حقیقت یا دھوکا، سائنس کے پیمانے پر..وصی حیدر

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وصی حیدر

حال ہی میں اخبارں میں کچھ خاص نیتاؤں کے بیانات آئے کہ گنیش دیوتا اصل میں دنیا مین سب سے پہلا Organ Transplant کی مثال ہے اور 9000 سال پہلے ہمارا ملک اتنا تر قی کر چکا تھا کہ ہوائی جہاز چلتے تھے اور لوگ دوسرے سیاروں کا بھی سفر کر سکتے تھے۔ اس طرح کی بیوقوفی کی باتیں نہ صرف ہمارے ملک کے پرانے زمانے کی ریاض فلکیات اور دوسرے مو ضوعات میں حیرت انگیز کا میابیوں کو خاک میں ملاتے ہیں، جگ ہنسائی کا موضوع بنتے ہیں بلکہ ہمارے کے بہتریں سائنس دانوں کے کارناموں پر پانی بھی پھیردیتے ہیں۔

ملک کی عزت ، ترقی اور بہتر مستقبل کے لئے یہ بہت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نہ ہم صرف سائنس دانوں کو بے خوف تحقیات کے لئے سہولتیں فراہم کریں بلکہ ہمارے ملک کے عام لوگوں میں سائنسی سمجھ اور چیزوں کو پر کھنے کا طریقہ سائنسی بنیادوں پر کرنے کا سلیقہ بھی پیدا کریں تاکہ اندھے عقیدوں سے لو گ گمراہ نہ ہوں۔ سائنس کی ضرورت زندگی کے ہر شعبہ میں ہے اور بہت معمولی چیزوں میں بھی ہم سائنسی سمجھ کا استعمال کر تے ہیں۔ سڑک پر چلتے ہوئے ہم چکنی کیچڑ یا کیلے کے چھلکے سے بچنے کا عمل بھی سائنس کے استعمال سے ہی سیکھتے ہیں۔ کیونکہ سچ اور حقیقت کا پہچاننا صرف سائنس کے استعمال سے ہی ممکن ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم سائنس کے طریقہ کار سے واقف ہوں یہی اس مضمون کا مو ضوع ہے۔

مختصر طور پر سائنس داں سچائی کو جاننے کے لئے نیچے دئیے تین طریقوں کا استعمال کر تے ہیں۔

  1. پانچ حواس (Five Senses) کا استعمال: آنکھوں سے دیکھنا، ہاتھوں سے چھونا، کانوں سےآواز کو سننا ، ناک سے سونگھنا اور زبان سے چکھنا۔ یہ تمام حواس ہم کو پھولوں کی خوشبو ، رنگ ، ایک دوسرے کو دیکھنا اور دنیا کی لا محدود چیزوں میں فرق کا احساس مو سیقی کا شعور ، ستاروں ، کہکشاؤں ، چاند اور قوس قزح کی خوبصورتی سے زندگی کو حسین بناتے ہیں ۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ جو چیزیں ہم ان پانچ احساسات سے نہیں محسوس کر سکتے وہ نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر ایٹم، جراثیم ، ریڈیو لہریں ، ایکسرے ، سائنس دانوں نے ان پانچ احساسات کی قوت کو بڑھانے کے لئے خاص اوزار، آلے، اور مشینوں کو ایجاد کیا تاکہ ہم ان چیزوں کی حقیقت کو آسانی سے جان سکیں جو ہم ان احساسات کو اکیلے استعمال کر کے نہیں معلوم کر سکتے۔
  2. اوزاروں اور خاص مشینوں کا استعمال: ہم جراثیم کو دیکھنے کے لئے ما ئکرو اسکوپ کا استعمال کر تے ہیں۔ دوربین کے استعمال سے تاروں، کہکشاؤں اور سیاروں کے بارے میں معلومات کو بڑھاتے ہیں ۔ ہم کو ان کے استعمال سے ہی معلوم ہوا کہ ہماری زمین کے علاوہ اور بھی سیارے سورج کے ارد گرد چکر لگا رہے ہیں اور ہمارا نظام شمسی کروڑوں ستاروں کے ساتھ ایک کہکشاں کا حصہ ہے اور کائنات میں کروڑوں کہکشائیں ہیں۔

ڈینا سور(Dinosaur)، ایسے بہت سے جانور جو اب ختم ہو گئے یا وہ پرانے زمانے کی تہذیبیں مثلاً مصر، روم ، وادی سندھ یا مائن ، ان کے بارے میں ہم کو کیسے پتا چلتا ہے۔ سائنس کے استعمال سے ہم کو یہ معلوم ہوا کہ جیواشم (Fossils) کیسے بنتے ہیں اور ان کے بننے کے وقت کا کیسے اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اب ہم کو معلوم ہے کہ ڈینا سور اس زمین پر تقریباً 30 کروڑ سال پہلے گھوم رہے تھے ۔ آثار قدیمہ کی سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ نہ صرف ہم پرانی تہذیبوں کے بارے میں معلومات بلکہ ان کا رہن سہن اور ان کی زبان کے بارے میں بھی بہت ساری معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ سائنس دانوں نے دسویں طریقے معلوم کر لئے ہیں جن کی مدد سے Fossilsاور دیگر چیزوں کے بارے میں یقین سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ وہ کتنی پرانی ہے۔

سائنس کی ترقی نے ہم کو ان اوزاروں اور مشینوں سے لیس کر دیا ہے کہ ہم روشنی کی رفتار (3 لاکھ کلو میٹر ایک سکنڈ کو ناپ سکتے ہیں یہ رفتارآواز کی رفتار (300 میٹر فی سکنڈ) کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔ اسی وجہ سے ہم کو بادل کے گر جنے کی آواز اس کی بجلی کے چمک کے کافی بعد سنائی دیتی ہے۔

روشنی کی بہت زیادہ لیکن محدود رفتار کے بہت ہی دلچسپ نتائج ہیں ۔ سورج سے ہم تک روشنی پہنچنے میں تقریباً 8 منٹ لگتے ہیں جس کا مطلب یہ ہو ا کہ سورج اگر ابھی ختم ہو جائے تو ہم کو 8 منٹ کے بعد ہی پتہ چلے گا ۔

سورج کے علاوہ ہمارے سب سے نزدیک ستارہ (Proxima Centuri)اتنی دور ہے کہ اس کی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں تقریباً 4 سال لگتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس ستارہ کی جو حالت 4 سال پہلے تھی وہ ہم کو اب دکھائی دے رہی ہے ۔ ہماری اپنی کہکشاں سے ملتی جلتی پاس کی ایک کہکشاں جس کا نام اندرومیڈا (Andromeda) کہکشاں ہے وہ ہماری طرف 110 کلو میٹر فی سکنڈ کی رفتار سے آرہی ہے۔ انڈرومیڈا اتنی دور ہے کہ اس کی روشنی چل کر ہمارے پاس آنے میں تقریباً 20لاکھ سال کا وقت لیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انڈرومیڈا 20 لاکھ سال پہلے کیسی تھی وہ ہم اب دیکھ رہے ہیں۔ یعنی اگر ہم اس وقت انڈرومیڈا پر ہوتے تو ابھی دنیا میں پہلے انسان کا وجود ہونے میں تقریباً 18 لاکھ سال کا وقت اور گزارنا ہوتا۔

کائنات کے ارتقاء والے مضمون میں ہم اس بات کو بیان کر چکے ہیں کہ کائنات 15 ارب سال پہلے جب ایک عظیم دھماکہ سے شروع ہوئی اس وقت کی مائکر و لہروں کو ہم اب آسانی سے دیکھ سکتے ہیں ۔ قصہ مختصر یہ کہ کا ئنات کے اس رقص کو ہم سائنس کے آلات کی مدد سے دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں ۔ ان آلات پر ہم کو اس وجہ سے یقین ہے کیونکہ یہ جس طرح کام کرتے ہیں وہ ہم کو معلوم ہے سیکڑوں اور ہزاروں سائنس داں ان تمام چیزوں کو مشاہدہ کی کسوٹی پر بار بار جا نچتے رہتے ہیں ۔ دلچسپ انکشاف یہ ہوا کہ کا ئنات ساکت نہیں ہے نئے ستارے اور کہکشائیں بن رہی ہیں اور پرانے ستارے فوت ہو رہے ہیں۔

ہم اکثر سوال کر تے ہیں کہ کیا کسی اور سیارے پر یا کسی اورکہکشاں میں ہماری زمین کی طرح زندگی ، پیڑ، پودھے، جانور اور انسان کی طرح کو ئی مخلوق ہے یا ہم اتنی بڑی کائنات میں اکیلے ہیں۔ اس سوال کا جواب بھی ہم کو سائنسی اوزاروں کے استعمال سے ہی شائد ہمیں کبھی ملے گا جس کے سچ کو ہم سبھی مشاہدہ کی کسوٹی پر جانچ سکیں گیں اس کی بنیاد صرف قیاس آرائیوں یا کہانی قصوں پر نہیں ہو گی۔

سائنس کی صحیح تعلیم یہ بھی واضح کر تی ہے کہ ساری کائنات اور سچ وہ نہیں ہے جو ہم کو آج معلوم ہے ۔ آئندہ آنے والی نسلوں کو ہم سے کہیں زیادہ نئی نئی چیزوں کے بارے میں معلومات اور سمجھ ہوگی ۔مثلاً ایٹم (Atom) اور نیوکلیس (Nucleus) ہمیشہ سے ہیں لیکن یہ حقیقت ہم کو پچھلے تقریباً 100 سالوں میں ہی پتہ چلی ہے۔

سائنس کی سحر انگیز خوبصورتی یہ ہے کہ روز روز ہم کو نئی معلومات ہوتی جا رہی ہیں۔کسی بھی چیز کی حقیقت اور سچائی پر یقین تبھی کرنا چاہیے جب اس کو بہت لوگوں نے مشاہدہ کی کسوٹی پر جانچ لیا ہو۔

(اس مضمون کے اگلے حصے میں سائنس کے تیسرے اور بہت ہی بنیادی طریقہ کار کا ذکر اور چند ایسی باتوں کا تجزیہ ہو گا جو بہت سے بھولے بھالے لوگ دھوکے سے سچ سمجھتے ہیں۔)

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Oct 2017, 11:39 AM