انٹرنیٹ بینکنگ اور سائبر سیکورٹی

کسی بھی پبلک کمپیوٹر جیسے سائبر کیفے، شاپنگ مال اور ایئرپورٹ پر بینک اکاؤنٹ استعمال کرنے سے گریز کریں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مظہر حسنین

ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کو بہت ساری سہولیات فراہم کی ہیں۔یہ جہاں انسانوں کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے وہیں اس کے منفی پہلو بھی ہیں اور جس کی وجہ سے کبھی کبھی بڑے نقصانات کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ بینکنگ آہستہ آہستہ سہولت سے زیادہ ضرورت کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ جہاں کئی فوری سہولیات انٹرنیٹ بینکنگ سے پہلے ناممکنات میں شمار کی جاتی تھیں اب ایک عام سی بات بن کر رہ گئی ہیں وہیں کچھ ایسے خطرات بھی روز مرہ بینکنگ کا حصہ بن گئے ہیں جو انٹرنیٹ بینکنگ سے پہلے نہیں تھے۔ انٹرنیٹ بینکنگ کی سہولت کو محفوظ طریقے سے استعمال کرنے کے لیے مندجہ ذیل نکات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

انٹرنیٹ بینکنگ اور سائبر سیکورٹی

ہمیشہ بینک کی ویب سائٹ تک اپنے محفوظ شدہ بک مارک یا براہ راست ایڈریس بارمیں ویب ایڈریس کو ٹائپ کرکے رسائی حاصل کریں۔ ای میل، ایس ایم ایس یا دوسری ڈیجیٹل دستاویزات میں موجود لنکس چاہے بظاہر محفوظ نظر آتے ہوں استعمال کرنے سے گریز کریں۔ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ جو لنک ای میل یا ایس ایم ایس میں ظاہر ہورہا ہو اصل ربط بھی آپ کو اسی ویب سائٹ پر لے کر جائے؟ فرضی ای میلز غیر قانونی ذرائع سے آپ کے اکاؤنٹ کی ساری معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔ اپنا آئی ڈی اور پاس ورڈ استعمال کرنے سے پہلے اس بات کا اطمینان کرلیں کہ بینک ویب سائٹ مناسب طریقے سے محفوظ کی گئی ہے۔ جدید ویب براؤزرز آپ کے لیے ان تمام چیزوں کو بڑی حد تک یقینی بناتے ہیں چنانچہ حساس ڈیٹا تک رسائی حاصل کرتے ہوئے اپنے براؤزر پر اعتماد کریں۔ اس ہدایات پر توجہ دیں اور ان کی مکمل معلومات رکھیں۔ محفوظ ویب سائٹس کئی طرح سے پرکھی جاسکتی ہیں۔ آپ براؤزر کے اسٹیٹس بار میں انتہائی دائیں جانب ایک تالے کے نشان پر ڈبل کلک کرکے سرٹیفیکٹ چیک کرسکتے ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ تمام نئے براؤزر سرٹیکفیٹ کو خود کار طریقے سے پرکھ کر یو آر ایل بار کے بائیں جانب سبز، پیلا، نیلا یا سرخ رنگ کا نشان بنا دیتے ہیں۔ سرخ رنگ نمایاں ہونے کی صورت میں براؤز ویسے بھی آپ کو انتباہ کرے گا اور فوری طور پر آپ کو اس ویب سائٹ کو بند کردینا چاہیے۔

پیلا اور نیلا رنگ ایک درست سرٹیفیکٹ کی نشاندہی کرتا ہے اور سبز رنگ بینک یا ادارے کے ایکسٹینڈڈ ویلیڈیشن سرٹیفیکٹ کی نشاندہی کرتا ہے ۔جو کم از کم اب بینکوں کو استعمال کرنی چاہیے۔اپنا آئی ڈی، پاس ورڈ اور کارڈز ہمیشہ محفوظ رکھیں اور قریبی لوگوں کو بھی ایڈیشنل کارڈ یا ایڈیشنل اکاؤنٹ کے ذریعے محدود رسائی فراہم کریں۔کسی بھی پبلک کمپیوٹر جیسے سائبر کیفے، شاپنگ مال اور ایئر پورٹ پر بینک اکاؤنٹ استعمال کرنے سے گریز کریں۔ کیونکہ کی بورڈ لاگنگ اور ہاٹ اسپاٹ مانیٹرنگ ٹولز کے ذریعے آپ کے اکاؤنٹ کی معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ غیر محفوظ یا غیر مقبول ویب سائٹوں سے شاپنگ کرتے ہوئے اپنا ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ استعمال نہ کریں۔ ایسی ویب سائٹوں پر شاپنگ کرنے کے لیے پے گیٹ وے جیسے پے پال، گوگل چیک آؤٹ یا ورچوئل کارڈ استعمال کریں۔ اپنا آن لائن اکاؤنٹ روزانہ اور اگر ممکن نہ ہوتو ہفتے میں دو سے تین دفعہ ضرور چیک کریں تاکہ تمام ٹرانزیکشنز پر نظر رکھی جاسکے۔

انٹرنیٹ بینکنگ اور سائبر سیکورٹی

اکثر بینک خود کار ای میل اور ایس ایم ایس کی سہولت فراہم کرتے ہیں جو کسی خاص حد سے بڑی ٹرانزیکشن یا کسی دوسری غیر معمولی صورت حال میں آپ کو فوری اطلاع دیتے ہیں۔ آپ اس سہولت کا مناسب استعمال کیجئے۔ تاکہ آپ محفوظ رہ سکیں۔اپنے حقوق سے مکمل آگاہی حاصل کریں تاکہ کسی بھی واقعے کی صورت میں آپ کے نقصان کی تلافی ہوسکے اور بینک یا ادارے کی کسی غلطی کا خمیازہ کی صورت میں آپ کو اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو نا نہ پڑے۔

انٹرنیٹ سیکورٹی ادارہ سائمینٹک کے مطابق انٹرنیٹ سے منسلک جرائم پیسے بنانے کا ایک بڑا ذریعہ بن چکے ہیں۔ سائمینٹک نے اپنی رپورٹ میں ایسی چیزیں فروخت کرنے والی ویب سائٹوں کا حوالہ دیا ہے جہاں بینک اکاؤنٹس کی تفصیل اور کریڈٹ کارڈ تک فروخت کیے جاتے ہیں۔ ویب سائٹس پر حملے کرنے والا وہ سافٹ ویئر بھی فروخت ہوتا ہے جسے جرائم پیشہ افراد اپنے کاروبار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ جرائم پیشہ افراد مائی اسپیس (My Space) اورفیس بک (Facebook) ،جیسی قابلِ اعتبار ویب سائٹوں کو دوسروں کے کمپیوٹروں پر حملے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔پہلے یہ لوگ صرف شرارتًا کمپیوٹر پر وائرس کے حملے کرتے تھے لیکن اب انہوں نے پیسے بنانے شروع کر دیے ہیں۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب اس طرح کے حملے اربوں ڈالر کی صنعت بن چکے ہیں۔اس میں اُن آن لائن ڈسکشن بورڈز کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں ممبران ایسی معلومات خریدتے اور بیچتے ہیں جس سے دوسرے کی شناخت کی چوری کا قوی امکان ہے۔اس طرح کی ایک سائٹ پر کچھ لوگ سو ملین ای میل اڈریسیسز سے لے کر بینک لاگ انز اور کریڈٹ کارڈز کی تفصیلات فروخت کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ ایسی کٹس(Kits) بھی دستیاب ہیں جنہیں خریدنے والا بینکوں کی جعلی سائٹس بنا سکتا ہے۔ تاکہ صارفین کو پھنسایا جا سکے۔انٹرنیٹ جرائم کی روک تھام کے لیے اب تمام ممالک نے کوششیں تیز کردی ہیں۔ دُنیا کے بیشترممالک نے بھی اس سلسلے میں کچھ قابلِ اعتماد قدم اٹھائے ہیں۔ جن میں باقاعدہ سائبر کرائم سے متعلق قانون سازی بھی شامل ہے۔ انٹرنیٹ جرائم کا نشانہ بننے سے پہلے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔یہ جرائم چھوٹی موٹی شرارتوں سے شروع ہوکر بڑے جرائم کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ایف آئی اے حکام کے مطابق کئی ممالک میں سائبر چوری کے واقعات سامنے آئے ہیں اور انٹر نیٹ فراڈ میں اضافہ ہو رہا ہے ۔جہاں صارف نے پٹرول ڈلوانے کے لیے پٹرول پمپ کے عملے کو اپنا کریڈٹ کارڈ دیا تو اسکِمر مشین کے ذریعے کارڈ کا کوڈ (ٹریک ون،ٹو) چوری کر لیا گیا اور بعد میں عملے نے رقم کے عوض یہ کوڈ ہیکرز کے حوالے کر دیا۔گذشتہ برسوں میں سائبرجرائم میں مسلسل تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اکثر و بیشتر بینک اکاؤنٹ کے تعلق سے اس طرح کے واقعات روزانہ سننے اور اخبارات میں پڑھنے کو ملتے ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس فراڈ سے بچا کس طرح جائے۔ لوگ اپنا کارڈ دکانوں یا پٹرول پمپوں پر رقم کی ادائیگی کے لیے دیتے ہیں۔ اس میں فراڈ سے بچنے کا یہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ جب آپ دوکان یا پٹرول پمپ پر کارڈ دیتے ہیں تو اسے اپنی آنکھوں سے اوجھل مت ہونے دیں۔ سیلز مین پر نظر رکھیں یعنی اس کارڈ کے ذریعے رقم کی ادائیگی اپنے سامنے کروائیں۔جعلی کریڈٹ کارڈ فراڈ قریباً پوری دنیا میں ہو رہا ہے۔گزشتہ دنوں بڑے کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ فراڈ کے معاملے میں 11 افراد پر الزامات عائد کیے ہیں۔ان افراد پر 40 ملین کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ کے نمبر چرا کر انہیں دوسرے لوگوں کو فروخت کرنے کا الزام ہے۔

امریکہ، برطانیہ، ا سپین، روس، ملیشیا اور دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بھی اس طرح کے معاملات سامنے آتے رہتے ہیں لیکن ان ممالک کے پاس جدید سہولتیں موجود ہونے کی بنا پر وہاں جرائم کی شرح کم ہے۔

ای میل اور سوشل نیٹ ورکنگ نا صرف یہ کہ ہمارے معاشرتی رویوں میں بڑی تبدیلی لارہے ہیں بلکہ یہ ان طور طریقوں میں تبدیلی لارہے ہیں جو صدیوں سے جرائم پیشہ لوگ امن پسند لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ سوشل نیٹ ورک یا ایسی تمام ویب سائٹس جہاں آپ کی ذاتی معلومات بطور پروفائل عام لوگوں کے لیے دستیاب ہوتی ہے وہاں مکمل معلومات دینے سے گریز کریں۔ کبھی بھی اپنی مکمل تاریخ پیدائش، اپنی والدہ کا نام یا ایسی کوئی بھی معلومات جس کا کسی دوسرے شخص کا جاننا آپ کی شناخت چوری کا سبب بن سکتا ہے انٹر نیٹ پر نا استعمال کریں۔ غیر ضروری ای میل سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کریں۔لیکن یہ بھی ممکن نہیں کہ اس سے پوری طرح بچا جا سکے۔اس لیے آپ پر لازم ہے کہ غیر ضروری ای میل کو فوراً ختم کر دیں۔

اگر آپ ویب ای میل کے بجائے ڈیسک ٹاپ ای میل کلائنٹ کو فوقیت دیتے ہیں تو ای میل وائرس اور سیکورٹی کے حوالے سے آپ کے خطرات میں کچھ حد تک اضافہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ مشترکہ کمپیوٹر پر اپنا یوزر اکاؤنٹ علیحدہ رکھیں۔ عام طور پر سافٹ ویئر کے غیر قانونی استعمال کے لیے ڈاؤن لوڈ کیے جانے والے ویب صفحات یا وہ پروگرام جو سافٹ ویئر کی(Key) کو توڑتے ہیں یا سیریل نمبر کے لیے موجود ویب سائٹیں وائرس کا سب سے بڑا ماخذ ہوتی ہیں۔ جب آپ کسی سافٹ وئیر کا کوڈ بریک کرتے ہیں تو دراصل آپ ایک انجان ایپلی کیشن کو اپنے کمپیوٹر پر مکمل اختیارات کا مالک بنا دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے کمپیوٹر وائرسوں کا زیادہ شکار ہوتےہیں اور مناسب سافٹ ویئر کے جدیدتر نہ ہونے کے سبب مسائل کا شکار بھی بنتے ہیں۔اپنا کمپیوٹر سسٹم ہر صورت میں اپ ڈیٹ رکھیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔