سوال نہ پوچھنے والے سماج کی تشکیل ایک سازش ہوتی ہے

Getty Images
Getty Images
user

گوہر رضا

اگر کسی ملک یا سماج میں صرف عقیدے اور یقین کی بنیاد پر فیصلے لیے جانے لگیں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ملک یا سماج اندھیروں کی طرف گامزن ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ ’زمین گول نہیں چپٹی ہے‘، شاستروں میں ہوائی جہاز کی تشکیل کا تذکرہ ہے، میرا عقیدہ ہے کہ گئو موتر سے کینسر ٹھیک ہو جاتا ہے، یا یہ کہ زمانۂ قدیم میں ہندوستان میں سرجری ہوتی تھی، اور گنیش اس کی زندہ مثال ہیں، جیسا کہ مودی نے سائنس کانگریس میں کہا تھا۔ اور اگر مجھے عقیدہ کی بنیاد پر معجزوں میں یقین ہے،تو ان سارے عقیدوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں۔

اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ ہماری پرانی کتابوں میں سارا گیان ہے، ساری سائنس ہے، ہر جواب موجود ہے۔ اس کے تین مطالب ہیں۔ ایک تو یہ کہ انھوں نے اپنی مذہبی کتابیں اگر پڑھی بھی ہیں تو سمجھی نہیں۔ دوسرا یہ کہ وہ نہ مذہبی کتابوں سے علم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور نہ کہیں دوسری جگہ سے۔ علماء، پنڈتوں اور بہروپیوں سے جو اَناپ شناپ ان تک پہنچ جاتا ہے اسی تک محدود رہنا چاہتے ہیں۔ اور تیسری بات یہ کہ وہ نہ سوال اٹھانا چاہتے ہیں نہ جواب تلاش کرنے کی مشکلوں میں پڑنا چاہتے ہیں۔ وہ شعبدہ بازوں اور زبان درازوں کو اپنی سوچ، اپنے سوال اور ہر سوال کا جواب گروی رکھ دیتے ہیں۔

یہ حکومت جب سے آئی ہے عوام کے درمیان سائنسی نظریہ کے فروغ کو کچلنے میں لگی ہے۔ سائنسی نظریے کی بنیاد سوال پوچھنا اور پوچھے گئے سوال کا جواب سائنسی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے تلاش کرنا ہے۔ وہ سوال قدرت کے قوانین کے بارے میں بھی ہو سکتا ہے، سماجی یا انفرادی پریشانی کے بارے میں بھی۔

ہمارے ملک میں آج کارپوریٹ سیکٹر، سیاسی قائد اور بابا جنھوں نے توہم کا بازار گرم کر رکھا ہے، عوام کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر بابا عوام کو یہ یقین دلانے میں لگے ہیں کہ ’’ان کی ساری پریشانیاں ’گئو موتر‘ پینے سے یا ’لوکی کا عرق‘ پینے سے یا ’ایک خاص طرح سے پکی ہوئی کھیر‘ کھانے سے یا ’گنیش کو دودھ‘ پلانے سے دور ہو جائیں گی۔ سوال پوچھنے کی کوئی گنجائش نہیں، بس چڑھاوا دینا ضروری ہے۔ سیاسی نیتا یہ چاہتے ہیں کہ باباؤں کی تیار کی ہوئی زمین پر وہ ووٹوں کی فصلیں اگا سکیں، تین طلاق، لو جہاد، رومیو اسکواڈ، گئو رکشا اور حال میں ’کون کتنے بکرے ذبح کر رہا ہے‘ میں عوام الجھے رہیں۔ سوال نہ پوچھیں کہ ’کالے دھن‘ کا کیا ہوا، نوکریاں کہاں ہیں، دہشت گردی کم ہوئی کیا۔ کارپوریٹ سیکٹر مزدوروں سے 12 گھنٹے نوکری کرا کے ’آرٹ آف لیونگ‘ اور ’یوگا‘ میں مصروف رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ یہ سوال ہی نہ پوچھیں کہ ان کی تنخواہ کیوں نہیں بڑھ رہی، ان کے ’ٹارگیٹ کمر توڑ محنت کے باوجود کیوں نہیں پورے ہو رہے‘۔ ملک میں ان تینوں کا ایک ناپاک گٹھ جوڑ ہے، یہ نہیں چاہتا کہ لوگ صحیح سوال پوچھیں۔ یہ گٹھ بندھن سازش میں لگا ہے کہ سائنسی سوچ کو کچل کر رکھ دے۔ میڈیا اس سازش میں پوری طرح شریک ہے اور سماج کو اندھیروں کی طرف ڈھکیل رہا ہے۔ سب خاموش ہو جائیں اور سوال نہ پوچھیں۔ ایک ایسا سناٹا پھیل جائے جس کی بنیاد ڈر ہو۔ وہی ڈر جس کو قائم رکھنے کے لیے آریہ بھٹ کو ذات سے باہر کیا گیا، منصور کو پھانسی دی گئی، برونو کو جلایا گیا، گیلیلیو کو نظربند کیا گیا اور ارتقا کی تھیوری کے موجد ڈارون کو ذلیل کیا گیا۔ انھوں نے سوال پوچھے اور جواب تلاش کیے جو مانیتاؤں اور عقیدوں کے خلاف تھے۔

پتہ نہیں انسان نے پہلا سوال کب پوچھا ہوگا اور سوال پوچھنے کا سلسلہ کتنا پرانا ہے۔ اگر ہم ان سوالوں پر دھیان دیں جو بچے عمر بڑھنے کے ساتھ پوچھتے ہیں تو لگے گا کہ انسان نے بھی ارتقا کے الگ مدارج پر یہ سوال پوچھے ہوں گے اور جس طرح بچے ان سوالوں کا جواب پانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں اسی طرح انسان نے بھی اِن سوالوں کا جواب پانے کی جستجو کی ہوگی۔ والدین اور اساتذہ کو میں نے اکثر بچوں کو ان کے بے لگام سوال پوچھنے پر اکثر ڈانٹتے سنا ہے۔

بہت سارے ایسے سوال ہیں جوآج کے اس دور میں سوائے بچوں کے اگر کوئی عمر رسیدہ پوچھے تو تعجب کی نظر سے دیکھا جائے گا، جیسے دن رات کیسے بنتے ہیں؟ یا ہماری زمین نے کیسے گول شکل اختیار کی ہے؟ چاند تارے آسمان میں کیسے دکھائی دیتے ہیں؟ اگر آسمان کچھ نہیں ہے تو تارے ہمیں کس چیز میں جڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں؟

اگر اِن سوالوں میں ’کیسے‘ نکال کر ’کیوں‘ کر دیا جائے تو ہر سوال کا جواب بڑی آسانی سے دیا جا سکتا ہے۔ دن رات کیوں بنتے ہیں؟ خدا، بھگوان یا گاڈ کی مرضی سے۔ یا ہماری زمین نے کیوں گول شکل اختیار کی ہے؟ خدا، بھگوان یا گاڈ کی مرضی سے۔ اگر آسمان کچھ نہیں ہے تو تارے ہمیں کیوں جڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں؟ خدا، بھگوان یا گاڈ کی مرضی سے۔ سوال کا جواب وہی رہے گا بس عقیدہ کے حساب سے کائنات کے خالق کا نام بدل جائے گا۔ میں بار بار یہ بات دہرانا چاہتا ہوں کہ کیوں سے شروع ہونے والے سوال مذہبی عقائد کی طرف لے جاتے ہیں اور کیسے سے شروع ہونے والے سوال ہمیں سائنسی کھوج کی طرف۔ یہ بات ذہن نشیں کرنے کے بعد جب میں انسانی دریافت اور کھوج کے ارتقا پر نظر ڈالتا ہوں تو بہت ساری باتیں صاف ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔

جو لوگ، یعنی حکومت چلانے والے، فاشسٹ، ملّا اور پنڈے، کارپوریٹ کمپنیوں کے منیجرس اور مالک ’کیسے‘ سے شروع ہونے والے سوالوں سے بہت ڈرتے ہیں۔ اس لیے پوری کوشش کرتے ہیں کہ ایسے سوال ہی نہ پوچھے جائیں جو ’کیسے‘ سے شروع ہوں۔ ایک طرف سائنس پر خرچے کا کم ہونا اور دوسری طرف ملک میں ایک ایسا ماحول بنانا جہاں سائنسی سوچ نہ پنپ سکے صرف ہماری نسل نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے خلاف سازش ہے۔ 70 سال پہلے جب ملک آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ غریب تھا ہم نے ’سائنسی نظریہ پھیلانے‘ اور ’ہر طرح کی سائنس‘ پر خرچ کرنے کا فیصلہ لیا۔ اسی فیصلے کا نتیجہ ہے کہ آج 70 سال بعد ہمارا ملک کئی شعبوں میں دوسرے ملکوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔ جو فیصلہ 70 سال پہلے لیا گیا تھا اس کی فصلیں آج ہماری نئی نسلیں کاٹ رہی ہیں۔ آج کے دور میں سائنس پر خرچ گھٹانا اور سائنسی نظریے سے عوام کو دور ہٹانے کا سنگین انجام شاید آج نہ دکھائی دے مگر مستقبل کے ملک کو ضرور کمزور کر دے گا۔ غیر سائنسی نظریات نے ہمیں کل بھی تاراج کیا تھا اور کل بھی تاراج کر سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔