گرتے ہوئے سیب کی کہانی، نیوٹن کی زبانی

سائنسدانوں پر نیوٹن کے حرکت کے قوانین کا اتنا اثر ہوا کہ یہ تصور کر لیا گیا کہ کائنات کی ہر طرح کی حرکت کو نیوٹن کے قوانین کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔

تصور بشکریہ اباؤٹ منچیسٹر ڈاٹ کو ڈاٹ یو کے
تصور بشکریہ اباؤٹ منچیسٹر ڈاٹ کو ڈاٹ یو کے
user

وصی حیدر

پرانی کہانیوں قصوں اور کہاوتوں میں سیب کا رول کافی اہم رہا ہے۔ وہ سیب ہی تھا جس کے لالچ میں حضرت آدم کو جنت چھوڑنی پڑی۔ جھگڑے کی جڑ سیب ہی تھا جس کی وجہ سے یونان کی مشہور لڑائی (Trojan war) ایک لمبے عرصے تک چلتی رہی۔ زہر آلود سیب سنو وائٹ کی جان ہی لے لیتا ہے۔ ایک سیب روز کھانے سے بیماری سے بچ سکتے ہیں اور ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

اوپر بیان کئے گئے سیبوں کے علاوہ سائنس دانوں کے لئے سب سے اہم سیب وہ ہے جو 1666 میں ایک پیڑ سے گرا اور اس کو نیوٹن نے دیکھا اور وہ فکر میں ڈوب گیا کہ سیب کیوں زمین کی طرف ایسی سمت میں گرا جس کو اگر آگے بڑھائیں تو تقریباً زمین کے مرکز سے ہو کر گزرے گی۔

آئزیک نیوٹن ( Issac Newton) کے بارے میں یہ قصہ (جو شاید سچ نہیں ہے) سب سے پہلے والٹیر نے اپنی کتاب (Phils Sophie de Newton ) میں 1738 میں بیان کیا۔ والٹیر کا اصل نام فرینکوئس ماری اراؤٹ تھا اور وہ فرانس کے مشہور شہر پیرس میں پیدا ہوا ایک عظیم قصہ گو تھا۔ اس نے 2 ہزار سے زیادہ کتابیں اور مضمون لکھے۔ وہ بولنے لکھنے اور مذہبی آزادی کا علمبردار اور حکومتی معاملات میں مذہبی دخل اندازی کے خلاف تھا۔

نیوٹن نے اپنی سوانح عمری یا کسی کتاب میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ سیب کے گرنے کا تعلق زمینی کشش (Gravitaion of earth) سے ہے۔ اس لئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ ایک من گھڑت کہانی سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ ذرا حساب لگا کر دیکھیں کہ پیڑ سے سیب کو گرنے میں کتنا وقت لگے گا اور کیا اس کو دیکھنا اتنا سہل ہوگا۔ فرض کیجئے کہ سیب کے پیڑ کی ٹہنی زمین سے 3میٹر اور ایک پکا ہوا سیب اتنی اونچائی سے گرتا ہے تو زمینی کشش کے قانون کے حساب سے اس کو ایک سیکنڈ کا4/ 3 (تین چوتھائی) حصے کے برابر ہی وقت لگے گا۔ اتنے نایاب واقعہ کو دیکھ پانا کافی مشکل کام ہے۔

سیب کیوں گرا؟ اس سوال کے جواب میں نیوٹن کا معصوم جواب’زمین کی کشش کی وجہ سے‘ نہایت ہی اہم تھا ، جس نے نہ صرف سیب کے گرنے کی وجہ بیان کی بلکہ ہمارے نظام شمسی کی بے شمار الجھنوں کو بھی حل کردیا۔

زمینی کشش کا قانون نیوٹن نے ایک سہل سی ایکویشن( Equation ) میں لکھ دیا۔ یہ قانون بتا تا ہے کہ کشش کی طاقت(Force) چیزوں کی مقدار (Mass ) پر منحصر ہے۔ مقدار اگر 5 کلو سے بڑھ کر 10 کلو ہو جائے تو طاقت دوگنی ہو جائے گی ۔ یعنی کہ دو چیزوں میں یہ طاقت ان کی مقدار کے بڑھنے سے بڑھے گا ۔ اس کے علاوہ طاقت ان کے درمیان فاصلہ پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر فاصلہ 5 میڑ سے 50میڑ کر دیں (یعنی 10 گنا بڑھادیں ) تو طاقت 100گنا کم ہو جائے گی ۔ اسی وجہ سے اس کو انورس مربع قانون (Inverse square law)بھی کہتے ہیں ۔ اسی طرح برقی قوت (Electrical Force) کا قانون چارجوں (Charges) کے بیچ موجود ہوتا ہے۔ جب روشنی (بجلی کا بلب ، سورج ، چاند یا ستارے سے آنے والی) اپنے ذرائع سے خارج ہوتی ہے تو یہ بھی فاصلہ پر منحصر انورس مربع قانون کے مطابق گردش کرتی ہے۔ یعنی فاصلہ اگر 10 گنا کم ہوگا تو وہ 100 گنا بڑھ جائے گی۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب کائناتی پیمانہ پر زمینی کشش کی طاقت اتنی اہم ہے تو پھر ہم آئٹم اور مالیکیول کے پیمانے پر (جبکہ فاصلے بہت کم ہوتے ہیں ) ہم اس کو کیوں بالکل ہی نظر انداز کردیتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے آئٹم پیمانے پر برقی قوت آئٹم کے اندرونی حصہ یعنی مرکز میں موجود نیوکلیائی قوت کے مقابلے میں کروڑوں گنا زیادہ طاقت ور ہوتی ہے ۔ (مثلاً صرف ہائیڈروجن آئٹم میں ہی برقی قوت کے مقابلے میں نیوکلائی قوت 10 کی پاور 40 گنا زیادہ ہے)

اس لئے آئٹمی اور نیو کلیر پیمانے پر ہم با آسانی زمینی کشش کی قوت کو نظر انداز کرسکتے ہیں ۔ نیوکلیائی قوت کا اثر بہت ہی کم فاصلہ تک ہوتا ہے اس لئے اس کا اثر آئٹم کے باہر تقریباً محسوس ہی نہیں ہوتا ۔ برقی قوت کی رینج بڑی ہوتا ہے لیکن زمین چاند سورج اور ستاروں میں کل چارج کیونکہ صفر ہوتا ہے اس لئے ان کے بیچ برقی قوت نہیں ہوتی ہے۔ کائناتی پیمانہ پر فاصلہ بہت زیادہ ہیں لیکن کیونکہ ان چیزوں کی مقدار بہت زیادہ ہے اس لئے ان کی حرکت کو سمجھنے کے لئے زمینی کشش کی قوت کا قانون ہی واحد ذریعہ ہے۔

سیب آخر زمین کی طرف ہی کیونک گرا؟ اس سوال کے جواب میں نیوٹن نے کہا کہ زمینی کشش کی وجہ سے لیکن وہ اس کشش کے انورس مربع قانون تک کیسے پہنچا؟ اس کی توجہ صرف سیب کا گرنا ہوتا تو کوئی بھی کشش کا قانون کافی ہوتا۔ اصل میں وہ اس کشش کے قانون سے ہمارے گرد چاند اور سورج کے گرد سیاروں کی گردش کے متعدد مشاہدات کو بھی سمجھنا چاہتا تھا۔

پچھلے مضمون میں یہ ذکر ہو چکا ہے کہ گیلیلیو نے کوپرنیکس کے نظریہ (کہ زمین اورباقی سارے سیارے سورج کے گرد اپنے اپنے گولائی کے راستے پر گردش کرتے ہیں) کی پرزور حمایت میں کئی نئے تجربات ثبوت کے طور پر پیش کئے اور ان باتوں کی روشنی میں ارسطو کے نظریہ کو باوجود چرچ کی حمایت کے بدلنے کا وقت 2000 سال بعد آ ہی گیا۔

اگلا اہم قدم جے کیپلر کی نظام شمسی سے متعلق تحقیقات تھی۔ کیپلر ایک ماہر ریاضی داں اور فلکیاتی مشاہدات کا ماہر تھا۔ 1600 میں اس کو ایک مشہور فلکیاتی سائنسداں ٹائیکو براہے (جو ایک رنگارنگ طبیعت کا مالک تھا) نے اپنے کام میں مدد کے لیے اسسٹنٹ کے طور پر ملازم رکھا۔

’ٹائیکو براہے ‘ایک رئیس خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور بادشاہ و ملکہ کے کافی قریب تھا۔ اس وجہ سے اس کو ایک فلکیاتی تجربہ گاہ بنانے کے لیے بڑی رقم حاصل ہوئی تھی۔ اس نے بہت سارے فلکیاتی اوزاروں کی ایجاد کی اور بہت ہی باریکی اور جانفشانی سے سارے سیاروں کے بارے میں ہر طرح کی معلومات کو قلم بند کیا۔ سیاروں کے علاوہ 1000 سے زائد ستاروں کے بارے میں جو معلومات اس وقت ممکن تھی وہ ایک کتاب میں بھی درج کی۔ لیکن ان تمام بیش قیمتی معلومات کو اس نے چھپا کر اپنے سینہ سے لگائے رکھا اور اپنے سب سے قریبی مشیر کیپلر کو بھی اس میں شریک نہیں کیا۔ وہ کیپلر کی ذہانت کا قائل تھا اور اس لئے اپنی تجربہ گاہ میں اس کو ہر طرح کی آزادی دے رکھی تھی۔

ایک دلچسپ قصہ اس کی شخصیت کو اجاگر کرتا ہے۔ ایک مرتبہ ریاضی سے متعلق اس کی بحث کسی اور دانشور سے ہوئی۔ اس زمانہ میں کسی بھی بحث کا آخری فیصلہ ایک دوسرے پر پستول سے گولی چلا کر ہوتا تھا ۔ اس عمل میں اس کی جان تو بچ گئی لیکن ناک ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد وہ پیتل کی ناک اور خاص موقعوں پر سونے اور چاندی کی ناک پہن کر نکلتا تھا۔ یہ کہانی مشہور ہے کہ ملکہ سے قربت کی وجہ سے اس کو زہر دے کر مارا گیا۔

ٹائیکو براہے کے انتقال کے بعد اس کی ساری فلکیاتی تحقیق کا خزانہ کیپلر کو ملا۔ کیپلر تقریباً 10 سال تک سیاروں کے بارے میں تحقیق کرتا رہا۔ اس تمام ذخیرہ کا باریکی سے مطالعہ کر کے اس کو تین قوانین کی شکل میں مرتب کیا اور اس طرح وہ ٹائیکو براہے کا اصل جانشین اور یورپ میں سائنسی انقلاب کا ایک اہم رکن ثابت ہوا ۔

کیپلر کے 3 قوانین ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ نظام شمسی میں تمام سیارے کس طرح گردش کرتے ہیں۔ اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ سیاروں کا راستہ (orbit) گولائی میں نہیں بلکہ پچکا ہوا دائرہ (Ellipse) ہوتا ہے۔ کیپلر کے یہ تین قوانین نیوٹن کے قانون تک پہنچنے کی اہم کڑی ہیں۔

مختصراً کیپلر کے قانون یہ بتاتے ہیں کہ سیارے کس طرح گردش کرتے ہیں اور نیوٹن کا قانون یہ بتاتا ہے کہ وہ اس طرح گردش کیوں کرتے ہیں۔ نیوٹن زمینی کشش پر مبنی قانون نہ صرف ہمارے آس پاس چیزوں کے گرنے کی وجہ بتاتا ہے بلکہ وقت کے ساتھ ان کی رفتار میں کیا تبدیلی ہوگی اس کی بھی صحیح پیشن گوئی کرتا ہے۔

اس کے علاوہ یہ مختصر سا قانون چاند کا ہماری زمین کے چاروں طرف گردش کرنا، اس کی رفتار ، اس کے راستہ کی شکل اور اس کے علاوہ سارے سیاروں کے سورج کے چاروں طرف گردش کرنے کے سلسلہ میں تقریباً تمام مشاہدات کو سمجھنا کافی آسان کر دیتا ہے۔ اسی لئے اس قانون کو زمینی کشش کا عالمگیر (Universal) قانون کہا جاتا ہے۔

نیوٹن کی تعریف اس بات میں ہے کہ اس نے ہر طرح کی حرکت کے الجھے ہوئے مسئلہ کو حرکت کے تین قوانین کی مدد سے سمجھنا آسان کر دیا۔ اس کے علاوہ زمین کی طرف گرنے والی چیزوں سے لے کر تمام سیاروں کی گردش کو ایک آسان سے قانون میں سمو دیا۔ ان چیزوں کا اس زمانہ کے سائنسدانوں پر اتنا اثر تھا کہ اب یہ تصور کر لیا گیا کہ ہر طرح کی حرکت کو نیوٹن کے قوانین کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔

اس مضمون سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ سائنسی سمجھ درجہ بہ درجہ ہی بڑھتی جاتی ہے جیسا کہ خود نیوٹن کا کہنا تھا کہ ’’میں قدرت کےر ازوں کی جھلک اپنے سے پہلے دانشوروں کے کندھوں پر بیٹھ کر ہی دیکھ پایا ہوں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔