ستاروں کی چمک کا راز: بچپن، جوانی، بڑھاپا اور تین راستے

ستاروں کی باتیں کہانیوں اور نظموں کا موضوع رہی ہیں، پریاں تو ہمیشہ سے ستاروں سے ہی آتی ہیں۔ کیا ستارے ہمیشہ سے چمک رہے ہیں اور کیا ایسے ہی چمکتے رہیں گے؟ سائنسی تحقیقات نے ستاروں راز کو سمجھ لیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وصی حیدر

ستاروں کے علاوہ کائنات میں پورے طور سے خلا نہیں ہے بلکہ گیس کے بادل سے بکھرے ہوئے ہیں اور ہر جگہ پر density ایک جیسی نہیں ہے۔ ان گیس کے بادلوں میں زیادہ تر ہائیڈروجن اور تھوڑی ملاوٹ کچھ اور چیزوں کی بھی ہے۔ زیادہ تر جگہوں پر Density بہت ہی کم یعنی تقریباً ایک میٹر کے کیوب میں صرف 10 کروڑ ہائیڈروجن کے ایٹم ہیں۔

جن جگہوں پر Density تھوڑی زیادہ ہوتی ہے وہاں وہاں Gravitational کشش کی وجہ سے گیس اکٹھا ہوتی جاتی ہے اور Density دھیمے دھیمے بڑھتی جاتی ہے۔ جیسے جیسے Density بڑھتی ہے گیس کے Molecules کی رفتار بڑھتی جاتی ہے اس رفتار کے بڑھنے کو گرمی کہتے ہیں یعنی گیس کا درجہ حرارت (Temperature) بڑھنے لگتا ہے۔ Temperature بڑھتے بڑھتے یہ گیس کے بال کا رنگ ہلکا لال ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح جیسے شروع میں لوہار کے لوہے کا ٹکڑا بھٹی میں گرم کرنے پر پہلے لال ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے گیس کے بادل کو پروٹوستار (Protostar) کہتے ہیں یا اس کو ستارے کی پیدائش کہہ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر Orion کہکشاں میں کئی ایسے گیس کے بادل ہیں جہاں کئی ستارے اپنی زندگی کی پہلی منزلوں میں ہیں۔ یہ کہکشاں ہماری دنیا سے اتنی دور ہے کہ اس کی روشنی کو ہم تک آنے میں 1500 سال لگتے ہیں۔ ان Protostars سے آنے والی روشنی Infrared حدود میں ہوتی ہے۔

اگر ستاروں میں Energy پیدا کرنے کا صرف یہی ذریعہ ہوتا تو نہ صرف سارے ستارے ہلکے لال دکھائی دیتے بلکہ بہت جلد گل ہو جاتے۔ اگر ہمارا سورج ایسا ہی ہوتا تو اس کی Gravitational کشش کی وجہ سے ساری گرمی صرف 2 کروڑ سال ہی میں ختم ہو جاتی۔ لیکن اب یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ہماری اپنی زمین تقریباً 4500 کروڑ سال پرانی ہے۔ اس لیے ہمارا سورج کم از کم اتنا پرانا تو ضرور ہے۔

اصل میں سارے ستاروں کی توانائی کا راز ان میں نیوکلیر انرجی کا پیدا ہونا ہے جو مندرجہ ذیل طریقہ سے ہوتی ہے۔

Protostar میں جب Density وقت کے ساتھ Gravitational کشش کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے تو وہ تیزی سے سکڑنے لگتا ہے اور اس کا درجہ حرارت بڑھتا جاتا ہے۔ جب درجہ حرارت 10 لاکھ ڈگری ہو جاتا ہے تو نیوکلیر انرجی کا خزانہ اس Protostar کے سب سے گرم حصہ میں کھل جاتا ہے۔ اتنے زیادہ Temprature پر ہائیڈروجن کے سارے الکٹران باہر نکل جاتے ہیں اور یہ گیس کا بادل الکٹران اور پروٹان کی گیس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ گرمی زیادہ ہونے کی وجہ سے پروٹان اور الکٹران کی ٹکر سے نیوٹران بننے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس قدر گرمی کا ایک یہ بھی نتیجہ ہوتا ہے کہ دو پروٹان اور دو نیوٹران ایک لمبے درمیانی راستہ (پہلے ایک نیوٹران اور پروٹان مل کر ڈیوٹران اور پھر ٹریٹیم اور آخر میں Helium بناتے ہیں) طے کرنے کے بعد مل کر Helium گیس کا نیوکلیس بنا لیتے ہیں اور اس عمل میں بہت ساری انرجی نکلتی ہے۔ یہ انرجی کہاں سے آتی ہے؟ تحقیقات یہ بتاتی ہے کہ Helium کے ایک ایٹم کا وزن ہائیڈروجن کے چار ایٹموں کے وزن سے تھوڑا کم ہوتا ہے۔

ستاروں کی چمک کا راز: بچپن، جوانی، بڑھاپا اور تین راستے

مختصراً اس ستارے میں اب لاکھوں ہائیڈروجن بم پھٹ رہے ہیں اور اس کی ہی وجہ سے ستارہ چمکنے لگتا ہے۔ اور اب یہ گیس کا بادل بچپنے سے جوانی میں قدم رکھتا ہے اور پوری آب تاب سے چمکنے لگتا ہے اور اس کی چمک کا راز وہ لاکھوں ہائیڈروجن بم ہیں جو مستقل اس کو روشنی اور گرمی مہیا کر رہے ہیں۔ سورج سے آنے والی ساری توانائی کا یہی راز ہے۔ کسی بھی ستارے کی زندگی کا سب سے بڑا وقت اسی انرجی کو پیدا کرنے اور چمکنے میں گزرتا ہے۔ ہمارا اپنا سورج پچھلے 4500 کروڑ سالوں سے یہی کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ گیس کے بادل میں ہائیڈروجن ایک ایندھن کی طرح کام کرتا ہے اور اس کے نیوکلیر راستہ سے جلنے کے بعد Helium بنتی جاتی ہے اور یہ ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ Helium گیس پہلی بار سورج سے آنے والی روشنی کے تجزیہ میں ہی دریافت ہوئی تھی۔

ستارہ کی جوانی کے دور میں اس پر دو طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف کام کر کے توازن بنائے رکھتی ہیں۔ Gravitational کشش ستارہ کو اور زیادہ سکوڑنا چاہتی ہے اس کے برخلاف ہائیڈروجن بموں سے پیدا ہونے والی توانائی اور خاص کر گرمی ستارے کا حجم (Volumn) بڑھانا چاہتے ہیں۔ ان دونوں طاقتوں میں ایک رسہ کشی چلتی رہتی ہے اور ایک توازن اس وقت تک بنا رہتا ہے جب تک اندر جلنے کا ایندھن ہے۔ سورج کے اندر کا درجہ حرارت تقریباً دو کروڑ ڈگری اور باہری سطح کا درجہ حرارت 6000-8000 ڈگری ہے۔ ہمارے سورج میں ابھی اتنا ایندھن (یعنی ہائیڈروجن) ہے کہ وہ کئی ہزار کروڑ سال تک روشن رہے گا۔ زیادہ بڑا ستارہ اپنے ایندھن کو تیزی سے خرچ کرتا ہے اس لیے اس کی چمک جلدی ختم ہوگی۔

جب ستارہ کے اندر کی ساری ہائیڈروجن ختم ہو جاتی ہے تو ستارہ ٹھنڈا ہونے لگتا ہے اور Gravitational کشش گرمی سے باہر کے دباؤ پر غالب آنے لگتی ہے اور ستارے کے سکڑنے کا ایک دور پھر شروع ہونے لگتا ہے۔ اس سکڑن کی وجہ سے Gravitational کشش کی انرجی پھر گرمی میں تبدیل ہوتی ہے اور ستارہ کے اندر کے حصہ کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔ جب ستارہ کے بیچ کا حصہ کافی گرم ہو جاتا ہے تو کائنات کے اس کچن میں تین Helium کے ایٹم مل کر کاربن کے ایٹم بنانے لگتے ہیں اور اسی طرح پھر کاربن سے نیون اور پھر آکسیجن۔ اور یہ کئی سائیکل میں اسی طرح ستارہ کے سکڑنے سے نئے نئے ایٹم بنتے جاتے ہیں اور اس کی حد ختم ہوتی ہے جب لوہا (Iron) اور اسی کے وزن کے برابر کوبالٹ اور Nickle بنتے ہیں۔ اس سے زیادہ بھاری ایٹم اس کچن میں نہیں بن سکتے۔ ہر نئے ایٹم کے بننے میں ستارہ کے اندر کا حصہ سکڑتا اور گرم ہوتا جاتا ہے جب کہ اس کے باہر کا غلاف بڑا اور ٹھنڈا ہوتا جاتا ہے۔ باہر سے دیکھنے میں اب یہ ستارہ بڑا اور لال مائل ہوتا جاتا ہے۔ ستارہ کی زندگی میں اب وہ وقت آ گیا جب کہ اس کا نیوکلیر ایندھن ختم ہو گیا اور اس کا بڑھاپا شروع ہو گیا۔

اب اس وقت ستارہ کے اندر کے حصہ میں الیکٹران ایک گیس کی شکل میں اور کچھ بچی ہوئی Helium اور لوہے کے وزن کے برابر تک ایٹم ہوتے ہیں۔

Gravitational کشش کی طاقت کا دار و مدار ستارہ کے کل وزن پر منحصر ہوتا ہے۔ زیادہ وزن کا مطلب زیادہ سکڑن کی طاقت۔ ستارہ میں الیکٹران گیس اس سکڑن میں رکاوٹ پیدا کرنے کے لائق ہوتی ہے اگر ستارہ کا وزن ہمارے اپنے سورج کے 1.4 گنا سے کم ہو۔ یہ حد چندرا شیکھر نے 1935 میں کائناتی تحقیقات میں معلوم کی تھی۔ اگر ستارہ کا وزن سورج کے وزن کا 1.4 گنا سے کم ہوگا تو الیکٹران گیس ستارہ کی اور زیادہ سکڑن کو روکنے میں کامیاب ہوگی اور اسی طرح کچھ عرصہ تک چمکتا رہے گا اور اس طرح کے ستارہ کو سفید چھوٹو (White Dwarf) کہتے ہیں۔ ان ستاروں کا وزن تو سورج کے تقریباً برابر ہوتا ہے لیکن حجم میں یہ ہماری زمین کے برابر ہوتے ہیں۔ ان ستاروں کی Density پانی کے مقابلہ میں لاکھوں گنا ہوتی ہے۔ کیونکہ ان ستاروں کی چمک صرف Gravitational کشش کی سکڑن سے پیدا گرمی سے ہے اس لیے یہ دھیرے دھیرے ٹھنڈے ہوتے جائیں گے اور پھر ان سے آنے والی ساری روشنی ختم ہو جائے گی اور پھر یہ کالے چھوٹو (Black Dwarf) کہلاتے ہیں۔ پھر یہ مردہ ستارہ کبھی کسی کہکشاں کی غذا بن کر ختم ہوجائیں گے۔

اگر اس سکڑتے ستارہ کا وزن سورج کے وزن سے 1.4 گنا سے زیادہ اور تقریباً تین گنا سے کم ہو تو الیکٹران گیس زبردست Gravitational کشش کو نہیں روک پاتی اور ستارہ تیزی سے سکڑنے لگتا ہے۔ سارے بڑے ایٹم ٹوٹ جاتے ہیں اور کشش کے دباؤ میں الیکٹران اور پروٹان مل کر نیوٹران بناتے ہیں۔ اس طرح ستارہ کے بیچ کے حصہ میں زیادہ تر نیوٹران ہی رہ جاتے ہیں۔ اسی لیے اس ستارے کو نیوٹران سٹار کہتے ہیں۔ جب یہ سارے نیوٹران بالکل ایک دوسرے کو چھونے لگ جاتے ہیں تو ستارہ کی سکڑن نیوکلیر فورس کی وجہ سے رک جاتی ہے۔ ان ستاروں کو پلسار (Pulsars) بھی کہتے ہیں۔ یہ ستارے بہت تیزی سے گھومتے ہوئے ریڈیو لہریں نکالتے ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے A. Hewish نے 1967 میں پہلی بار ان ستاروں کی نشان دہی کی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک 300 نیوٹران ستارہ پہچانے جا چکے ہیں۔ ان پلسار کے چکر لگانے کا وقفہ چند ملی سیکنڈ (ایک ملی سیکنڈ ایک سیکنڈ کا ہزارواں حصہ ہوتا ہے) سے لے کر 4 سیکنڈ تک ناپا گیا ہے۔ دھیمے دھیمے ان کے گھومنے کی رفتار کم ہوتی جائے گی اور پھر یہ خاموش ہو جائیں گی۔ سکڑن کی وجہ سے نیوٹران ستارہ اتنا زیادہ Dense ہوتا ہے کہ اس کے مادہ کا ایک چمچہ کا وزن لاکھوں ٹن ہوتا ہے۔ اس کا کل وزن سورج کے برابر رہ جاتا ہے اور اس کا Radius تقریباً 10-20 کلو میٹر کے قریب ہوتا ہے۔ اس کی Density زیادہ ہونے کی وجہ سے نیوٹران ستارہ پر آواز کی رفتار تقریباً روشنی کی رفتار کے برابر ہو جاتی ہے۔

اگر سکڑے ہوئے ستارے کا وزن سورج کے وزن کا تین گنا سے بھی زیادہ ہو تو نیوٹران کے بیچ Repulsive نیوکلیر طاقت بھی سکڑن کو نہیں روک پاتی اور Density اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اس ستارہ سے کسی طرح کی روشنی بھی نہیں نکل پاتی اور اس ستارہ سے تقریباً ہر طرح کا رابطہ ختم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اس ستارہ کو Black Hole کہتے ہیں۔ اس کے بارے میں ابھی بہت کم معلومات ہے لیکن تحقیقات سےجتنا کچھ بھی معلوم ہے وہ حیرت انگیز ہے۔

ستاروں کی چمک کا راز: بچپن، جوانی، بڑھاپا اور تین راستے

کیونکہ ان Black Holes سے کسی بھی طرح کی روشنی یا اور Radiation نہیں آتا اس لیے ان کے بارے مٰں معلومات کا ذریعہ کائنات میں ان کے پاس کی چیزوں پر ان کی Gravitational کشش ہے۔ اس کے علاوہ 2015 میں دو Black Hole کے آپس میں ضم ہوتے Signals کو ریکارڈ کرنے پرتین امریکی سائنس دانوں کو فزکس کا نوبل انعام ملا ہے۔

یمارا اپنا سورج جو اس زمین پر ہر طرح کی زندگی کا ضامن ہے یہ تقریباً 4500 کروڑ سال تک اور چمکے گا اس کے بعد اس کے اندر کا حصہ سکڑتے سکڑتے White Dwarf بنے گا۔ اس کے باہر کا حصہ ایک حالہ کی طرح بڑا ہوتا جائے گا اور بڑا ہوتا ہوا گولہ زمین تک پہنچ جائے گا جس کی گرمی کی وجہ سے زمین کی ہر چیز جھلس جائے گی۔ گھبرائیے نہیں یہ سب ہونے میں تقریباً 4500 کروڑ سال سے زیادہ کا وقت ہے۔ اس بیچ انسان اتنی ترقی کر لے گا کہ کائنات میں کسی اور اچھی جگہ اپنے رہنے کا انتظام کر لے گا۔

اس مضمون میں بیان یہ تمام چیزیں سائنسی تحقیقات کی حیرت انگیز کامیابی ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ ساری معلومات حاصل کرنا صرف ایمانداری سے سائنس کے استعمال سے ہی ممکن ہو پایا ہے۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Nov 2017, 12:55 PM