دنیا کی نصف آبادی انفارمیشن ہائی وے کی مسافر

ورچوئل دنیا میں غوطہ زن اس دنیا کو یہ احساس قطعی نہیں ہے کہ انفارمیشن اور تکنیک کا کثیر استعمال کس طرح جسم اور دل کو ڈپریشن، تناؤ، ذہنی امراض کی گرفت میں لے چکا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مظہر حسنین

اقوام متحدہ کی تنظیم انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین یعنی آئی ٹی یو کی ایک رپورٹ کے مطابق سال کے آخر تک 3.2 ارب سے زائد افراد آن لائن ہو جائیں گے، جبکہ دنیا کی آبادی فی الحال7.2 ارب ہے۔ یعنی دنیا کی تقریباً نصف آبادی انفارمیشن ہائی وے کی مسافر ہے۔ اگر دنیا کی آبادی سے نومولود و کمر عمر بچوں، بزرگوں کی تعداد گھٹادی جائے تو کہنا قطعی غلط نہ ہوگا کہ پوری دنیا ہی انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل طرز زندگی میں ڈوبتی جارہی ہے، جس کو دیکھیے وہ اپنے موبائل فون کا اسیر، اپنی انگلیوں کو رقصاں و پریشاں کیے ہوئے ہے۔

ورچوئل دنیا میں غوطہ زن اس دنیا کو یہ احساس قطعی نہیں ہے کہ انفارمیشن اور تکنیک کا کثیر استعمال کس طرح جسم اور دل کو ڈپریشن، تناؤ، ذہنی امراض کے گرفت میں لے چکی ہے۔ موجودہ دور میں اگر اپنے آس پاس کے انفارمیشن اور تکنیک سے گھرے کسی کام کاجی شخص کے معمولات پر باریکی سے نظر ڈالیں تو اس کا معمول زندگی کچھ اس طرح ہے۔

دنیا کی نصف آبادی انفارمیشن ہائی وے کی مسافر

صبح اٹھتے ہی سوشل میڈیا یعنی فیس بک، واٹس اپ، انسٹاگرام، ٹمبلر یا ٹوئٹر پر اپنے اسٹیٹس میں گڈ مارننگ یا ہیونگ کافی ناؤ اپڈیٹ کر کے آفس جانے کی تیاری ہوتی اور ناشتے کی ٹیبل پر ناشتے سے زیادہ دھیان اس ٹیبلیٹ یا آئی پیڈ پر ہوتا ہے جس میں ای نیوز یا انٹرٹیٹمنٹ کی مفت خوراک دستیاب ہے۔

گھر سے دفتر کی راہ میں کانوں میں ایئر فون لگ جاتا ہے۔ تمام راستے یوٹیوب کے ویڈیو یا آئی ٹیوئس پر گانے سنتے ہوئے دفتر تک کا سفر پورا ہوتا ہے۔

آفس پہنچتے ہی پہلا کام کمپیوٹر کو آن کرنا ہوتا ہے۔ جہا ں کام کی فائلیں جمع کرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی ہلچل پر نظر ڈالنے سے لے کر جی میلنگ کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ اسی انفارمیشن اور تکنیک کی گود میں بیٹھے بیٹھے دو چار پرزنٹیشن نپٹا دیئے جاتے ہیں۔

لنچ بریک ہوتے ہی اسمارٹ فون اپنی اسمارٹ نیس دکھانے لگتا ہے۔ واٹس اپ کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور جی بھر کر گپ شپ، لطیفے کا ذائقہ لیا جاتا ہے۔ اس دوران فون پر بھی خوش گپیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لنچ کے وقفہ کے بعد پھر کمپیوٹر کو شام تک گھور نے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

آفس بند ہوتا ہے اور ایک بار پھر اسمارٹ فون کی بیٹری فل ہوجاتی ہے، جس پر پھر سے ٹوئٹر، فیس بک پر انگلیاں تھرکنے لگتی ہیں۔

گھر پہنچ کر عزیز، رشتہ داروں کو ویڈیو کانفرنسنگ، ویڈیو چیٹ کے لئے لیپ ٹاپ کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور جب تک یہ کھڑکی بند ہوتی ہے تب تو سوتے سوتے گڈ نائٹ یا سوئٹ ڈریم کے آخری اسٹیٹس کے ساتھ دن کے معمولات ختم ہو جاتے ہیں۔ کم وبیش یہی حال اسکول وکالج جاتے طالب علموں کا ہے جبکہ دیگر جوانوں کو بھی اس کی لت ہو گئی ہے۔

ٹیکنالوجی سے گھری یہ طرز زندگی گرچہ پر کشش نظر آتی ہے لیکن پس پردہ یہ ایسی بیماریوں کا بیج بو دیتی ہیں جن کے نتائج سنگین بیماری کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں۔ آج کے دور میں سب کا دل اور جسم انفارمیشن ٹیکنالوجی کی گرفت میں آچکا ہے۔ اس کے ہونے والے خطروں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین میں انٹرنیٹ ایڈکٹ کے لئے ٹریٹمنٹ کیمپ چلتے ہیں۔ یعنی ورچوئل دنیا میں مصروف ہو چکے لوگ اب ذہنی طور پر بیمار ہو رہے ہیں، جن کے علاج کے لئے نئے نئے کیمپ کھل رہے ہیں۔

زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ہندوستان کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ہے۔ دنیا بھر کے ملکوں میں انٹرنیٹ کی لت سے لوگوں کو نکالنے کے لئے اسپیشلسٹ سینٹر ہوتے ہیں۔ ویسے ہی ہندوستان میں بھی کھلنے شروع ہو چکے ہیں۔ دہلی کے ایک این جی او ’سینٹرفار چلڈرن ان انٹرنیٹ اینڈ ٹیکنالوجی ڈسٹریس‘ انٹرنیٹ کی لت سے متاثر بچوں کی کاؤنسلنگ کرتا ہے۔

دنیا کی نصف آبادی انفارمیشن ہائی وے کی مسافر

یہ این جی او ورکشاپ، کاؤنسلنگ سیشن وغیرہ کا انعقاد کرتا ہے، جس میں بچے اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔ بچوں کو ساتھ بیٹھا کر انڈور گیمس کھلائے جاتے ہیں۔ انہیں انٹرنیٹ سے دورکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مایوسی کا یہ عالم ہے کہ دنیا بھر کے ریسرچ اسکالروں میں یہ بحث ابھی بھی چل رہی ہے کہ انٹرنیٹ ایڈکشن کو مینٹل ڈس آرڈر کی لسٹ میں رکھا جائے یا نہیں۔ یعنی انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کی یہ دنیا آپ کے جسم کو نہ صرف بیمار کر رہی ہے بلکہ دل کو پاگل پن کی حد تک لے جانے پر آمادہ بھی ہے۔ آج نوجوان نسل موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعہ نیٹ ورکنگ سے لگاتار جڑے ہوئے ہیں۔ اس سے روزمرہ کی زندگی میں غیر متوقع طور سے مصروفیت بڑھ گئی ہے جو اپنے آپ میں تناؤ کی ایک بڑی وجہ ہے۔

قابل غور پہلو یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی جس میلی گنگا میں پوری دنیا ڈبکیاں لگانے کے لئے بیتاب دکھتی ہے وہاں کام کی جانکاری ملے نہ ملے دل کو بھٹکانے، بیمارکرنے والے مادّے بے تحاشہ پائے جاتے ہیں۔ مثلاً 37 فیصد ویب میں پورن بھرا ہے جبکہ 30 ہزار ویب سائٹس روز ہیک ہوتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، امن اور سکون کے لئے معقول مانے جانے والے ماؤنٹ ایوریسٹ تک ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ کی پہنچ ہوچکا ہے۔ عالم یہ ہے کہ انٹرنیٹ ٹریفک میں انسانوں سے زیادہ گوگل بوٹ اور مالوئیر رہتے ہیں۔ روز تقریباً ایک لاکھ نئے ڈاٹ کوم ڈومین رجسٹر ہوتے ہیں۔ اور تو اور چین میں پی سی سے زیادہ موبائل انٹرنیٹ یوزر ہیں۔ یہ تمام اعداد شمار بتاتے ہیں کہ آج کے دور میں انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے ذریعہ بری طرح لوگوں کو گرفت میں لے رہے ہیں اورآنے والا زمانہ تو پوری طرح مشینوں کی گرفت میں ہوگا۔

دنیا کی نصف آبادی انفارمیشن ہائی وے کی مسافر

ذاتی استعمال کے علاوہ معاشرہ کو بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی بے راہ بے وجہ استعمال نے بری طرح متاثر کیا ہے۔ سوشل میڈیا میں سرگرداں افواہوں کے چلتے لوگ اپنے اپنے گھروں کو بھاگنے پر مجبورہوگئے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں انفارمیشن یعنی اطلاع کی زیادتی بن کر لوگوں کے دل میں گھر جانا یا قومی سطح پر تذکروں کا موضوع بننا دیپکا پڈوکون کے ’مائی چوائس‘ ویڈیو، اے آئی بی روسٹ یا ایسے ہی کسی سنسنی خیز ویڈیو کے وائرل ہونے کے دوران دیکھا جاتا ہے۔ اس دوران ہر کوئی اپنا ضروری کام چھوڑ دل و جان سے انہیں اطلاعات کو شیئر کرنے، کمنٹ کرنے یا بحث کرنے میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ دل کو بے چین کرنے والے ڈیجیٹل ورلڈ میں غیرسماجی و غیرمہذب اشیاء بھی بھری پڑی ہیں۔ پراگندہ ذہنیت والے لوگ جو بیہودہ ویڈیو، ریپ کے واقعات سے متعلق ویڈیو کو چٹخارے لے کر شیئر کرتے ہیں یا پھر پورن چیزیں، ایم ایم ایس اپلوڈ کرتے ہیں، وہ جوانوں تک پہنچ کر ان کے دل میں سوائے گندگی کے اور کچھ نہیں بھرتے۔ اسی کڑی سے بگڑے نوجوان سائبر کرائم کی چپیٹ میں الجھتے جاتے ہیں جہاں ویب سائٹ ہیک کرنا یا پھر انٹرنیٹ پر ٹھگی جیسی وارداتیں سامنے آتی ہیں۔ سیکڑوں نوجوان تو آن لائن دنیا میں عاشقی کے چکر میں صرف دھوکہ ہی کھاتے ہیں۔ کوئی فرضی آئی ڈی بنا کر فیس بک کا رسیا عشق میں انہیں الجھا کر ان کا جسم، دل اور دولت سب لوٹ لیتا ہے تو کوئی اس انفارمیشن تکنیک کا غلط استعمال کر دہشت گردی کی وارداتوں کو انجام دینے سے نہیں چوکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ انٹرنیٹ کی شاہراہ پر بے غرض سفر سے گریز سود مند ثابت ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔