حقیقت یا دھوکہ۔ سائنس کے پیمانے پر..(پارٹ-2)

اس عنوان سے شائع ہوئے مضمون کے حصہ اول میں ہم نے یہ دیکھا کہ حقیقت کو جاننے کے لئے سائنس داں سب سے پہلے کن دو طریقوں کا استعمال کر تے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

کہانی ، قصوں ، افسانوں اور اندھے اعتقادوں سے حقیقت اور سچائی تک پہنچنے کا راستہ دشوار ضرور ہے لیکن نا گزیر بھی ہے اگر ہم کو دنیا کو سمجھنے کی جستجو ہے اور ترقی کی راہ پر چلنے کی ہمت۔

ہم مضمون کے اس شمارے میں اس تیسرے طریقے کا ذکر کر یں گے، جس کا علم کم ہی لوگوں کو ہے۔

3- ماڈل (Model) تصور کرنا۔

سچائی معلوم کر نے کی جستجو میں جب کبھی ہمارے پانچ حواس (Five Senses) یا سائنسی آلات کے استعمال کی گنجائش نہیں ہو تی تب ہم تصوراتی ماڈل کا سہارا لیتے ہیں۔

مثال کے طور پر ایٹم کی بناوٹ کی تحقیقات۔ ایٹم کے بارے میں ہماری سمجھ تقریباً پچھلے 3 ہزار سالوں کی سائنس دانوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ اس لمبی دلچسپ داستان کا ذکر پھر کبھی ہو گا۔

جب ہم اپنے پانچ حواس اور مشینوں کی مدد سے آگے نہیں بڑھ سکتے تو ہم اپنے ذہن میں اس چیز کا ایک خاکہ (Model) تصور کر تے ہیں۔ اگلا ضروری قدم یہ ہوتا ہے کہ ہمارا خاکہ اس چیز کی معلوم کردہ خصوصیات کو صحیح بتا تا ہے کہ نہیں اور اس کے علاوہ ہمارا ماڈل کچھ ایسی پیشین گوئیاں کرے جن کو ہم نئے مشاہدات کی کسوٹی پر جانچ سکیں ۔ اگر اس ماڈل کی پیشین گو ئیاں صحیح ثابت ہوں تو ہمار ا یقین اس ماڈل کے صحیح ہونے میں بڑھتا ہے۔لیکن اس ماڈل کو ہم ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور سیکڑوں سائنس داں اس ماڈل کو نئے نئے مشاہدات کر کے جانچتے رہتے ہیں اور اگر ہمارا ماڈل ایک بھی مشاہدہ کو سمجھنے میں کامیاب میں ہوتا ہے تو پہلے تو اس ماڈل کی کمیوں کو دور کرنے کی کو شش کی جاتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو پائے تو اس ماڈل کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر ایک نئے ماڈل کی شروعات کرنی پڑتی ہے جو تمام نئے اور پرانے مشاہدات کو اچھی طرح سمجھنے میں کار گر ہو ۔

اوپر بتائے گئے طریقہ کار کی ایک بہترین مثال Genes کا ماڈل ہے۔ 1865 میں آسٹریا کے ایک پادری مینڈل (Mendel) نے اپنی خانقاہ میں sweet peas پر بہت سارے تجربے کر کے Genesکا ایک ماڈل تصور کیا۔

ہم کو یہ اب معلوم ہے کہ جینز (Genes) ڈی این اے سے بنے ہوئے ہیں جو ایک پیڑھی (Generation) سے دوسری پیڑھی تک معلومات (Information) لے کر جاتے ہیں ۔ بچوں میں ماں باپ سے شباہت کی ذمہ داری یہی جینز ہو تے ہیں مثلاً آنکھوں کا رنگ ، چہرے اور جسم کی بناوٹ اور بہت ساری خاندانی بیماریاں ۔

Mendel جینزکو دیکھ نہیں سکتا تھا اس نے پھولوں کے رنگ ، بیج کی بناوٹ اور یہ کہ بیج جھری والے یا سڈول ہیں ان خصوصیات کا باریکی سے کئی پشتوں کا مشاہدہ کیا۔ ان مشاہدہ کی بنیاد پر اس نے جینز کا ایک ماڈل تصور کیا اور اس کو فصل کی اگلی کئی پشتوں کی پیشین گوئی پر دیکھ کر جانچا۔ Sweet peas کی ہزاروں پودھوں کی فصلوں کو دیکھ کر اس نے یہ پایا کہ تقریباً ہر تین سڈول بیجوں کے ساتھ ایک بیج جھریوں والا ہوتا ہے اور اس سخت امتحان میں اس کا ماڈل کامیاب ہوا۔

Mendel کے بعد بہت سارے سائنس دانوں نے Genesکے بارے میں ہماری سمجھ کو آگے بڑھایا۔1953 میں (James Watson & Francis Crick) نے بہت تفصیل سے جینزکے کا م کر نے کا طریقہ اور اس کی بناوٹ (جو اب دوہرے ہلیکس کے نام سے مشہور ہے) دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ان کے اس کام کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے 1962 میں ان کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔ جینز کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ اب بھی سیکڑوں جگہوں پر جینزوں کو سمجھنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

جینزکی کہانی ایک صدی کی ہزار وں سائنس دانوں کی لگن اور محنت کا نتیجہ اور سائنس کے ماڈل کو تصور کر کے آگے بڑھنے کی بہترین مثال ہے۔قدم بہ قدم مشاہدات جمع کرنا اور اپنے تصوراتی ماڈل کو بیداری سے سخت سے سخت امتحان میں ڈالنا اور بغیر کسی افسوس کے نا کامیاب ماڈلوں کو چھوڑ کر کامیابی کی طرف بڑھنا ہی سائنس کی روح ہے۔ سچائی اور حقیقت کو جاننے کا کو ئی چھوٹا راستہ نہیں ہے۔ ہر تصوارتی ماڈل کو مشاہدات کے پیمانے پر سخت امتحان کو پاس کرنا ہی سچائی کی ضمانت ہے۔

دھوکہ اور اندھا اعتقاد

انسان کی سوچ بے لگام ہے اور دنیا کی مختلف تہذیبوں نے بہت ساری حسین کہانیوں کو پر یوں ، بھوتوں اور دیوتاؤں کے بارے میں جنم دیاہے۔ ان کہا نیوں کے کردار حیرت انگیز صلاحیتوں کے مالک ہو تے ہیں ۔ یہ کہا نیاں ہم سب کا ایک بیش قیمت خزانہ ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ سب کہانیاں ہیں حقیقت اور سچائی سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ آخر ان کو ہم کیوں سچ نہیں مان سکتے ۔ اس کی وجہ مندرجہ ذیل ہے۔ وقت اور جگہ کی کمی کی وجہ سے کچھ ہی چیزوں کا ذکر ہے۔

1- 9000 سال پہلے جہاز ۔ سارے تاریخ داں اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی تہذیب کی ترقی میں زبان اور اس کی لکھائی نے بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے ملک میں آسان زبان کی شروعات تقریباً 5000 سال پرانی اور وادی سندھ کی تہذیب سے منسلک ہے۔ ہم سب کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ سائیکل جیسی آسان چیز بھی 2-3 سو سال پہلے بنانا نا ممکن تھا۔ سائیکل میں سیکڑوں حصے ہوتے ہیں اور ان سب کے الگ الگ کام ہو تے ہیں جن سے اس کے چلنے میں سہولت ملتی ہے ۔ سائیکل کی موجودہ شکل تک پہنچنے میں سائنس دانوں اور انجینئر وں کے ہزاروں تجربات اور بہت لمبے عرصے کی محنت شامل ہے۔

ہوائی جہازکے بننے کی دلچسپ کہانی تو پتنگ کے اڑنے سے شروع ہو کر ایک بہت لمبے دشوار گزار راستہ سے ہو کر آئی ہےاور ان سب کا وشوں کے ثبوت موجود ہیں ۔ ابھی حال میں مر کزی حکومت کے ایک منسٹر صاحب کی تقریر میں یہ بھی بیان آیا کہ Wright Brothers کی پہلی کامیاب ہوائی اڑان سے آٹھ (8) سال پہلے ہندوستان میں ہوائی جہاز بن چکا تھا۔ اس طرح کے بیان بغیر ثبوت کے دینا نہ صرف انجان، بھولے لوگوں کو بیوقوف بنانا ، اپنی جہالت کا ثبوت دینا بلکہ سائنس اور سائنس دانوں کی محنت کا مذاق اڑانا ہے۔

انسان ہمیشہ سے یہ خواب دیکھتا رہا ہے کہ وہ بھی پرندوں کی طرح سے ہوا میں اڑ سکے اور یہی خواہشات مختلف طرح کی بہت خوبصورت کہانیوں میں لکھی گئی ہیں لیکن ان تمام کہانیوں کو سچ مان لینا ایک بھول ہو گی۔ بغیر ثبوت کے تو نیو ٹن کی بات بھی نہیں ماننا چاہیے۔

2- جیو تش (Astrology) جیوتش کی مقبولیت اس وجہ سے ہے کیو نکہ ہم سب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آنے والے وقت میں ہمارے ساتھ کیا ہو نے والا ہے۔ اسی خواہش کے مد نظر ساری پرانی تہذیبوں میں مستقبل (Future) کی پیش گو ئیاں (Prediction) کر نے کے طریقے گڑھے گئے۔

ہمارے ملک میں جیو تش کی شروعات ویدک (Vedic) دور یعنی (100-1500 B.C.) سے ہے۔ جیو تش کی اہم بنیاد اس بات سے ہوتی ہے کہ پیدائش کے وقت کچھ خاص ستاروں اور سیاروں کی آسمان میں کیا جگہ تھی۔پرانے زمانے میں کتنے کم سیاروں اور ستاروں کے بارے میں صحیح معلومات تھی اس کے علاوہ ہم مہنت کو کچھ پیسہ دے کر یا خاص قسم کی پوجا پاٹ کر کے اپنا مستقبل بدل کر ٹھیک کر سکتے ہیں ۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہماری اس وقت کی محنت سے ستاروں اور سیاروں کا غصہ کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے۔

۔B.C. 582-507 Pythagoras نے جیو تش کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ’’ دو جڑواں بچے اپنی زندگی بالکل مختلف طرح کے حالات میں گزارتے ہیں‘‘۔

کو پر نیکس (1473-1508) کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ نطام شمسی (Solar System) میں سارے سیارے سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ ہم کو حال ہی میں معلوم ہوا کہ نظام شمسی میں سورج کے علاوہ 8 سیارے، 3 چھوٹے سیارے، 130 سے زیادہ مختلف سیاروں کے چاند ، دمدار ستارے اور Asteroids ہیں ۔ یہ تمام چیزیں جب معلوم ہی نہیں تھیں تو جیوتش کے سارے حساب کتاب صحیح کیسے ہو سکتے ہیں۔ فلکیاتی تحقیقات یہ بتا تی ہے کہ اب بہت سارے نئے ستارے بن رہے ہیں اور پرانے ستارے ختم ہو رہے ہیں ۔ اس لئے کو ئی بھی ایسا حساب کتاب جو اس بات پر مبنی ہو کہ کائنات بس ہمیشہ سے ایسی ہی ہے وہ کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا۔

3- بھوت پریت

ہمارے اپنے ذہنوں کے علاوہ کہیں کو ئی بھوت پریت نہیں ہے۔ یہ صاف ہو چکا ہے کہ یہ ایک ذہنی بیماری ہے با لکل ایسے ہی جیسے ملیریا میعادی بخار ۔جن لوگوں پر بھوت پریت آتے ہیں وہ جھاڑ پھو نک سے نہیں بلکہ گھر والوں کی محبت اور با قاعدہ علاج سے ہی دور ہو سکتے ہیں۔

ہمارے ملک کی ایک لمبی تاریخ ہو نے کی وجہ سے کہانی قصوں اور مختلف طرح کے اندھے اعتقادوں کی کمی نہیں ۔ ان سب کاذکر کرنا نا ممکن ہے۔

تمام اندھے اعتقادات سے نکل پانا صرف صحیح سائنسی تعلیم سے ہی ممکن ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے عام لوگوں میں سائنسی سمجھ اور اس کی ضرورت کا احساس ہو۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 15 Oct 2017, 1:09 PM