سوشل میڈیادور جدید کا میڈیا ... مظہر حسنین

اگر آپ فیس بک، ٹوئٹر، لنکڈان، یو ٹیوب اور کوئی ایک بلاگ پچھلے پانچ سال سے استعمال کر رہے ہیں تو آپ کاشمار ٹیکنالوجی دوستوں میں ہوگا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مظہر حسنین

آج کی دنیا میں ٹیکنالوجی اور خاص طور پرآن لائن ٹیکنالوجی جس رفتار سے ہماری زندگی میں تبدیلیاں لا رہی ہے، یہ قابل رشک ہے۔ وہ تبدیلی جسے ہم آئے روز سوشل میڈیا ویب سائٹس پر دیکھتے ہیں اسی تغیر کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ ہمیں احساس ہے کہ آج کی آن لائن دنیا جسے ہم ابھی دیکھ رہے ہیں اگلے چند مہینوں میں نہ کہ سالوں میں یکسر مختلف ہو جائے گی۔ اگر ہم اس تیز رفتار ترقی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائیں تو پھر ہم اس قابل ہوں گے کہ اولیں دس سوشل میڈیا رجحانات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔

اگر آپ درجہ اول کی پانچ سوشل ویب سائٹس جن میں فیس بک، ٹوئٹر، لنکڈان، یو ٹیوب اور کوئی ایک بلاگ پچھلے پانچ سال سے استعمال کر رہے ہیں تو آپ کاشمار ضرور ٹیکنالوجی دوستوں میں ہوگا۔ ساری دنیا آہستہ آہستہ اسی طرف آتی جا رہی ہے۔ جب سے ہارورڈ یونیورسٹی اور براؤئز یونیورسٹی نے سوشل میڈیا کو بنیادی پلیٹ فورم قرار دیتے ہوئے بطور مضمون پڑھانا شروع کیاتو لوگوں کو اندازہ ہوا ہے کہ یہ ایک اہم کام ہے نہ کہ محض وقتی فیشن یا غیر ضروری طرز عمل؟اب بہت زیادہ لوگ سوشل میڈیا کو بطور بنیادی پلیٹ فورم اختیار کریں گے۔ اپنی ذاتی اور کاروباری ضرورتوں، مارکیٹنگ، مواصلات، حلقہ بندی، فروخت اور اپنے برینڈ کو مؤثر بنانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کہیں زیادہ ہونے لگے گا۔

سوشل میڈیادور جدید کا میڈیا ... مظہر حسنین
ہم یہ پہلے ہی جانتے ہیں کہ فیس بک رابطے کا ایک بہترین ذریعہ بن چکا ہے، افراد اور کاروبار دونوں کے لیے! یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ لوگوں کے لیے ایک ویب سائٹ پر رابطے کا ذریعہ بنا جائے جس میں سب سے بڑی سوشل میڈیا سائٹ پر پہلے سے موجود بنیادی معلومات کے استعمال سے نہ صرف لاگ اِن کیا جاسکے بلکہ ہر وہ بات اور ہر وہ عمل جو آپ دوسروں کے ساتھ شیئر کرنا چاہیں بڑی آسانی سے کر سکیں اور جب چاہیں وہ فیس بک پر شیئر بھی کر لیں۔

یو ٹیوب نے بڑی عقلمندی کی جو گوگل استعمال کرنے والوں کو اپنی سائٹ پر گوگل اکاؤنٹ سے لاگ اِن کرنے کی اجازت دے دی۔ اب اور زیادہ سوشل میڈیا سائٹیں اس بات کی اجازت دے دیں گی کہ آپ صرف ایک بنیادی لاگ اِن سے کئی سائٹوں تک رسائی حاصل کر سکیں، شاید ایک دوسرے کے مقابل کی سائٹوں پر بھی۔جیسا کہ ٹوئٹر لاگ اِن کے ذریعے سے فیس بک پر بھی لاگ اِن کیا جاسکے۔ ان آسانیوں کی وجہ سے قوی امکان ہے کہ لوگ بیک وقت ایک سے زیادہ اَن لائن سوشل پلیٹ فارمز کو باقاعدگی سے استعمال کریں گے۔ وہ اپنی آن لائن موجودگی اور معلومات کو زیادہ لوگوں کے ساتھ کم وقت اور کم محنت سے شیئر کر لیا کریں گے۔

یہی وہ رجحان ہے جس کی ہمیں سب سے زیادہ فکر لاحق ہے۔ اصل طاقت کس کے پاس ہے؟ کیا فیس بک کے مالک مارک زکر برگ کے پاس جو کہ اس دنیا میں آپ کی ذاتی معلومات کا خزانہ جمع کیے ہوئے ہے؟ یا پھر ملکوں کی حکومتوں کے پاس جو کسی بھی وقت آپ کی سائٹ کو بند کر سکتی ہیں، اگر یہ سائٹ حکومت کے ساتھ اہم معلومات کا تبادلہ کرنے سے انکار کر دے۔ اس وقت سب سے زیادہ زیرِ بحث پرائیویسی کے معاملات ہیں۔ اہم سوشل میڈیا سائٹوں پر معلومات کا معاملہ زیادہ سخت روی کا شکار ہو گا اور عالمی سطح پر اس سلسلے میں قانون سازی کی جائے گی۔ یہ قوانین بنیادی طور پر اس بات کا احاطہ کریں گے کہ ذاتی معلومات کے حصول کے لیے سوشل میڈیا پر ایسے حملے نہ کیے جا ئے۔ کیونکہ بے پناہ معلومات یہاں موجود ہیں اور اس خزانے کا اصل مالک کون ہے؟ یہ ابھی تک ایک سوالیہ نشان ہے!

ٹوئٹر پہلے ہی یہ اعلان کر چکا ہے کہ وہ اس دھائی کا ریئل ٹائم ٹی وی بننا چاہتا ہے۔ ٹوئٹر نے اس بات کا اظہار سال کے شروع میں ہونے والے ایم ٹی وی ایوارڈ میں کیا۔ ٹی وی دیکھنے والوں کو اگر اس بات کی اجازت مل جائے کہ وہ ٹی وی پر چلنے والے پروگراموں کے بارے میں ٹوئٹ کر سکیں تو ایسا رابطہ آن لائن دنیا اور آف لائن دنیا کے درمیان ایک پل کا کام کرے گا۔

آج کل اپنی ویڈیو پیش کرنا دن بدن آسان سے آسان تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اب اس بات کا روشن امکان موجود ہے کہ جو چاہے اپنا فری ٹی وی چینل شروع کر سکے اور یہ چھوٹا سا ٹی وی ماس میڈیا کے مدِ مقابل آجائے۔

صرف گوگل یا مائیکرو سافٹ ہی ایسے ادارے نہیں ہیں جو ہمیشہ نت نئی ٹیکنالوجی فوراً اپناتے ہیں بلکہ کچھ سوشل میڈیا سائٹس نے ایسی کمپنیز کو خرید لیا ہے جنہوں نے بہت زبردست ایپلی کیشنز یا پلگ ان ڈیویلپمنٹ کی تھی تاکہ سوشل میڈیا پلیٹ فورم کو وسعت دی جاسکے۔ کئی بہت چھوٹی میڈیا سائٹس اور دوسری خدماتی کمپنیز ایک دوسرے میں ضم ہونا چاہیں گی تاکہ ایک بڑی شناخت بناسکیں اور ساتھ مل کر فیس بک یا لنکڈان کا مقابلہ کرسکیں۔ اس خبر پرکسی کو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے اگر مائی اسپیس، یوٹیوب کے ساتھ مل جائے اور اپنی گرتی ہوئی سائٹ کو ایک نیا تخلیقی موڑ دے کر دونوں ہی ایک مقامی ٹی وی میں ضم ہو جائیں۔

سوشل میڈیادور جدید کا میڈیا ... مظہر حسنین

کئی لوگوں کے لیے روایتی مارکیٹنگ کے طریقوں جیسا کہ میگزین، اشتہاری بورڈ، ٹی وی کمرشلز اور پمفلٹ وغیرہ پر خرچ ہونے والی رقوم کے بارے میں رپورٹیں پڑھتے رہنا ایک پریشان امر ہے۔ خصوصاً اِن حالات میں جب اعداد و شمار صاف طور پر دکھا رہے ہیں کہ پرانے مارکیٹنگ کے طریقے بالکل غیر مؤثرہوتے جا رہے ہیں۔ آخر کار پرانے اور فرسودہ مارکیٹنگ کے طریقوں اور روایتی اشتہار بازی کا مضحکہ خیز عمل آن لائن میڈیا ایڈورٹائزنگ کی طرف منتقل کئے جانے لگے ہیں۔ کمپنیاں اس بات کی قدر و قیمت کو پہچان جائیں گی کہ ان کے متوقع سامعین و ناظرین کے پاس کم وقت، کم لاگت میں سوشل میڈیا کے ذریعے فوری طور پر پہنچا جا سکتا ہے ۔ ایسا صرف آن لائن سوشل میڈیا ہی کر سکتا ہے۔ اس وقت دنیا میں ستر فیصد لوگوں کے پاس موبائل فون ہیں۔ یہی وقت ہے اس سے پہلے کہ یہ سادہ موبائل فون اسمارٹ فون میں بدل جائیں۔ ذرا تصور کریں ہمارے لیے ایک فرد کے طور پراس بات کا کیا مطلب ہے ۔ کاروبار تو چاہتا ہی یہ ہے کہ ساری دنیا اس کی بات سنے۔ترقی پذیر ممالک میں انٹرنیٹ تک رسائی انٹرنیشنل سرحدوں کو باآسانی پار کرنے کی استعداد میں اضافہ کر دے گی۔ اس کے نتیجے میں ایک بہت بڑی تعداد آن لائن دنیا کی پیش کشوں کو قبول کرنے کے لیے میسر ہو جائے گی اورمزید کاروباری مواقع پیدا ہو جائیں گے۔

آج ہم کئی ایک ایسی اشیاءاور خدمات استعمال کرتے ہیں جو انتہائی حیران کن ہیں۔ جنہوں نے ہمارے معاشروں میں بے پناہ تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ آج ہم تعلقات سماجی سطح پر آن لائن بھی بنا سکتے ہیں اور آف لائن بھی!

غیر روایتی طور پر اثر پذیر ہونے والے عوامل جیسا کہ بلاگرز اور دوسرے سوشل نیٹ ورک سے بننے والے تعلقات ہی اہم ترین ہیں جو ہمارے خریداری کے فیصلے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم عام طور پر دوستوں کے مشورے پر عمل کرتے ہیں۔ اور اب تو آپ کے پاس یہ سوشل نیٹ ورکس بھی ہیں جہاں ’’دوستوں کے دوستوں‘‘ کا بھی اپنا اثر و رسوخ ہوتا ہے ۔ یہ اثرات وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی زیادہ اثر انداز ہونے والے ہیں۔کاروبار اس بات پر مجبور ہو جائیں گے کہ وہ بالکل جدید، ہمہ جہت اور مربوط طریقۂ کار اپنالیں ۔جس سے متوقع صارف تک بہتر طور پر پہنچا جاسکے۔ ان میں سے بیشتر صارف انٹرنیٹ پر موجود ہوتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ زیادہ تر کمپنیاں اپنے صارفین کو ہی اپنے کاروبار کے سامنے رکھا کریں گی یا تو وہ بلاگرز کو اسپانسر کریں گی یا پھر اپنی آن لائن تشہیر میں اپنے ہی بہترین صارفین کو مثال کے طور پر پیش کیا کریں گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔