کائنات کی سمجھ کی تاریخ (چوتھی قسط)... وصی حیدر

آئنسٹائن کی جنرل ریوٹوٹی کی Equations حل کرنا نہایت مشکل کام ہے لیکن اس سے پیشن گوئی کرنے کے لئے حل کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کام کو آسانی سے کرنے کے لئے فریمان نے دو بہت ہی مناسب فریضوں کا استعمال کیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وصی حیدر

امریکی سائنسداں ایڈون ہبل (1889-1953)کی 1929 میں دریافت کہ ’’کائنات وقت کے ساتھ پھیلتی جارہی ہے اور ساری کہکشاؤں کے بیچ کی دوری بڑھتی جارہی ہے‘‘ 20 ویں صدی کی کائناتی تحقیقات کے لئے ایک انقلابی کھوج تھی۔ ہم اس بات پر اب حیرت کرسکتے ہیں کہ یہ حقیقت پہلے کیوں معلوم نہیں ہوئی کہ ساکت کائنات ممکن ہی نہیں۔

نیوٹن (1642-1726) اور اس وقت کے سائنسدانوں کو یہ بات صاف دیکھنی چاہیے تھی کہ گریوٹیشنل قوت کی وجہ سے پوری کائنات سکڑنی چاہیے یعنی کائنات ساکت نہیں رہ سکتی۔ لیکن فرض کیجیے کہ کائنات مدھم رفتار سے پھیل رہی ہے تو گرویوٹیشنل کشش کی وجہ سے اس کے پھیلنے کی رفتار وقت کے ساتھ کم ہوتی جائے گی اور پھر وہ اس کشش کی وجہ سے سکڑنا شروع کر دے گی۔ لیکن اگر کائنات ایک خاص رفتار سے زیادہ پھیل رہی ہے تو گریوٹی کی کشش اس کو پھیلنے سے نہیں روک پائے گی اور کائنات ہمیشہ پھیلتی ہی جائے گی۔

اوپر بیان کیا گیا عمل ہم آسانی سے ثابت کر سکتے ہیں۔ اگر ہن کسی گیند کو اونچائی کی طرف پھینکیں تو اس کی رفتار کم ہوتی جاتی ہے اور کشش کی وجہ سے وہ ایک خاص اونچائی پر جاکر رک جاتی ہے اور اس کے بعد اسی کشش کی وجہ سے وہ پھر زمین طرف واپس آنا شروع کر دیتی ہے۔ لیکن اگر اوپر جانے والے راکٹ کی رفتار 7 میل فی سکنڈ ( 11.2 کلو میٹر فی سکنڈ) سے زیادہ ہو تو زمین کی کشش اس کو روک کر واپس لانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی اور وہ راکٹ زمین سے باہر جانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس رفتار کو Escape Velocity کہتے ہیں۔ زمین پر یہ رفتار زمین کے وزن اور اس کے ریڈیس (Radius)پر منحصر کرتی ہے یعنی زیادہ بھاری سیارے سے باہر نکلنے کے لئے زیادہ رفتار چاہیے ہوگی۔ چاند پر Escape Velocity صرف 2.4 کلو میٹر فی سکنڈ ہے۔

نیوٹن کے گریوٹیشنل قوت کے مقولہ کے بعد یہ کہ ’’کائنات یقیناً وقت کے ساتھ پھیل رہی ہے‘‘ آسانی سے 19 ویں، 18 ویں یا 17ویں صدی میں بھی معلوم کی جاسکتی تھی۔ لیکن ساکت کائنات میں سبھی سائنسدانوں کا یقین اس قدر مستحکم تھا کہ حد یہ ہے کہ آئنسٹائن جیسے ذہین عظیم سائنسدانوں نے 1917 میں اپنے گریوٹیشنل مقولہ میں ایک الگ سے Cosmological Constant کو جوڑا تاکہ وہ ایک مستحکم ساکت کائنات کی پیشن گوئی کرے اور گریویٹی کی کشش کے اثر کے خلاف کام کرے۔

Cosmological Constant اصل میں کائناتی خلا کی انرجی ہے۔ 1929 میں ہبل کی تحقیقات کہ ’’ کائنات پھیلتی جارہی ہے‘‘۔ آئنسٹائن نے یہ کہا کہ کائناتی ماڈل کو زبردستی ساکت کرنے کی اس کی کوشش زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی اور پھر اس نے 1931 میں اس Cosmological Constant کو اس نے اپنے مقولوں سے نکال پھیکا۔ موجودہ کائناتی تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ اب کائنات کچھ زیادہ رفتار سے پھیل رہی ہے۔ اس حقیقت کو آئنسٹائن کی گریوٹیشن تھیوری میں شامل کرنے کی وجہ سے پھر Cosmological Constant کو جوڑنے کی ضرورت کا احساس ہو رہا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ صرف ایک ہی فلکیاتی سائنسداں الیکزینڈر فریمان (1888-1925) روسی سائنسداں ایساتھا جس کو بغیر کسی Cosmological Constant کے آئنسٹائن کی تھیوری کہ کائنات کے پھیلنے کی پیشن گوئی پر یقین تھا اور وہ اس کوشش میں لگا رہا کہ برخلاف اور لوگوں کے کیسے پھیلتی ہوئی کائنات کو کیسے سمجھا جائے۔ اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ فریمان نے کائنات کے پھیلنے کو 1922 میں معلوم کرلیا۔ یعنی ہبل کی 1924 اور 1929 کی تجرباتی تحقیقات سے بہت پہلے لیکن یہ نتیجہ یورپ اور امریکی سائنسدانوں میں کچھ زیادہ مقبول نہیں ہوئے۔

آئنسٹائن کی جنرل ریوٹوٹی کی Equations حل کرنا نہایت مشکل کام ہے لیکن اس سے پیشن گوئی کرنے کے لئے حل کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کام کو آسانی سے کرنے کے لئے فریمان نے دو بہت ہی مناسب فریضوں (Assumptions) کا استعمال کیا۔

فریمان نے یہ مان لیا کہ بڑے پیمانے پر کائنات کو کسی بھی سمت دیکھیں وہ ایک جیسا ہی ہے۔ دوسرا فریضہ یہ کہ کائنات کو کہیں سے بھی دیکھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا یعنی وہ ہر جگہ سے اور ہر سمت میں ایک جیسا ہی دکھتا ہے۔ Equations کو حل کرکے ثابت کیا کہ کائانت ساکت نہیں رہ سکتی اور وہ وقت کے ساتھ پھیل رہی ہے۔

بہت عرصہ تک یہ سمجھ رہی کہ شائد گریمان کے دونوں فریضہ خاصہ مناسب ہیں لیکن ان کی سچائی ہمیشہ شبہ میں رہی۔ لیکن محض اتفاق سے ایک ایسا تحقیقاتی نتیجہ سامنے آیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ فریمان کا کائنات کے سلسلہ کا فریضہ اصل میں تقریباً بالکل صحیح ہے۔

1965 میں دو امریکی سائنسدان آرنوپنزیاس اور رابرٹ ولسن ایک بہتر مائکرو ویو آلہ کی تحقیقاتی کام میں مصروف تھے اس آلہ کی خاص ضرورت زمین کے باہر مصنوعی سیاروں سے بہتر مواصلات کے لئے ضروری تھی۔ انہوں نے جس طرح کے سنگنل اپنے آلہ میں دیکھے وہ پریشان کن تھے۔ ان کی امید کے لحاظ سے کہیں زیادہ شور ان کے آلہ میں آرہا تھا۔ پہلے تو ان کو یہ خیال ہوا کہ شائد ان کے آلہ کے باہر لگی بری ڈش پر چڑیوں کی لگاتار گرتی ہوئی بیٹ ی وجہ سے آلہ میں شور آرہا ہے۔ اس طرح تمام وجوہات کو ختم کرنے کے بعد بھی شور میں کوئی کمی نہیں آئی۔ انہوں نے جب بہت احتیاط سے اس شور کا مطالع کیا تو یہ چلا کہ چاہے دن ہو یا رات یا کوئی بھی سمت ہو یا سال کا کوئی مہینہ ہو (یعنی زمین کا سورج کے گرد چکر) ان کے مائکرو ویو آلہ میں آنے والے شور میں کوئی بھی خاص تبدیلی نہیں ہے۔

اس تجربہ کا یہ نتیجہ نکلا کہ یہ شور اصل میں ایک ایسا سنگنل ہے جو کائنات میں چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔ چاروں طرف سے آنے والے سنگنل میں کسی بھی تبدیلی نا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کائنات ہر سمت ایک جیسی ہے۔ یہ مشاہدہ فریمان کے فریضوں کے صحیح ہونے کا ایک بہترین ثبوت ہوا۔ یہ سنگنل (جوشروع میں ایک پریشان کن شور سمجھا گیا) اب سی ایم بی آر کے نام سے مشہور ہے اور اس کی کائناتی تحقیقات میں بہت اہمیت ہے۔ سائنسی تحقیقات کی تاریخ میں اکثر ایسا ہوا ہے کہ اتفاقاً تجسس کی وجہ سے کوئی بالکل ہی نئی کار آمد چیزیں دریافت ہوئی۔

اسی دوران امریکا کی پرنسٹن یونیورسٹی میں دو سائنسداں باب ڈک اور جم پیبل مایکرو ویو سنگنل پر تحقیقات کررہے تھے۔ ان کو جارج گیمو (1904-1968) امریکا میں مقیم ایک روسی سائنسداں (الیکزینڈر فریمان کے شاگرد) نے یہ تجویز کیا کہ کائنات شروع میں بہت گرم، گھنا اور ہزاروں سورج سے زیادہ چمک دار رہا ہوگا۔

انہوں نے یہ سوچا کہ اس روشنی کو ہم شائد اب بھی دیکھ سکتے ہیں کیونکہ کائنات کے بہت دور کے حصوں سے آنے والی روشنی ہم تک اب پہنچ رہی ہوگی۔ لیکن کائنات کے بہت زیادہ پھیل جانے کی وجہ سے یہ روشنی کی فریکونسی کم ہوکر (Red Shift) کی وجہ سے مائکرو ویو کے حصہ میں دکھائی دینی چاہیے۔ ڈک اور پیبل کائنات کی شروعاتی اس روشنی کی کوششوں میں جب لگے تب ولسن اور پنزیاس کو ان کے کام کے بارے میں پتہ چلا۔ وہ تو اس Radiation کو اپنے مائکروویو آلہ میں دیکھ چکے تھے اور ان کو اس دریافت کی اہمیت کا اندازہ ہوا کہ اصل میں یہ شور تو کائنات کی شروعات کی روشنی ہے۔ 1978 میں اس اہم دریافت کی وجہ سے پینزیاس اور ولسن کو نوبل انعام سے نوازہ گیا اور ڈک، پیبل اس انعام سے محروم رہ گئے۔

اس اہم دریافت سے یہ ثابت ہوا کہ بڑے پیمانہ پر کائنات چاروں سمت تقریباً ایک جیسی ہے۔ اس دریافت سے شائد ہم یہ سوچیں کہ ہم اور ہماری زمین ساری کائنات کا محور ہیں اور ہم پوری کائنات کے لئے بہت اہم ہیں لیکن شائد یہ بات زیادہ صحیح ہوگی کہ ہم اگر کسی اور کہکشاں سے بھی مشاہدہ کریں تو چاروں سمت کائنات ایک جیسی دکھے گی، حالانکہ ہم ابھی تک کسی اور کہکشاں سے مشاہدہ نہیں کرسکے ہیں۔ ہم جب نظام شمسی کا محور نہیں ہیں تو کائنات کا محور سمجھنا ذرا انکساری کی روائت کے خلاف ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔