بلیک ہول، کائنات کی سمجھ کی تاریخ (آٹھویں قسط)... وصی حیدر

ان تصویروں سے یہ معلوم ہوا کہ یہ بلیک ہول سورج سے650 کروڑ گنا بھاری ہے ہماری زمین سے 30 لاکھ گنا بڑا یعنی پورے نظام شمسی سے بڑا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وصی حیدر

10 اپریل کو یہ اخباروں میں اعلان ہوا کہ فلکیاتی سائنسدانوں نے وہ کامیابی حاصل کرلی جو ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ناممکن سمجھی جاتی تھی وہ دوربینوں کی مدد سے بلیک ہول کی پہلی تصویر لینے میں کامیاب ہوئے۔

یہ بلیک ہول ہم سے تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ روشنی سال (ایک روشنی سال وہ دوری ہے جو روشنی ایک سال میں چلتی ہے) دور ایک کہکشاں (جس کا نام ایم 87 ہے) کے سینٹر پر ہے۔ ان تصویروں سے یہ معلوم ہوا کہ یہ بلیک ہول سورج سےچھ سو پچاس کروڑ گنا بھاری ہے ہماری زمین سے 30 لاکھ گنا بڑا یعنی پورے نظام شمسی سے بڑا۔ سائنسدانوں کی زبان میں یہ تقریباً ایک انتہا سے زیادہ بڑا دیو جیسا ہے۔


یہ بلیک ہول ہم سے اتنا دور ہے کہ اس کی کوئی معنی خیز تصویر کسی ایک دور بین سے لینا ممکن نہیں تھا اس لئے دنیا میں مختلف جگہوں پر لگی ہوئی آٹھ دور بینوں نے مل کر اس کی تصویر کھینچی۔ دوربینوں کے اس گروپ کا نام ایونٹ ہورائزن (Event Horizon) دور بین ہے۔

پروفیسر ہینکو فالکے (Netherland) نے یہ تجربہ تجویز کیا تھا کہ اس بلیک ہول کی تصویر لی جاسکتی ہے۔ یہ بلیک ہول اتنا بڑا ہے کہ اس کو انہوں نے بلیک ہول کا ہیوی ویٹ چیمپئن کہا اور ان کے خیال میں یہ سب سے بڑے بلیک ہول میں سے ایک ہے۔


تصویر یہ دکھاتی ہے کہ ایک گول کالی ڈسک کے چاروں طرف بہت ہی زیادہ روشن گولا ہے یہ گولا اتنا زیادہ روشن اور چمکدار ہے کہ اس کی روشنی کروڑوں ستاروں کی ساری روشنی سے زیادہ ہے۔ آس پاس بلیک ہول کی گرویوٹیشنل کشش اس قدر زیادہ ہے کہ آس پاس کا مادہ اور گیسیس نہایت تیز رفتاری سے اس کی طرف کھینچ کر اس میں شامل ہوتی جارہی ہیں۔ روشنی کا حالہ ان گیسوں کے تیز رفتاری سے چل کر گرم ہونے کی وجہ سے بنا ہے۔ اسی روشن حالہ کی وجہ سے سائنسداں اس کی تصویر لینے میں کامیاب ہوئے۔ بیچ میں کالے گولے کی حد وہ جگہ ہے جہاں پر سارہ مادہ اور گیسیس بلیک ہول میں گر کر غائب ہو رہی ہیں اور جب وہ بلیک ہول کے اندر چلتی جاتی ہیں تو پھربلیک ہول کی گرویوٹیشنل کشش کی زیادتی کی وجہ سے وہاں سے روشنی کی کوئی کرن بھی باہر نہیں آسکتی۔

ڈاکٹر زیری یونیسی (جو تصویر لینے والی سائنسدانوں کی ٹیم کے ممبر ہیں) نے اس تصویر کو دیکھ کر یہ کہا کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آئنسٹائین کی گرویوٹیشن تھیوری کو استعمال کر کے جو قیاس اور خاکہ ہم لوگوں کے ذہن میں تھا وہ صحیح تھا اور آئنسٹائینپھر ایک بڑے امتحان میں کامیاب ہوئے۔


حالانکہ بلیک ہول کی کائنات میں موجودگی سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ کائنات میں گرویوٹیشنل قوت کی وجہ سے سائنس کی سمجھ کا ایک سخت امتحان ہے۔ ان تصویروں کی مدد سے سائنسدانوں کی دلچسپی یہ بھی ہوگی کہ کیا ہم کوئی نئی چونکا دینے والی بات سیکھیں گے۔

پروفیسر فالکے کو اس تجربہ کا خیال 1993 میں آیا جب وہ ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے پڑھ رہے تھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ بلیک ہولکے نزدیک بہت ہی قوت ور ریڈیو لہریں پیدا ہوں گی جن کو ہم اپنی زمین پر لگی دور بینوں کی مدد سے سیکھ سکیں گیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی پڑھا تھا کہ اپنی لا محدود گرویوٹیشنل قوت کی وجہ سے بلیک ہول اپنے سائز سے ڈھائی گنا زیادہ بڑا دکھائی دے گا۔ ان دونوں خصوصیات کو ذہن میں رکھ کر بلیک ہول کو دیکھ پانے کا کام ممکن ہو سکتا ہے۔


پروفیسر فالکے 20 سال کی پر زور کوشش کرنے کےبعد یورپ کی مختلف حکومتوں نے بلیک ہول کی تلاش کے لئے تقریباً 4 کروڑ پاؤنڈ کی گرانٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پروفیسر شیفرڈ (ہارورڈ، امریکا) سائنسدانوں نے ایک گروپ کی قیادت میں آٹھ دور بینوں کو ملا کر ایسی دور بین بنا لی جس کی وجہ سے تقریباً ہماری دنیا کےسائز کی ایک بڑی دور بین جیسا کام کرے۔ ان میں کی سبھی دور بین بہت ہی عجیب جگہوں پر آبادی سے دور ہیں تاکہ بغیر کسی شور شرابے کے تصویر لینے کا کام ہوسکے۔ مثلاً ہوائی جینزے کے خاموش آتش فشاں پہاڑ، میکسکو، اریزونا کے پہاڑ پر، اسپین کے نیواڈا، چلی کے ریگستان اور قطب جنوبی پر لگی دور بینیں اس گروپ میں شامل رہیں۔

دنیا بھر کے دو سو سے زیادہ فلکیات سے مطالق ماہر سائنسدانوں نے دس روز تک ایم 87 کہکشاں سے آنے والی روشنی اور ریڈیو لہروں کو ریکارڈ کیا۔ اس عمل میں جو اطلاع ریکارڈ ہوئی اس کا تجزیہ امریکا میں باسٹن اور جرمنی کے بان شہر کی تجربہ گاہوں میں کیا گیا۔ امریکا کی ایم آئی ٹی کی ایک نوجوان پی ایچ ڈی کی طالبہ کیٹ بومان نے ایک ایسا کمپوٹر پروگرام بنایا جس کی مدد سے اس ساری اطلاع کا تجربہ کرکے ہی آخرکار وہ تصویر بن پائی جو ہم اب دیکھ پا رہے ہیں۔


اس کامیابی کے بعد سائنسدانوں کا یہی گروپ اب ہماری کہکشاں کے محور پر جو بلیک ہول ہونے کا قیاس ہے اس کی تصویر لینے کی جدوجہد میں لگے ہیں۔ حالانکہ ہماری کہکشاں کا سینٹر صرف پچپن روشنی سال دور ہے لیکن اس کے چاروں طرف کا ہالہ چھوٹا اور کم روشن ہے۔

اس بڑی کامیابی نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ کائنات کو سمجھنے کے لئے آئنسٹائین کی گرویوٹیشن کی تھیوری ہی صحیح راستہ ہے اور کائنات میں ہونے والی چیزوں کو صرف سائنس کی مدد سے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 May 2019, 7:10 PM