پتہ چلا کہ ان کو بہت ہی خطرناک بیماری (موٹر نیوران) ہے اور 2-3 سال کے اندر ہی ان کا سارا جسم فالج زدہ ہو جائے گا۔ ڈاکٹروں نے ان سے یہ بھی کہا کہ وہ 2-3 سال سے زیادہ زندہ نہیں رہیں گے۔ لیکن اسی دوران ان کی ملاقات نئے سال کی ایک پارٹی میں جین وِلڈے سے ہوئی اور وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے۔ جین نے ان کو بہت ڈھارس بندھائی اور وہ پھر سے اپنی ریسرچ میں اس لئے جٹ گئے تاکہ جلد اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرکے نوکری حاصل کریں۔ ان کا ارادہ جلد از جلد جین سے شادی کر کے ان کے ساتھ زندگی گزارنے کا تھا۔

خوش قسمتی سے ہاکنگ کی بیماری کا بڑھنا کافی مدھم ہو گیا اور وہ اپنے سپروائزر ڈبلیو سکیما کی سرپرستی میں اپنے کام میں کامیابی کی طرف بڑھنے لگے۔

اسی زمانہ میں اکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ’روجر پین روز ‘ نے بلیک ہول کے سلسلہ میں ایک بہت ہی اہم مقولہ دریافت کیا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ بلیک ہول کشش کی وجہ سے سکڑتا ہی جائے گا۔ وہ ستارے جن کا وزن سورج کے وزن کا ساڑھے تین گنا ہو یا اس سے زیادہ ہو وہی بلیک ہول بن پاتے ہیں۔ سکڑنے کی وجہ سے ان کی سطح سے فرار کی رفتار (Escape Velocity) بڑھتی جاتی ہے اور جب یہ بڑھ کر 186000 میل فی سیکنڈ ہو جاتی ہے تو اس سے روشنی بھی باہر نہیں نکل سکتی اور اس کی یہ باہری سطح ایونٹ ہاریزن (event horizon) کہلاتی ہے۔ یعنی جو بھی چیز باہر سے اس جگہ آئے گی وہ ہمیشہ کے لئے بلیک ہول کے اندر چلی جائے گی اور اس کے باہر نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔ بلیک ہول سے باہر کا ہر راستہ ختم ہو جائے گا۔ پین روز نے آئنسٹائن کی تھیوری کو استعمال کر کے یہ ثابت کیا کہ بلیک ہول کا سکڑنا نہیں رکے گا اور اس کا سارا مادہ آخر میں ایک نقط (singularitiy) پر سمٹ جائے گا۔

ہاکنگ نے بلیک ہول کی ان خصوصیات پر غور کیا اور اس نے یہ سوچا کہ بلیک ہول کی زندگی کی تاریخ میں اگر وقت کی دھارا کو الٹ دیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہی چیز کائنات کی شروعات اور بِگ بینگ تھیوری کو سمجھنے میں مدد کرے گی۔ انہوں نے پین روز کے ساتھ مل کر یہ ثابت کیا کہ اگر آئنسٹائن کی جنرل تھیوری صحیح ہے تو یقیناً کائنات ایک نقط سے شروع ہوئی ہے اور اب یہ پھیلتی جا رہی ہے، جو اب سارے مشاہدات کے مطابق ہے۔ کائناتی تحقیقات میں یہ ایک نہائت ہی اہم قدم تھا جس نے بگ بینگ تھیوری کو بہت تقویت دی۔

ہاکنگ نے یہ بھی ثابت کیا کہ بلیک ہول ہمیشہ بڑا ہی ہو سکتا ہے، کبھی چھوٹا نہیں ہوگا کیوں کہ اس کے پاس جو بھی مادہ آئے گا وہ اس کو ہضم کرے گا اور اگر دو بلیک ہول آپس میں ٹکرائیں گے تو بلیک ہول ٹوٹنے کے بجائے ایک بڑا بلیک ہول بنے گا۔ اس طرح کے ایک واقعہ کو تجرباتی تصدیق کرنے پر ہی پچھلے سال (2017) کا فزکس کا نوبل انعام تین امریکی سائنسدانوں کو دیا گیا ہے۔

ہاکنگ کی تحقیقات کے دوسرے بڑے کارنامہ کا تعلق کوانٹم قوانین سے ہے۔ ان سے پہلے کسی نے بھی کائناتی تحقیقات میں کوانٹم قوانین کے استعمال میں کامیابی حاصل نہیں کی تھی۔ گریوٹیشن کے علاوہ باقی تین طرح کی قوتوں (نیوکلیائی، بجلی اور ریڈیوایکٹیوٹی) کو کوانٹم قوانین کے تحت سمجھنے میں کامیابی حاصل ہو چکی ہے لیکن گریوٹیشن ابھی تک ایک مشکل مسئلہ ہے۔ ہاکنگ نے کائنات کی شروعات اور بلیک ہول کے تعلق سے کوانٹم قانون کو استعمال کرتے ہوئے حیرت انگیز پیشن گوئیاں کیں۔

عام سمجھ یہ ہے کہ خلا وہ جگہ ہے جہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ کوانٹم قوانین میں سے ایک اصول غیر یقینی (ان سرٹینٹی پرنسپل) یہ بتاتا ہے کہ خلا میں بھی تھوڑی دیر کے لئے دو جڑواں پارٹیکل (pairing particles) پیدا ہوتے ہیں اور پھر وہ ایک دوسرے کو ختم کر دیتے ہیں۔ یہ مجازی (virtual) پارٹیکل کہلاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ خلا خالی نہیں ہے بلکہ ہر وقت اس میں لاتعداد جڑواں پارٹیکل پیدا و ختم ہوتے رہتے ہیں۔ ہاکنگ نے اس بات پر غور کیا تو یہ پایا کہ اگر ان جڑواں پارٹیکل میں سے ایک بلیک ہول میں چلا جائے تو اس کا دوسرا جڑواں ’بھائی‘ بچ جائے گا اور اسے تجربہ کر کے پکڑا جا سکتا ہے۔ یہی ’ہاکنگس ریڈی ایشن ‘ کہلاتا ہے۔ اس کو پیدا ہونے کے لئے قوت بلیک ہول سے ملے گی جس کی وجہ سے بلیک ہول کا مادہ کم ہو جائے گا۔ اس طرح کے لگاتار عمل میں بلیک ہول کا مادہ کم ہوتا جائے گا۔ یہ ایک حیرت انگیز نتیجہ تھا جس کو ماننے میں سائنسدانوں کو کافی وقت لگا۔

اوپر بیان کی گئی دو خاص کامیابیوں کے علاوہ بھی ہاکنگ کے کئی اور کارنامے ہیں لیکن ان سب کا ذکر ایک چھوٹے مضمون میں مشکل ہے۔ ہم سب کے لئے ہاکنگ کی زندگی کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ چاہے زندگی کی کچھ بھی دشواریاں ہوں ہم کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتے ہیں اور اہم یہ ہے کہ ہار کبھی نہ مانیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔