روشنی کے ہزار رنگ ... وصی حیدر

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وصی حیدر

روشنی ایک حیرت انگیز چیز ہے۔ روشنی کے ذریعہ ہم اپنے چاروں طرف کی حقیقت سے روشناس ہوتے ہیں۔ ہم کسی بھی چیز کو جبھی دیکھ پاتے ہیں جب مختلف چیزوں سے روشنی ٹکرا کر ہماری آنکھوں تک پہنچ پاتی ہے۔ روشنی آنکھوں کے پردے پر پہنچ کر دماغ کو اطلاع دیتی ہے تبھی ہمارا ذہن چیزوں کی شکل بنا پاتا ہے۔ ہم جب تجربہ کر کے روشنی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کی حیرت انگیز خصوصیات کا اندازہ ہوتا ہے۔

جب ہم روشنی کو ’کوانٹم مکینکس ‘کے اصولوں کے تحت دیکھتے ہیں تو ایک عجیب چیز یہ معلوم ہوتی ہے کہ روشنی لہروں یا particle دونوں طرح سے سمجھی جا سکتی ہے۔ ہم چیزوں کو یا تو particles کی شکل میں سمجھتے ہیں جیسے Cricket کی بال، کانچ کی گولیاں یا لہروں کی شکل میں جیسے پانی کی سطح پر لہریں یا آواز کی لہریں۔ لیکن روشنی کی یہ ایک عجیب بات ہے کہ یہ دونوں طرح کی خصوصیت رکھتی ہے۔ ہم کو کیا دکھے گا یہ اس پر منحصر ہے کہ روشنی کی کس خصوصیت کو دیکھنا چاہ رہے ہیں۔ روشنی کے particles کو photons کہتے ہیں۔ یعنی روشنی جب کسی چیز سے چلتی ہے تو ہم اس کو قطار در قطار فوٹون کے چلنے کی شکل میں سمجھ سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے بندوق سے گولیاں ایک کے بعد ایک چل رہی ہوں۔ لیکن ایسے سینکڑوں تجربے ہو چکے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روشنی لہروں کی شکل میں چلتی ہے۔

روشنی کی ایک اور حیرت انگیز خصوصیت ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ لہروں کو چلنے کے لیے کسی medium کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے سمندر کی لہروں کو پانی یا آواز کی لہروں کو ہوا کی۔ لیکن روشنی کو کسی میڈیم کی ضرورت نہیں۔ یہ خلا میں چل سکتی ہے۔ اصل میں روشنی سب سے زیادہ تیز رفتاری سے خلا میں چلتی ہے۔ اس کی رفتار تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ خلا میں ہے۔ پانی، شیشہ یا کسی اور Transparent چیز میں روشنی کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ اس کی رفتار کی تیزی کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ یہ ایک سیکنڈ میں زمین کے چاروں طرف سات چکر سے زیادہ لگا سکتی ہے۔ نہ صرف روشنی بہت تیز رفتار سے چلتی ہے بلکہ یہ رفتار سب سے زیادہ ہے۔ فزکس کے موجودہ معلوم اصولوں کے تحت کسی بھی چیز کی رفتار روشنی سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ اور یہ بات دسیوں تجربوں میں ثابت ہو چکی ہے۔

ہم کو یہ خوب معلوم ہے کہ کرکٹ کے کھیل میں تیز گیند پھینکنے والے کھلاڑی دوور سے دوڑ کر گیند کی رفتار کو بڑھاتے ہیں لیکن یہ تجربوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ٹارچ کو ہم کتنی ہی تیزی سے لے کر دوڑیں اس سے نکلنے والی روشنی کی رفتار میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اب ہم روشنی کو ذرا زیادہ باریکی سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ لہریں کیا ہیں! سچائی کو جاننے کا سائنسی طریقہ کار کا اہم جز یہ ہے کہ ہم چیزوں کو تجربہ کر کے ناپ سکیں اور یہ تجربہ ایسا ہونا چاہیے کہ کوئی بھی اس کو کر کے حقیقت معلوم کر سکے۔ تجربہ ہی سچائی کا فیصلہ کرنے والا بادشاہ ہے۔

اگر ہم پانی کی سطح پر چلتی لہروں کو غور سے دیکھیں تو پانی کی سطح اوپر نیچے ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ ایک اوپر اور نیچے کے حصہ کی کل لمبائی کو Wave Length کہتے ہیں۔ کسی ایک جگہ پر ایک سیکنڈ میں کتنی لہریں گزرتی ہیں یہ اس کی فریکوینسی کہلاتی ہے۔ یعنی اگر Wave Length کو فریکوئنسی سے ضرب دیں تو ان لہروں کی رفتار معلوم ہو جائے گی۔ پانی کی لہروں کی اونچائی اس کا Amplitude کہتے ہیں، زیادہ Amplitude کا مطلب زیادہ Energy سے ہوتا ہے۔ اور فریکوینسی لہروں کی خاص پہچان ہے۔

آواز کی لہروں کی ہوا میں رفتار تقریباً 330 میٹر فی سیکنڈ ہے۔ انسانی کان صرف 20 سے لے کر 20000 تک فریکوینسی (لہریں فی سیکنڈ) کی آواز کو ہی سن سکتا ہے۔ فریکوینسی کو vibration فی سیکنڈ (vib/sec) بھی کہہ سکتے ہیں۔ زیادہ فریکوئنسی کا مطلب کم Wave Length اور کم فریکوئنسی کا مطلب زیادہ Wave Lengthہے۔ اس طرح آواز کی لہریں جن کو ہمارا کان سن سکتا ہے ان کی لمبائی تقریباً 17 ملی میٹر سے لے کر 17 میٹر تک ہوتی ہے۔

آواز کی وہ لہریں جن کی فریکوینسی 20000 سے زیادہ ہوتی ہے Ultrasound کہلاتی ہے۔ ان کا استعمال ڈاکٹر پیٹ کے اندر کے اعضا کو دیکھنے کے لیے کرتے ہیں۔ یہ طریقہ بالکل محفوظ اور کسی بھی طرح کی تکلیف کے بغیر استعمال ہوتا ہے۔ چمگادڑ Ultrasound کا استعمال اپنے اڑنے اور کیڑے مکوڑوں کی نشان دہی کرنے میں کرتی ہے۔ آواز میں الفاظ کا فرق یا بچوں، خواتین یا مردوں کی آواز کا فرق ان کی آواز کی فریکوینسی یا Wave Length کا فرق ہوتا ہے۔ بچوں یا خواتین کی آواز میں زیادہ فریکوینسی والے حصہ زیادہ ہوتے ہیں۔

اب یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ آواز کیسے پیدا ہوتی ہے۔ اگر ہم طبلے کی سطح پر ہاتھ سے چوٹ کریں تو وہ تھرتھرانے لگتا ہے۔ اس کی تھرتھراہٹ کی وجہ سے اس کے پاس کی ہوا کے Molecule سکڑتے اور پھیلتے ہیں۔ یہ سکڑن اور پھیلاؤ ہوا کے Molecules میں حرکت پیدا کرتی ہے اور اس طرح سے آواز کی لہریں سکڑن اور پھیلاؤ کی شکل میں آگے بڑھتی جاتی ہے۔ یعنی آواز اصل میں Pressure کی لہروں کی طرح آگے بڑھتی جاتی ہے اور جب یہ ہمارے کان کے پردے سے ٹکراتی ہے تو اس میں بھی وہی تھرتھراہٹ پیدا کرتی ہے اور ہم کو آواز کے سنائی دینے کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ آواز کے لیے ہوا کے Molecule کا سکڑنا اور پھیلنا ضروری ہے اسی لیے آواز خلا میں نہیں پیدا ہو سکتی۔

اوپر کے بیان سے یہ بات صاف ہو گئی کہ کسی بھی Wave کو بیان کرنے کے لیے اس کی رفتار Wave Length اور Frequency میں سے کوئی بھی دو خصوصیات معلوم ہونا کافی ہے۔

سورج سے آنے والی روشنی جو ہماری آنکھوں کو سفید معلوم ہوتی ہے اس کا اگر ذرا باریکی سے تجزیہ کریں تو اس میں ہزار رنگ چھپے ہیں۔ برسات کے زمانے میں Rainbow (قوس قزح) کی خوبصورتی کو ہم سبھی نے سراہا ہے۔ غور سے دیکھیں تو اس میں ہم کو 7 رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ یعنی جب سورج سے آنے والی سفید روشنی ہوا میں پانی کے قطروں سے ہو کر گزری تو یہ راز کھلا کہ اصل میں تو اس میں 7 رنگ ملے ہوئے تھے۔ ان رنگوں کو کیا چیز فرق کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے آواز کے اتار چڑھاؤ کا فرق اصل میں صرف Wave Length کا فرق ہے۔ اسی طرح رنگوں کا فرق صرف Wave Length یا فریکوینسی کا فرق ہے۔ کیونکہ روشنی کی لہروں کی لمبائی بہت کم ہوتی ہے۔ اس لیے سائنس داں اس کو ناپنے کے لیے Angstrom (ایک میٹر کا 1000 کروڑواں حصہ) کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم ان کو آنکھ سے دِکھنے والے یہ 7 رنگوں کی Wave Length ’چار ہزار A سے لے کر سات ہزار Aہے۔‘ (لال رنگ) تک ہوتی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ سورج سے آنے والی روشنی کا بیشتر حصہ انہی 7 رنگوں کی روشنی ہے اور زیادہ تر جانوروں اور انسانوں کی آنکھ ارتقاء کی منزلیں طے کرنے کے بعد ایسی ہے کہ ان 7 رنگوں کو ہی اچھی طرح محسوس کر پاتی ہے۔ اگر کوئی ایسا نظام شمسی ہو کہ جس کا سورج صرف ایکس-ریز ہی اخراج کرتا ہو تو اس کے سیاروں پر ہونے والی مخلوق کی آنکھ ایسی ہی ہونی چاہیے کہ وہ ایکس-ریز کا احساس بالکل اسی طرح کر پائے جیسا کہ ہم ان 7 رنگوں کا کرتے ہیں۔

تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کہ سورج سے آنے والی روشنی میں صرف یہی 7 رنگ نہیں آتے بلکہ ہزاروں اور بھی بہت رنگ ہیں جن کو ہماری آنکھ نہیں دیکھ پاتی۔ اس کو ای ایم ریڈیشن یعنی الیکٹرومیگنیٹک ریڈیشن کہتے ہیں اور ہماری آنکھ کو محسوس ہونے والے یہ سات رنگ تو اس کا ایک بہت ہی چھوٹا حصہ (visible region) ہیں۔ کیونکہ EM radiation ایک Wave ہے اس لیے اس کی Wave کی لمبائی صفر سے لے کر کچھ بھی لامحدود ہو سکتی ہے۔ یعنی اس میں لامحدود رنگ ہوں گے۔ کچھ Wave Length حدوں میں فرق کے احساس کے لیے فرق نام دیے گئے ہیں۔ اگر چھوٹی Wave Length سے شروع کریں تو ان کے نام ہیں گاما (Gamma) ریز، اس سے بڑی ایکس (X-rays) ریز، پھر الٹرا وائلٹ (Ultraviolet)، پھر وہ 7 رنگ (visible region)، انفرا ریڈ (Infrared)، پھر مائیکرو لہریں (Micro Wave) اور سب سے بڑی لہریں ریڈیو لہریں (Radio Wave) کہلاتی ہیں۔ یہ سبھی لہریں ایک ہی کرشمہ کا حصہ ہیں۔ ان میں صرف ان کی Wave Length یا فریکوئنسی کا فرق ہے۔ سب کی خلا میں رفتار (3 لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ) ایک ہی ہے۔ لیکن کسی بھی Medium میں ان سب کی رفتار میں فرق ہے۔ اسی وجہ سے ہم کو سفید نظر آنے والی روشنی جب پانی کی بوندوں سے گزرتی ہے تو 7 رنگوں میں بٹ جاتی ہے۔ کسی میڈیم میں ان 7 رنگوں کے دو کنارے، Violet رنگ کی رفتار سب سے کم اور لال رنگ کی رفتار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

حالانکہ ہم ان لامحدود رنگوں میں سے صرف سات رنگ ہی دیکھ پاتے ہیں لیکن صرف انہی کو استعمال کر کے اپنی دنیا کو ہزاروں رنگوں سے سجا رکھا ہے۔ روشنی کی لہروں میں کیا چیز چلتی اور اس کی اس قدر تیز رفتار کو کیسے ناپا گیا اس کی کہانی جگہ کی کمی ہونے کی وجہ سے اگلے مضمون میں بیان کی جائے گی۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Nov 2017, 11:19 AM